تفہیم القرآن پر چند اعتراضات
سوال: میں قرآن شریف کا چند تفسیروں کے ذریعے مطالعہ کر رہا ہوں۔ پہلے جناب کی تفسیر تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتا ہوں، پھر تفسیر جلالین، تفسیر خازن اور دیگر مختلف تفاسیر کا بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ بعض مقامات پر آپ قدیم مفسرین سے کافی اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے طبیعت میں شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ میں چند تعارفی مقامات پیش کرتا ہوں۔ توقع ہے کہ آپ تسلی بخش جواب تحریر فرمائیں گے۔
(۱) تفہیم القرآن جلد اوّل میں حروف مقطعات کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اس اسلوب سے کام لیتے تھے۔ آپ کا یہ قول جمہور مفسرین کے خلاف ہے۔ تفسیر مدارک اور معالم میں ہے: اللہ اعلم بمرادہ اشارۃً الیٰ ما اختارہ جَمْھُورُ السَّلْفِ وَالْخَلْفِ اَنّ الحروفَ المُقَطَّعَۃَ من المتشابھاتِ التی لا یعلم تاویلُھا الا اللہ کما قال الشعبیُ وجماعۃٌ الف لام میم وسائر حروف الھجاء فی اوائل السُّوَرِ منَ الْمتشابہ الذی اِستاثرَ اللہ تعالیٰ بِعلمِہ وھو سِٰرُّ القرآن فنحن نؤمن بظاھر ھا وکلُ العلم الی اللہ وفائدۃُ ذکرھا طلبُ الایمانِ بھا قال ابوبکرِ الصدیق رضی اللہ عنہ فی کل کتاب سِرُو سِرُّ اللہ تعالیٰ فی القرآن اوائل السُّوَر حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام ؓ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔ آپ کے خیال کے مطابق اگر اس وقت حروف مقطعات کا استعمال ہوتا تو حضرت صدیق اکبر ؓ اور حضرت علیؓ ضرور اس کا مطلب بیان فرماتے۔ عبارت مذکورہ بالا سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام سلف و خلف ان حروف کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے تھے۔ جب صحابہ کرامؓ نے ان کا کوئی معنی متعین نہیں فرمایا تو معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ادباء و شعراء ان حروف کو آپ کے خیال کے مطابق استعمال نہیں کرتے تھے۔ ہاں البتہ بیضاوی نے ایک دل پسند بات لکھی ہے کہ حروف مقطعات میں مشرکین مکہ کو تحدی ہے کہ یہ وہی حروف ہیں جن سے تم اپنے کلام مرکب کرتے ہو اور انہی حروف سے یہ کتاب اللہ بھی مرکب ہے۔ مگر اس کے باوجود تم ایسا کلام بنا کر نہیں لا سکتے۔
(۲) رفع مسیح الی السماء میں بھی آپ نے مفسرین سے اختلاف کیا اور رفع کے مفہوم کو ابہام میں ڈال دیا۔
(۳) اصحاب کہف کے متعلق جب کہ ان کے غار میں سونے کی مدت قرآن میں صریحاً مذکور ہے۔ آپ نے تاریخ پر اعتماد کرتے ہوئے تفاسیر قدیمہ بلکہ قرآن کے بھی خلاف لکھا ہے۔
(۴) وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمْ الْغَمَامَ کی آپ نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ بھی مفسرین کے خلاف ہے، بلکہ قرآن مجید کے بھی خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ کے الفاظ نے آپ کی تفسیر کی واضح تردید کر دی ہے۔
(۵) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہجرت جب کہ ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی اور ایک ظالم بادشاہ نے بد فعلی کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس ظالم کو اپنی قدرت قاہرہ کے ساتھ اس ارادے سے باز رکھا۔ آپ نے یہاں بھی اختلاف کیا ہے اور اس واقعہ کو لغو قرار دیا ہے۔
آپ ان مقامات پر نظر ثانی فرمائیں یا اپنے خیالات سے رجوع فرمائیں یا مسکت دلائل تحریر فرمایا کریں ۔ آپ کے مخالفین، خدا انہیں ہدایت دے، ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
جواب: آپ کے سوالات کے جوابات نمبر وار حسب ذیل ہیں:
(۱) حروف مقطعات کے معنی
حروف مقطعات کے بارے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے، اس کی بنیاد دو امور پر ہے، اول یہ کہ نزول قرآن کے زمانے میں کفار نے ہر طرح کے اعتراضات کیے، مگر یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ اس قرآن میں یہ حروف کیسے ہیں جن کا کوئی مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ ان کو یہ بات تو مطمئن نہیں کر سکتی تھی کہ یہ متشابہات ہیں جن کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ مومنین صحابہ تو اس پر مطمئن ہو سکتے تھے مگر کفار کیسے مطمئن ہو جاتے؟ لامحالہ اس کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے کہ طرح طرح کے اعتراضات چھانٹنے والے لوگوں نے اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔
دوم یہ کہ عرب کے خطبات اور اشعار میں اس طرح کے حروف استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلوب ان کے ہاں رائج تھا، اور میرے نزدیک ان حروف پر کفار کے معترض نہ ہونے کی وجہ یہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ بعض صحابہ کرامؓ کے یہ اقوال روایات میں نقل ہوئے ہیں کہ ان حروف کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔ مگر روایات ہی میں بعض دوسرے صحابہ کرامؓ کے ایسے اقوال بھی ملتے ہیں جن میں ان کی تاویل بیان کی گئی ہے۔ رہا بیضاوی کا وہ ارشاد جسے آپ نے دل پسند قرار دیا ہے، تو میرا اس سے اطمینان نہیں ہوا۔ آپ کا اطمینان اگر ہو گیا ہو تو بہت اچھا ہے۔ مطلوب تو بہرحال قلب کا اطمینان ہی ہے۔ میں آپ کو خواہ مخواہ بے اطمینانی میں مبتلا کرنے کی کوشش کیوں کروں۔
(۲) رفع مسیح علیہ السلام کی کیفیت
رفع مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ سیدنا مسیح علیہ السلام کے جسداً آسمان پر اٹھا لیے جانے کی تصریح نہیں کرتے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس مفہوم کے متحمل بھی نہیں ہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن مجید رفع الٰی السماء کی تصریح کر رہا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی تفسیر میں ہم اتنی ہی بات کہنے پر اکتفا کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ’’اٹھا لیا‘‘۔ اس کے مختلف معانی میں سے کسی ایک کی تعیین قرآن سے باہر جا کر تو کی جا سکتی ہے، مگر بہرحال اسے قرآن مجید کی تصریح نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس پر اگر آپ کو ابہام کی شکایت ہے تو میں عرض کروں گا کہ اس قصے کے بعض دوسرے اجزا بھی مبہم طریقے سے ہی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً ایک یہی امر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دشمنوں کی قید میں تھے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کو صلیب دینے کا فیصلہ کیا تو آخر وہ کیا صورت پیش آئی کہ وہ آپ کی جگہ کسی اور کو صلیب دے بیٹھے اور اس شبہ میں رہے کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو صلیب دی ہے۔ نہ صرف وہ بلکہ خود پیروان حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی شبہ میں پڑ گئے۔ کیا شُبِہَ لَھُمْ کی کوئی تفصیلی کیفیت قرآن کو ان میں کہیں ملتی ہے؟ اب اگر ہم کسی بیرونی ذریعے سے اس کی کوئی تفصیل کریں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ تفصیل خود قرآن مجید بیان کر رہا ہے۔
اصحاب کہف کی مدت نوم:
(۳) اصحاب کہف کے زمانہ نوم کی مدت کے بارے میں میرے بیان پر جو اعتراض آپ نے کیا ہے، اس کا جواب آپ کو تفہیم القرآن ہی میں مل جاتا، اگر آپ پورے قصے کی تفسیر اس میں دیکھ لیتے۔ یہ تو آپ نے بڑی سخت بات کہہ دی کہ قرآن مجید صریحاً مدت کی تعیین کر رہا ہے اور پھر بھی تم نے تاریخ پر یقین کر لیا اور قرآن کی تصریح رد کر دی۔ کیا آپ ایسے شخص کو مسلمان مان سکتے ہیں جو قرآن مجید کو چھوڑ کر تاریخ پر ایمان لائے؟ میں تو ایک لمحے کے لیے بھی اسے کافر قرار دینے میں تامل نہ کروں گا۔ اب ذرا آپ سورہ کہف کی اس آیت پر غور فرمائیے کہ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا ( 25 ) قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا(الکہف 18:26:25) کیا یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدت نوم کی تعیین ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو قل اللہ اعلم بما لبثوا کا فقرہ بے معنی ہو جاتا۔
رفع طور کی کیفیت:
(۴) آیت وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ کے متعلق آپ کا اعتراض میں سمجھ نہیں سکا۔ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ کے حوالے سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس آیت کی نہیں بلکہ اذ اخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور کی تفسیر پر معترض ہیں۔ اگر بات یہی ہے تو براہ کرم تفہیم القرآن جلد اول صفحہ نمبر ۸۳ اور جلد دوم صفحہ نمبر ۹۵ کے حواشی اچھی طرح پڑھ کر بتائیے کہ آپ کو کس چیز پر اعتراض ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور کذبات ثلاثہ:
(۵) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کے مسئلے پر میں نے دو جگہ بحث کی ہے۔ ایک ’’رسائل و مسائل حصہ دوم‘‘ صفحہ ۳۵ تا ۳۹۔ دوسرے تفہیم القرآن، بسلسلہ تفسیر سورہ انبیا، حاشیہ نمبر ۶۰۔ ان دونوں مقامات پر میں نے وہ دلائل بھی بیان کردیئے ہیں جن کی بنا پر میں اس روایت کے مضمون کی صحت تسلیم کرنے میں متامل ہوں۔ اگر میرے ان دلائل کو دیکھ کر آپ کا اطمینان ہو جائے تو اچھا ہے، اور نہ ہو تو جو کچھ آپ صحیح سمجھتے ہیں، اس کو صحیح سمجھتے رہیں۔ اس طرح کے معاملات میں اگر اختلاف رہ جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے ۔ آپ کے نزدیک حدیث کا مضمون اس لیے قابل قبول ہے کہ وہ قابل اعتماد سندوں سے نقل ہوئی ہے اور بخاری، مسلم، نسائی اور متعدد دوسرے اکابر محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس میں ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے، اور یہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے کہ چند راویوں کی روایت پر اسے قبول کر لیا جائے۔ اس معاملے میں، میں اس حد تک نہیں جاتا جہاں تک امام رازیؒ ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ ’’انبیاء کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنے سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں کی طرف اسے منسوب کیا جائے‘‘۔ (تفسیر کبیر، جلد ۶، صفحہ ۱۱۳) اور یہ کہ ’’نبی اور راوی میں سے کسی ایک کی جھوٹ منسوب کرنا پڑ جائے تو ضروری ہے کہ وہ نبی کے بجائے راوی کی طرف منسوب کیا جائے‘‘۔ (تفسیر کبیر، جلد ۷، صفحہ ۱۴۵) مگر میں اس روایت کے ثقہ راویوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹی روایت نقل کی ہے، بلکہ صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔ اس لیے اسے نبی ﷺ کا قول قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ محض سند کے اعتماد پر ایک ایسے مضمون کو آنکھیں بند کرکے ہم کیسے مان لیں جس کی زد انبیا علیہم السلام کے اعتماد پر پڑتی ہے؟
میں ان دلائل سے بے خبر نہیں ہوں جو اس روایت کی حمایت میں اکابر محدثین نے پیش کپے ہیں، مگر میں نے ان کو تشفی بخش نہیں پایا ہے۔ جہاں تک فعلہ کبیرھم ھذا اور انی سقیم کا تعلق ہے، ان دونوں کے متعلق تو تمام مفسرین و محدثین اس پر متفق ہیں کہ یہ حقیقتاً جھوٹ کی تعریف میں نہیں آتے۔ آپ تفسیر کی جس کتاب میں چاہیں، ان آیات کی تفسیر نکال کر دیکھ لیں اور ابن حجر، عینی، قسطلانی وغیرہ شارحین حدیث کی شرحیں بھی ملاحظہ فرمالیں۔ کسی نے بھی یہ نہیں مانا ہے کہ یہ دونوں قول فی الواقع جھوٹ تھے۔ رہا بیوی کو بہن قرار دینے کا معاملہ تو یہ ایسی بے ڈھب بات ہے کہ اسے بنانے کے لیے محدثین نے جتنی کوششیں بھی کی ہیں، وہ ناکام ہوئی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اس بحث کو جانے دیجئے کہ جس وقت کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے، اس وقت حضرت سارہ کی عمر کم از کم۶۵ برس تھی اور اس عمر کی خاتون پر کوئی شخص فریفتہ نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بادشاہ حضرت سارہ کو حاصل کرنے کے درپے ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخر کس مصلحت سے کہا کہ یہ میری بہن ہیں؟ اس صورت حال میں بیوی کو بہن کہہ کر آخر کیا فائدہ ہو سکتا تھا؟ شارحین حدیث نے اس سوال کے جو جوابات دیئے ہیں، ذرا ملاحظہ ہوں:
۱۔ اس بادشاہ کے دین میں یہ بات تھی کہ صرف شوہر والی عورتوں ہی سے تعرض کیا جائے، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی کو بہن اس امید پر کہا کہ وہ حضرت سارہ کو بے شوہر عورت سمجھ کر چھوڑ دے گا۔
۲۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی کو بہن اس لیے کہا کہ بادشاہ عورت کو چھوڑنے والا تو ہے نہیں، اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس کا شوہر ہوں تو جان بھی جائے گی اور بیوی بھی، اور اگر بہن کہوں گا تو صرف بیوی ہی جائے گی، جان بچ جائے گی۔
۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ سارہ کو بیوی بتائیں گے تو یہ بادشاہ مجھ سے زبردستی طلاق دلوائے گا، اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ میری بہن ہے۔
۴۔ اس بادشاہ کے دین میں یہ بات تھی کہ بھائی اپنی بہن کا شوہر ہونے کے لیے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ حقدار ہے، اس لیے انہوں نے بیوی کو بہن اس امید پر بتایا کہ یہ سارہ کو میرے لیے ہی چھوڑ دے گا۔ (فتح الباری، جلد ۶، صفحہ ۲۴۷۔ عینی جلد ۱۵، صفحہ ۲۴۹۔ قسطلانی جلد ۵، صفحہ ۲۸۰)
خدارا غور کیجئے کہ ان توجیہات نے بات بنائی ہے یا بگاڑ دی ہے؟ آخر کس تاریخ سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ دنیا میں کوئی دین ایسا بھی گزرا ہے جس میں بے شوہر عورت کو چھوڑ کر صرف شوہر دار عورت ہی سے تعرض کرنے کا قاعدہ مقرر ہو؟ اور یہ نبی کی سیرت و شخصیت کا کیسا بلند تصور ہے کہ وہ جان بچانے کے لیے بیوی کی عصمت قربان کرنے پر راضی ہو جائے گا؟ اور یہ کس قدر معقول بات ہے کہ زبردستی طلاق دلوائے جانے کے اندیشے سے بیوی کو بہن کہہ کر دوسرے کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ بے طلاق ہی سے استفادہ کر لے؟ اور یہ کتنی دل لگتی بات ہے کہ بادشاہ بھائی کو تو بہن کا شوہر ہونے کے لیے زیادہ حق دار مان لے گا مگر خود شوہر ہونے کے لیے حق دار نہ مانے گا؟ اس طرح کی لا طائل سخن سازیوں سے ایک مہمل بات کو ٹھیک بٹھانے کی کوشش کرنے سے کیا یہ مان لینا زیادہ بہتر نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے ہر گز یہ بات نہ فرمائی ہوگی اور کسی غلط فہمی کی بنا پر یہ قصہ غلط طریقے سے نقل ہوگیا ہے۔
بعض حضرات اس موقع پر یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر اس طرح کے دلائل سے محدثین کی چھانی پھٹکی ہوئی ایک صحیح السند روایت کے مضمون کو مشکوک ٹھہرا دیا جائے، تو پھر ساری ہی حدیثیں مشکوک قرار پا جائیں گی۔ لیکن یہ خدشہ اس لیے بے بنیاد ہے کہ متن کی صحت میں شک ہر روایت کے معاملے میں نہیں ہو سکتا، بلکہ صرف کسی ایسی روایت ہی میں ہو سکتا ہے جس میں کوئی بہت ہی نا مناسب بات نبی ﷺ کی طرف منسوب ہوئی ہو اور وہ کسی توجیہ سے بھی ٹھیک نہ بیٹھتی ہو۔ اس طرح کی بعض روایتوں کے متن کو مشکوک ٹھہرانے سے آخر ساری روایتیں کیوں مشکوک ہو جائیں گی؟ پھر یہ امر بھی غور طلب ہے کہ جن نا مناسب باتوں کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہ ہو، ان کا نبی ﷺ کی طرف منسوب ہوجانا زیادہ خطرناک ہے، یا یہ مان لینا کہ محدثین کی چھان پھٹک میں بعض کوتاہیاں رہ گئی ہیں، یا یہ کہ بعض ثقہ راویوں سے بھی نقل روایات میں کچھ غلطیاں ہوگئی ہیں؟ بتائیے، ایک صاحب ایمان آدمی ان دونوں باتوں میں سے کس بات کو قبول کرنا زیادہ پسند کرے گا؟
(القرآن۔ ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ، دسمبر ۱۹۵۵ء)