دورِ جدید کی رہنما قوت، اسلام یا عیسائیت؟
سوال: بیسوی صدی کے اس مہذب ترقی یافتہ دور کی رہنمائی مذہبی نقطہ نظر سے اسلام کر سکتا ہے یا عیسائیت؟ کیا انسان کو سیکولرازم یا دہریت روحانی و مادی ترقی کی معراج نصیب کرا سکتی ہے؟ بالخصوص کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور ختم کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟
جواب: یہ سوال کئی سوالات کا مجموعہ ہے۔ اس لیے ایک ایک جزو پر علیحدہ علیحدہ بحث ہوگی۔
الف۔ جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے اس دور کی رہنمائی سے وہ پہلے ہی دستبردار ہو چکی ہے۔ بلکہ درحقیقت وہ کسی دور میں بھی انسانی تہذیب و تمدن کی رہنمائی نہیں کر سکی ہے۔ عیسائیت سے مراد اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیمات ہیں جو اب عیسائیوں کے پاس ہیں تو بائبل کے عہد جدید کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ وہ انسانی تہذیب و تمدن کے متعلق کیا رہنمائی اور کتنی رہنمائی کرتی ہے؟ اس میں چند مجرد (Abstract) اخلاقی اصولوں کے سوا سرے سے کوئی چیز موجود نہیں جس سے انسان اپنی معاشرت اور اپنی معیشت اور سیاست اور عدالت اور قانون کے متعلق کوئی ہدایت حاصل کر سکے۔ لیکن اگر عیسائیت سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو عیسائی پادریوں نے بنایا تھا تو سب کو معلوم ہے کہ یورپ میں احیائے علوم کی نئی تحریک کے رونما ہونے کے بعد وہ ناکام ہو گیا اور مغربی قوموں نے اس کے بعد جتنی کچھ بھی مادی ترقی کی وہ عیسائیت کی رہنمائی سے آزاد ہو کر ہی کی ہے، اگرچہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا تعصب اور عیسائیت کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ان میں اس کے بعد بھی موجود رہا اور اب بھی ہے۔
ب۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے وہ اپنے آغاز ہی سے تمدن و تہذیب کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس نے خود اپنا ایک مستقل تمدن اور اپنی ایک خاص تہذیب پیدا کی ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق قرآن مجید نے اور رسول اللہﷺ نے انسان کو ہدایت نہ دی ہو اور ان ہدایات کے مطابق عملی ادارے قائم نہ کر دیے ہوں۔ یہ چیزیں جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں قابل عمل تھیں اسی طرح اس بیسوی صدی میں بھی قابل عمل ہیں اور ہزاروں برس آئندہ بھی انشاء اللہ قابل عمل رہیں گی۔ اس ’’ترقی یافتہ دور‘‘ میں کسی ایسی چیز کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے اسلام آج نہ چل سکتا ہو یا انسان کی رہنمائی نہ کر سکتا ہو۔ جو شخص اس معاملہ میں اسلام کو ناقص سمجھتا ہو، اس کا کام ہے کہ کسی ایسی چیز کی نشاندہی کرے جس کے معاملہ میں اسلام اس کو رہنمائی سے قاصر نظر آتا ہو۔
ج۔ سیکولرازم یا دہریت درحقیقت نہ کسی روحانی ترقی میں مددگار ہیں اور نہ مادی ترقی میں۔ معراج نصیب کرنے کا ذکر ہی کیا ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے وہ سیکولر ازم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعہ سے نہیں کی بلکہ اس کے باوجود کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کر سکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان و مال کی، اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو لیکن سیکولرازم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بناء پر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہو سکے۔ اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولرازم اور دہریت میں محبت و ایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں جو ان کی سوسائٹی میں روایتاً باقی رہ گئی تھیں۔ ان چیزوں کو سیکولرازم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔ سیکولرازم اور دہریت نے جو کام کیا ہے وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کر کے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذائذ و فوائد کا طالب بنا دیا ہے۔ مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا وہ ان کو سیکولرازم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہوگئے تھے اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرازم یادہریت ترقی کی موجب ہیں۔ وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خودغرضی، ایک دوسرے کے خلاف کشمکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ مانع ہیں۔
د۔ کمیونزم کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت کسی ایسے ہی نظام زندگی میں ہو سکتی ہے جو انسانی زندگی کے عملی مسائل کو اس سے بہتر طریقہ پر حل کر سکے اور اس کے ساتھ انسان کو وہ روحانی اطمینان بھی بہم پہنچا سکے جس کا کمیونزم میں فقدان ہے۔ ایسا نظام اگر بن سکتا ہے تو صرف اسلام کی بنیاد پر بن سکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد۱، اکتوبر ۱۹۶۱ء)