نظریہ نسخ آیت مع بقائے حکم پر استدراک:
رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ماہ نومبر ۱۹۵۵ء کے عنوان ’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت آیت رجم اور نظریہ ’’نسخ آیت مع بقائے حکم‘‘ کے متعلق جو جواب تحریر کیا گیا تھا، اسے دیکھ کر ایک صاحب نے ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا تھا، جو ان کے حسب ارشاد شائع کیا جا رہا ہے:
’’جواب میں جو عقلی و نقلی مواد آپ نے پیش کیا ہے، وہ ایک سمجھ دار اور منصف مزاج آدمی کے لیے نہایت تسلی بخش ہے۔ مگر چوں کہ آپ نے دیگر اصحاب علم سے بھی اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالنے کا مطالبہ فرمایا ہے، اس لیے حسب الارشاد چند مختصر گزارشات درج ذیل ہیں:
(۱) نسخ آیت مع بقائے حکم کا نظریہ بعض اصولیوں کی انفرادی رائے ہے نہ کہ تمام اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔ جیسا کہ آپ کے پیش کردہ حوالے ’’روح المعانی جلد اول، صفحہ ۳۱۵‘‘ سے ثابت ہوتا ہے۔ یعنی ’’ونسخ الآیۃ علی ماارتضاہ بعض الاصولیین… الخ‘‘۔ ایسی صورت میں سائل کا یہ کہنا کہ ’’سلف سے خلف تک تمام علمائے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے‘‘ ۔ محض ایک دعویٰ بلا دلیل بلکہ غلط بیانی ہے ۔ کیوں کہ بعض اصولیوں کے کسی خاص نظریہ سے کل علمائے اہل سنت کا عقیدہ لازم نہیں آتا۔
(۲) رہی یہ بات کہ آیا بعض اصولیوں کا یہ نظریہ صحیح ہے یا غلط؟ سو واضح ہو کہ یہ نظریہ عقلاً و نقلاً باطل ہے۔
(الف) عقلاً تو اس لیے باطل ہے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز ہی نہ ہو، اس کو قرآنی حکم ماننا سراسر مہمل بلکہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ ایسا ہی ایک بے بنیاد تخیل ہے جیسا کہ قرآن کے چالیس پارے ہونے کا۔
(ب) نقلاً اس لیے کہ اس نظریے سے تنقیص قرآن لازم آتی ہے۔ کیوں کہ ایک باقی الحکم آیت کا قرآن میں نہ پایا جانا قرآن کے ناقص اور ادھورا ہونے کو مستلزم ہے۔ حالاں کہ قرآن مجید کی تنقیص بالاتفاق کفر اور آیت ’’الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدہ3:5)‘‘ کےصریحاً خلاف ہے۔
( ۳ ) زنا کے متعلق شریعت کا حکم اور قانون یہ ہے کہ غیر شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سو کوڑے لگائے جائیں، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان، اور شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگسار کیا جائے، خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھے۔ یہ ایک مشہور و اجماعی قانون ہے جو سنت نبویؐ، سنت خلفائے راشدین اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ بلکہ غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا قرآن سے بھی ثابت ہے۔ کیوں کہ آیت ’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا … الخ‘‘ میں بد لیل سنت قطعیہ الف لام عہد خارجی ہے۔ جس سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ ہی ہیں۔ ایسے مشہور و معروف اور اجماعی قانون شریعت کے مقابلے میں اوّل تو سائل کی پیش کردہ حضرت عمر ؓ والی تقریر ہی درایتاً ساقط الاعتبار ہے، کیوں کہ حضرت عمرؓ جیسے اعلیٰ مجتہد شریعت کی طرف ایسے مشہور و اجماعی قانون کی خلاف ورزی کا منسوب کرنا ہی بعید از قیاس ہے۔ اگر بالفرض اس نسبت کو صحیح تسلیم بھی کرلیا جائے تو ایک مشہور و اجماعی قانون کے مقابلے میں حضرت عمرؓ کی یہ رائے ’’ان کی ایک انفرادی اور اجتہادی رائے قرار پائے گی، جو کسی غیر نبی کے بارے میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے‘‘۔
’’اَلْمُجْتَھِدُ یُخْطِئُی وَیُصِیْب‘‘
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاخریٰ ۱۳۷۵ھ، فروری ۱۹۵۶ء)