چند متفرق سوالات:

سوال:(1) قرآن کریم میں ’’حق‘‘ کی اصطلاح کن کن معنوں میں استعمال ہوئی ہے؟ اور وہ معنی ان مختلف آیات پر کس طرح چسپاں کیے جاسکتے ہیں جو تخلیق کائنات بالحق، کتاب بالحق، رسالت بالحق اور لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ(الانفال8:8) کے تحت کی ہم آہنگی، تسلسل اور ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہیں؟

(۲) قرآن کریم میں کتاب کے ساتھ میزان اتارنے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اسکا کیا مطلب ہے؟ الہامی قانون کے ساتھ وہ کون سی ترازو اتاری گئی ہے جس پر ہم اپنی سوسائٹی کے جواہر اور سنگ ریزوں کے وزن اور قیمت کا اندازہ کرسکیں۔ مفسرین کا یہ کہنا کہ انسانیت کے اخلاقی اعتدال کا نام میزان ہے، درست نہیں ہو سکتا۔ اول تو شخصی ضمیر کے اخلاقی احساسات سچائیوں کا صحیح وزن و قیمت متعین نہیں کر سکتے۔ دوسرے یہ کہ میزان کے ساتھ کتاب اتاری گئی ہے اور انسانی ضمیر کی میزان پیغمبروں اور کتابوں کے ساتھ نہیں اتاری جاسکتی، وہ پہلے بھی تھی اور بعد کو بھی رہے گی۔

(۳) مذہب کا پروگرام اگر انسانی فطرت کے لیے کشش رکھتا تھا تو متقی لوگوں نے کسی بھی ملک و قوم میں بہتر سوسائٹی بنانے میں کیوں کامیابی حاصل نہیں کی، اگر انسانیت کی پوری تاریخ میں بھی مذہب کامیاب نہیں ہو سکا تو آج کیوں کر اس سے امن و ترقی کی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ انسانی فطرت ہی میں خرابی مضمر تھی، مفید نہیں ہوسکتا۔ مذاہب حق کو زندہ کرنے اور باطل کو مٹانے کے لیے کام کرتے رہے مگر نتیجہ تھوڑے وقفے کو چھوڑ کر ہمیشہ الٹا ہی نکلا اور تاریخ کے سیلاب کا رخ نہ بدلا، یا بالفاظ دیگر شیطان کی طاقت شکست نہ کھا سکی؟

(۴) پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ کیوں بند ہوگیا؟ کیا انسانی شعور کو آج ان کی ضرورت باقی نہیں رہی؟

جوابات:

(۱)حق کے معنی اور استعمالات:

حق کا لفظ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ حقیقت (Reality) کے معنی میں آیا ہے، کہیں استحقاق(Right) کے معنی میں، اور کہیں مقصدیت (Purposiveness) کے معنی میں ہے۔

تخلیق کائنات کے سلسلے میں جہاں کہیں یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان کو بالحق پیدا کیا ہے، اس سے مقصود ایک طرف تو یہ بتانا ہوتا ہے کہ کائنات محض کھیل کے طور پر بے مقصد نہیں بنا دی گئی ہے کہ کچھ مدت اس سے دل بہلا کر اسے یونہی بے نتیجہ ختم کردیا جائے۔ اور دوسری طرف یہ بتانا بھی پیش نظر ہوتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے ہنگامے بے حقیقت نہیں ہیں جیسا کہ بعض فلسفیوں اور مذہبی گیانیوں کا تصور ہے، بلکہ یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے جس کے کسی پہلو کو محض کھیل نہیں سمجھنا چاہیے۔ نیز بعض مقامات پر اس ارشاد سے یہ بتانا بھی مقصود ہوتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کا سارا نظام ’’حق‘‘ پر مبنی ہے، جس میں باطل کے لیے کوئی ثبات اور وزن نہیں ہے۔

(۲) نزول میزان کا مطلب:

’’میزان سے مراد وہ ذہنی توازن اور وہ جانچنے اور تولنے کی صلاحیت اور صحیح و غلط کا موازنہ کرنے کی قوت ہے جو صرف انبیا علیہم السلام اور کتاب الٰہی اور طریقہ انبیا سے حکمت و ہدایت اخذ کرنے والوں میں پیدا ہوتی ہے۔ محض پیدائشی اعتدال فکر یا فسلفیانہ غور و خوض اور لادینی اخلاقی تعلیمات سے بظاہر جو توازن پیدا ہوتا ہے، وہ حقیقی توازن نہیں بلکہ اس میں بہت افراط و تفریط باقی رہ جاتی ہے۔ یہ چیز صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو آیات الٰہی میں تدبر کرتے ہیں اور انبیا علیہم السلام کی زندگیوں کا غائر مطالعہ کرکے ان سے علم کی روشنی اور حکیمانہ بصیرت حاصل کرتے ہیں۔

’’کیا دین حق، ناکام رہا ہے؟‘‘

(۳) آپ کا یہ سوال جتنے مختصر لفظوں میں ہے، اتنے مختصر لفظوں میں اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا، تاہم اگر محض اشارات سے آپ کی تشفی ہو سکے تو جواب یہ ہے کہ اول تو آپ لفظ مذہب کے نام سے جس چیز کو مراد لیتے ہیں، اس کا تعین کریں۔ اگر مذہب کا لفظ آپ جنس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس میں ہر قسم کے مذاہب شامل ہیں تو اس کی طرف سے جواب دہی کرنا میرا کام نہیں ہے اور اگر مذہب سے آپ کی مراد، دین حق، یعنی وہ دین ہے جس کی تعلیم ابتدائے آفرینش سے انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی رہی ہے اور جس کا نام عربی زبان میں اسلام ہے، تو وہ مجموعہ ہے ان اصولوں کا جو کائنات کی واقعی حقیقتوں پر مبنی ہیں اور بجائے خود صحیح ہیں، خواہ انسان ان کو مانے یا نہ مانے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے مثلاً حفظان صحت کے اصول ہیں کہ وہ انسان کے جسم کی ساخت اور اس کے اعضاء کی حقیقی فعلیت اور اس کے طبعی ماحول کا واقعی حقیقوں پر مبنی ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق کھانا، پینا، سانس لینا، آرام کرنا وغیرہ لازمی طور پر انسان کو تندرست رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص یا ساری دنیا مل کر بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حفظان صحت کے اصول باطل ہیں، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی پابندی کرنا انسانی فطرت کا تقاضا نہیں ہے، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصول ٹوٹ گئے اور شکست کھا گئے، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی خلاف ورزی نے ان اصولوں کا کوئی نقصان کیا ہے۔ بلکہ درحقیقت اگر انسان ان اصولوں کے خلاف چلتے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے اور نقصان ان کا اپنا ہے نہ کہ ان اصولوں کا۔ پس آپ جس چیز کو مذہب کی ناکامی کہہ رہے ہیں، وہ مذہب کی ناکامی نہیں، انسانوں کی ناکامی ہے۔ مثال کے طور پر مذہب ہم کو امانت کی تعلیم دیتا ہے۔ اب اگر تمام دنیا کے انسان مل کر خیانت شروع کردیں اور امانتوں کو ضائع کرنے لگیں تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ مذہب ناکام ہوا؟ مذہب کی ناکامی تو اس صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ یا تو یہ ثابت ہوجائے کہ فطرت کائنات اور فطرت انسان امانت کی نہیں خیانت کی مقتضی ہے، یا یہ ثابت ہو جائے کہ انسانی زندگی کا حقیقی امن اور تمدن انسانی کا قابل اعتماد استقلال اور تہذیب کا ارتقاء امانت سے نہیں بلکہ خیانت سے قائم ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت نہیں ہوتا اور نہیں ہو سکتا تو انسانوں کا امانت چھوڑ کر خیانت کو اختیار کرنا اور اس سے اخلاقی، روحانی اور تمدنی نقصانات اٹھانا انسانوں کی ناکامی کا ثبوت ہے نہ کہ ’’مذہب‘‘ یا دین کی ناکامی کا۔ اسی طرح جتنے اصول دین نے پیش کیے ہیں یا بالفاظ دیگر جن اصولوں کے مجموعے کا نام ’’دین حق‘‘ ہے، ان کو جانچ کر دیکھیے کہ وہ حق ہیں یا نہیں؟ اگر وہ حق ہیں تو ان کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ اس بنا پر نہ کیجیے کہ انسانوں نے اس کی پابندی کی ہے یا نہیں۔ انسانوں نے جب بھی ان کی پیروی کی تو وہ خود کامیاب ہوئے اور اگر ان کی پیروی نہیں کی تو وہ خود ناکام ہوئے۔

ختم نبوت کی صحیح توجیہ:

(۴) جو لوگ ختم نبوت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ انسانی شعور کو اس کی ضرورت نہیں رہی، وہ دراصل سلسلہ نبوت کی توہین اور اس پر حملہ کرتے ہیں۔ اس تعبیر کے معنی یہ ہیں کہ صرف ایک خاص لاشعوری حالت تک ہی اس ہدایت کی ضرورت ہے جو نبی لاتے ہیں۔ اس کے بعد انسان نبوت کی رہنمائی سے بے نیاز ہو گیا ہے۔

جب تک انسانی تمدن اس حد تک نہیں پہنچا تھا کہ کسی نبی کا پیغام عام ہو سکے اور انسانوں کی کوئی ایسی امت تیار نہ ہو سکی تھی کہ نبی کے پیغام اور اس کی تعلیم اور اس کے اسوہ حسنہ کو محفوظ رکھ سکے اور دنیا کے گوشے گوشے میں اسے پھیلاسکے، اس وقت تک سلسلہ نبوت جاری رہا اور مختلف قوموں اور ملکوں میں نبی بھیجے جاتے رہے، مگر جب ایک طرف تو تمدن اس حد تک ترقی کر گیا کہ ایک نبی کا پیغام عالم گیر ہوسکتا تھا اور دوسری طرف ہدایت حق قبول کرنے والوں کی ایک ایسی امت بھی بن گئی جو کتاب الٰہی اور کتاب کے لانے والے کی سیرت اور اس کی مکمل رہنمائی کو جوں کی توں محفوظ رکھنے کے قابل تھی تو نبوت کی خدمت پر مزید کسی آدمی کو مامور کرنے کی حاجت نہ رہی ۔

(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ، ستمبر ۱۹۵۴ء)