غلافِ کعبہ کی نمائش اور جلوس
سوال: حال ہی میں بیت اللہ کے غلاف کی تیاری اور نگرانی کا جو شرف پاکستان اور آپ کو ملا ہے وہ باعث فخر و سعادت ہے۔ مگر اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے تو آپ کی نیت پر حملے کیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ دراصل آپ اپنے اور اپنی جماعت کے داغ مٹانا اور پبلسٹی کرنا چاہتے تھے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے خواہاں تھے، اس لیے آپ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ شہرت بھی حاصل ہو اور الیکشن فنڈ کے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم ہوں۔ اس کے بعد بعض اعتراضات اصولی اور دینی رنگ میں پیش کیے گئے ہیں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ:
۱۔ غلافِ کعبہ کو قرآن و حدیث میں شعائراللہ کے زمرے میں شمار نہیں کیا گیا، اس لیے عملاً یا اعتقاداً اس کی تقدیس و تعظیم ضروری نہیں یہ بس کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے، اس سے زائد کچھ نہیں، خواہ یہ کعبے کی نیت سے بنے یا نہ بنے۔ کعبے سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والی اگر ہر شے کا شمار شعائراللہ میں ہونے لگے اور اس کی تعظیم لازم سمجھی جائے تو پھر تعمیر کعبہ کے لیے جانے والا پتھر یا اس طرح کی دوسری اشیا بھی قابل تعظیم ٹھہریں گی۔
۲۔ غلاف کی نمائش و زیارت اور اسے جلوس کے ساتھ روانہ کرنا ایک بدعت ہے۔ کیونکہ نبیﷺ اور خلافتِ راشدہ کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا، حالانکہ غلاف اس زمانے میں بھی چڑھایا جاتا تھا۔ اگر غلاف کی نمائش کرنا اوراس کا جلوس نکالنا جائز ہے تو پھر ہدی کے اونٹوں کا جلوس کیوں نہ نکالا جائے، جنہیں قرآن نے صراحت کے ساتھ شعائراللہ قرار دیا ہے۔
۳۔ جو غلاف ابھی چڑھایا نہ گیا ہو بلکہ چڑھانے کے لیے تیار کیا گیا ہو وہ محض کپڑا ہے، آخر وہ کیسے متبرک ہو گیا کہ اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے اہتمام کے ساتھ جلوس کی شکل میں روانہ کیا جائے۔ پھر جو غلاف خانہ کعبہ سے اترتا ہے اس کی تعظیم و تکریم کیوں روا نہیں رکھی جاتی اور فقہا نے اس کا عام کپڑے کی طرح استعمال و استفادہ کیوں جائز رکھا ہے۔
۴۔ یہ فعل بجائے خود احداث فی الدین اور بدعت ممنوعہ ہونے کے علاوہ بہت سے دیگر بدعات ، منکرات اور حوادث کا موجب ہے۔ چنانچہ غلاف کی اس طرح زیارت اور نمائش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوا ہے، عورتوں کی بے پردگی اور بے حرمتی ہوئی ہے، جانیں تلف ہوئی ہیں، نذرانے چڑھائے گئے ہیں، غلاف کو چوما گیا ہے، اس کے گرد طواف کیا گیا ہے، اس سے اپنی حاجات طلب کی گئی ہیں، حتیٰ کہ اس کو سجدے کیے گئے پھر غلاف کے جلوس باجے کے ساتھ نکالے گئے ہیں اور اسے حضرت مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چڑھایا گیا۔
معترضین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پہلے ہی جذبہ تنظیم سے عاری اور بدعات میں غرق ہے، اس لیے آپ کو یہ پیشگی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس طرح کے پروگراموں کا لازمی انجام یہی کچھ ہو گا چنانچہ ان نتائج و عواقب کی ذمہ داری آپ پر براہ راست عائد ہوتی ہے۔
اس طرح کے اعتراضات چونکہ بار بار اٹھائے جارہے ہیں اس لیے بہتر اور مناسب ہے کہ آپ ان کا جواب دیں۔ اس ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ بدعت کے مسئلے کو اصولی طور پر واضح کریں اور بتائیں کہ شریعت میں جو بدعت مکروہ و مذموم ہے اس کی تعریف کیا ہے اور اس کا اطلاق کس قسم کے افعال پر ہوتا ہے۔
جواب: اس معاملہ میں مختلف دینی حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں وہ سب میری نگاہ سے گزرتے رہے ہیں۔ مگر ان میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اور جس اندازِ بیان سے کام لیا گیا ہے، اس کا حریف بننا کسی طرح بھی میرے بس میں نہ تھا، اس لیے میں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اب ایک سائل نے شرافت و معقولیت کے ساتھ مطالبہ کیا ہے کہ اصل وجوہ اعتراض پر بحث کی جائے، اس لیے ان صفحات میں اس کا جواب دیا جارہا ہے۔
جتنے اعتراضات اوپر نقل کیے گئے ہیں، ان کی ساری عمارت دراصل ایک غلط مفروضے پر تعمیر کی گئی ہے۔ معترضین نے اپنی جگہ یہ فرض کر لیا ہے کہ میں نے خود ابتدا کر کے غلاف کی نمائش کا انتظام کیا اور اس کا جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا اور اسپیشل ٹرینوں کے ذریعہ سے شہر در شہر اس کو پھرانے کی اسکیم بنائی۔ اسی بنیاد پر وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ بدعت آخر یہاں کیوں شروع کی گئی اور پھر اس پر اعتراضات کے ردے پر ردے چڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ دراصل یہ مفروضہ ہی بجائے خود واقعات کے خلاف ہے۔ میرے پیش نظر سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ اس غلاف کے معاملے کو عوام میں مشتہر کیا جائے اور نہ میرے حاشیہ خیال میں کبھی یہ بات آئی تھی کہ اسے جلوسوں اور نمائشوں کے بعد دھوم دھام سے روانہ کیا جائے۔ غلاف کی تیاری کے لیے ابتداً سارا کام بالکل رازداری کے ساتھ ہوتا رہا۔ میری خواہش یہ تھی کہ پاکستان کے کاریگروں سے سعودی عرب کے منتظمین دارالکسوہ کا براہ راست معاملہ کرادوں اور پھر عملاً اس سے بے تعلق ہو جاؤں۔ میں نہ یہ چاہتا تھا کہ میرا اس کی نگرانی سے کوئی تعلق ہو اور نہ میں نے اس کو پسند کیا کہ اس کی کوئی اطلاع اخبارات میں شائع ہو یا عام لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ میں اس سلسلے میں کوئی کام کر رہا ہوں۔ لیکن مختلف کاریگروں سے سعودی عرب کے منتظمین کا تعارف کرانا اور ان کے کام کے نمونے حاصل کرنا بہرحال ناگزیر تھا۔ اس سے رفتہ رفتہ بات پھیلتی چلی گئی۔ پھر یکایک ایک روز یہ واقعہ پیش آگیا کہ چند کاریگروں کو مکے سے آئے ہوئے پرانے غلاف کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ دیا گیا تھا تاکہ وہ اس کے مطابق کام بنا کر لائیں۔ عوام کو نہ معلوم کس طرح ان کے پاس اس ٹکڑے کی موجودگی کا علم ہو گیا اور لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ اس کی زیارت کے لیے جمع ہو گئے۔ اس کے بعد اس کا جلوس بازار میں نکالا گیا اور آناً فاناً یہ بات شہر میں مشہور ہو گئی کہ یہاں غلافِ کعبہ کی تیاری کا کام ہو رہا ہے۔ اس واقعہ سے ایک خبر رساں ایجنسی تک یہ اطلاع پہنچ گئی اور اس نے سارے ملک میں اسے پھیلا دیا۔ پھر اخبارات کے نمائندوں نے بطور خود اس میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ غلاف کی تیاری کے مختلف مرحلوں کی اطلاعات اخباری نمائندے خود ہی ٹوہ لگا لگا کر حاصل کرتے رہے اور انہیں شائع کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب غلاف کا کپڑا تیار کرنے کا کام یعقوب انصاری صاحب کے سپرد کیا گیا تو اخبارات نے ان کا فوٹو ان کے کاریگروں کے فوٹو، ان کی فیکٹری کا فوٹو، تمام تفصیلات کے ساتھ شائع کر دیا، جس سے عوام کو معلوم ہوگیا کہ غلاف کہاں بن رہا ہے اور کون بنا رہا ہے، اب غلاف کی تیاری شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ فیکٹری پر جمع ہونے لگے۔
یہ سب کچھ میرے علم و اطلاع کے بغیر ہوتا رہا۔ میری کسی خواہش اور کوشش کا اس میں قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔
عوام میں جب یہ اطلاعات پھیلیں تو ان کے اندر غلاف کو دیکھنے کا شوق ایک طوفان کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے پہلے اس امر کا کوئی اندازہ ہی نہ تھا کہ یہاں لوگ اس چیز سے اتنی اور اتنے بڑے پیمانے پر دلچسپی لیں گے۔ اب جو خلافِ توقع یہ صورت سامنے آئی تو میں نے محسوس کیا کہ اس طوفان کو روک دینا میرے یا کسی شخص کے بس میں نہیں ہے اور اسے روکنے کی کوشش میں قوت صَرف کرنا غیر ضروری بھی ہے، کیونکہ یہ ایک فطری دلچسپی ہے اور بجائے خود ناجائز نہیں ہے۔ یہ ملک عرب سے بہت دور ہے۔ یہاں کے بہت کم لوگوں کو وہاں جانا اور بیت اللہ کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ یہاں کے عوام کو پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں سے ایک ہدیہ خدا کے گھر کے لیے تیار ہو کر جارہا ہے۔ اس لیے یکایک ان کے اندر آتش شوق بھڑک اٹھی ہے۔ یہ شوق کسی بت کے لیے نہیں ہے۔ کسی معبود غیراللہ کے آستانے کے لیے نہیں ہے۔ خود اللہ رب العالمین کے اپنے گھر کے لیے ہے جسے اللہ نے آپ ہی ِمَثَابَۃَ لِّلنَّاس بنایا ہے اور تمام آفاق کے لوگوں کو اس کا گرویدہ کیا ہے ( ْفَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْہِم ) اس شوق کو کسی طرح بھی مشرکانہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ بنیادی طور پر یہ ایک خدا پرستانہ شوق ہے اس لیے اسے شوق نامحمود قرار دے کر روک دینے اور دبا دینے کی فکر غیر ضروری ہے۔ مگر چونکہ ہمارے عوام دین کے علم اور دینی تربیت سے محروم ہیں اور حدود کو نہیں پہچانتے، اس لیے ایک جائز شوق بھی اگر ان کے اندر سیلاب کی طرح اٹھے اور آپ سے آپ اپنا راستہ نکالنا شروع کر دے تو بہت جلدی وہ غلط راستے پر پڑ سکتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں پر غور کر کے میں نے یہ رائے قائم کی کہ عوام کی اس جائز اور فطری دلچسپی کو، جو میرے یا کسی کے بھڑکانے سے نہیں بھڑکی ہے بلکہ آپ سے آپ بھڑک اٹھی ہے، غلط رُخ پر جانے سے روکنے اور صحیح رُخ پرڈال دینے کی کوشش ناگزیر ہے، اگر میں ایسا نہ کروں گا تو یہ ایسا راستہ اختیار کر لے گی جو شرعی اعتبار سے بہت قابل اعتراض اور دین و اخلاق کے لیے بہت مضرت رساں ہوگا۔
یہی کچھ سوچ کر میں نے غلاف کی تیاری شروع ہوتے وقت معززین شہر کو جمع کیا اور سب کی رضامندی سے مختلف نمائندہ اصحاب کی ایک مجلس بنائی تاکہ شہر کے لوگوں کے جذبہ شوق کی تسکین جائز حدود کے اندر ہو جائے اور بے قاعدہ زیارتوں اور جلوسوں کی نوبت نہ آنے پائے۔ اس مجلس میں حسب ذیل اصحاب شامل کیے گئے!
۱۔ مولانا عبدالرحمن صاحب (مولانا مفتی محمد حسن مرحوم و مغفور کے صاحبزادے اور جامعیہ اشرفیہ کے نائب مہتمم، علمائے دیوبند کے گروہ سے)
۲۔ مفتی محمد حسین نعیمی صاحب (مہتمم جامعہ نعیمیہ، بریلوی گروہ کے علماء میں سے)
۳۔ مولانا حافظ کفایت حسین صاحب (شیعہ علماء میں سے)
۴۔ حاجی محمد اسحاق حنیف صاحب (ناظم نشرو اشاعت جمعیت اہل حدیث ان کا نام اس مجلس کی رکنیت کے لیے جناب مدیر الاعتصام نے خود تجویز کیا تھا)
۵۔ چوہدری محمد حسین صاحب (وائس چیئرمین لاہور کارپوریشن)
۶۔ چوہدری محمد امین صاحب (کونسلر لاہور کارپوریشن)
۷۔ محمد عمر خاں صاحب بسمل (ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن لاہور)
۸۔ نصراللہ شیخ صاحب (صدر پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین)
۹۔ حاجی محمد لطیف صاحب (صدر شاہ عالم مارکیٹ)
۱۰۔ شیخ تاج دین صاحب (صدر اعظم کلاتھ مارکیٹ ایسوسی ایشن)
۱۱۔ حاجی معراج دین صاحب (چیئرمین یونین کونسل شو مارکیٹ)
۱۲۔ ملک مبارک علی صاحب (چیئرمین یونین کمیٹی چوک وزیر خاں)
۱۳۔ شمشیر علی صاحب (لیڈیز اون چوائس، انارکلی)
۱۴۔ شیخ فرحت علی صاحب (فرحت علی جیولرز، مال روڈ)
۱۵۔ سیٹھ ولی بھائی صاحب (بمبئے کلاتھ ہاؤس، انار کلی)
۱۶۔ رانا اللہ داد خاں صاحب (رانا موٹرز، مال روڈ)
۱۷۔ عزیز الرحمن صاحب (سائنس ہاؤس، میکلیگن روڈ)
۱۸۔ جناب کوثر نیازی صاحب (ایڈیٹر شہاب)
اس پوری مجلس میں جماعت اسلامی کے صرف دو رکن تھے۔ باقی سب مختلف گروہوں کے نمائندہ اور ذمہ دار اصحاب تھے۔ میں نے خود اپنے آپ کو اس میں سرے سے شامل ہی نہ کیا تھا۔ البتہ اس کے دو اجلاسوں میں ارکانِ مجلس کی خواہش پر شریک ضرور ہوا تھا۔ ان مواقع پر ڈپٹی کمشنر لاہور، اسسٹنٹ کمشنر لاہور اور ڈپٹی مجسٹریٹ لاہور بھی شریک اجلاس تھے۔ سب کے مشورے سے یہ پروگرام بنایا گیا کہ غلاف روانہ کرنے سے پہلے چار دن عورتوں کو اور تین دن مردوں کو اس کے دیکھنے کا موقع دیا جائے۔ اس نمائش میں عورتوں اور مردوں کو ہر گز خلط ملط نہ ہونے دیا جائے۔ نمائش گاہ میں ایسے کارکن (عورتوں کے لیے عورتیں اور مردوں کے لیے مرد) مقرر کیے جائیں جو لوگوں کو جائز شرعی حدود کی تلقین کرتے رہیں اور ناجائز افعال سے روکیں۔ نذرانے دینے سے بھی لوگوں کو منع کیا جائے اور انہیں ہدایت کی جائے کہ غلاف کو دیکھتے وقت بس اللہ کا ذکر کریں، کلمہ طیبہ اور درود پڑھیں، اور اللہ سے دعا کریں کہ اپنے اس گھر کی زیارت کا بھی شرف عطا فرمائے جس کا غلاف دیکھنے کی توفیق اس نے بخشی ہے۔ پھر غلاف روانہ کرتے وقت اسے جلوس کی شکل میں لے جایا جائے، (کیونکہ جلوس نکالا نہ گیا تو وہ خود نکل کر رہے گا اور بری طرح نکلے گا) مگر اس امر کا پورا اہتمام کیا جائے کہ جلوس کے پورے راستے سے فحش تصویریں ہٹا دی جائیں۔ گانوں کی ریکارڈنگ بند کر دی جائے تکبیر و تہلیل اور اللہ جل شانہ ٗ کی حمد کا غلغلہ اس زور سے بلند کیا جائے کہ سارا شہر اس سے گونج اٹھے اور اس جلوس میں عورتوں کو شریک ہونے سے منع کیا جائے۔
یہ تھا وہ پروگرام جو شہر لاہور کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد ہمیں ایک اور صورتحال سے سابقہ پیش آیا۔ وہ یہ تھی کہ غلاف کو دیکھنے کی تڑپ صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھی بلکہ جگہ جگہ سے لوگ آکر اسے فیکٹری ہی میں دیکھ رہے تھے اور فیکٹری والوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ پھر لوگوں نے کسی نہ کسی طرح فیکٹری والوں سے غلاف کے تھان حاصل کرنا شروع کر دیے اور مختلف شہروں میں لے جاکر ان کے جلوس نکالے اور اپنے اپنے طریقوں پر ان کی زیارت کرائی، مجھے اندیشہ ہوا کہ جس خرابی کو میں یہاں روکنا چاہتا ہوں وہ پورے ملک میں پھیلے گی۔ یہ خطرہ بھی لاحق ہوا کہ اس طرح کہیں کچھ تھان ضائع نہ ہو جائیں۔ اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ باہر کے لوگوں کو بھی غلاف دکھانے کا باقاعدہ انتظام کر دیا جائے۔ چنانچہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کے تعاون سے دو اسپیشل ٹرینوں کا انتظام کیا گیا۔ ان کے ساتھ بارہ بارہ ریلوے اسکاؤٹس، تین تین سول ڈیفنس کے رضاکار اور تین تین جماعت اسلامی کے کارکن بھیجے گئے۔ ان میں لاؤڈ اسپیکر نصب کیے گئے اور کارکنوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ جہاں بھی وہ لوگوں کے غلاف دکھانے کے لیے ٹھہریں وہاں پہنچتے ہی اللہ کے ذکر کا غلغلہ اس زور سے بلند کریں کہ کوئی دوسرا نعرہ اٹھنے ہی نہ پائے۔ زائرین کو ہر طرح کے مشرکانہ افعال سے روکیں، عورتوں اور مردوں کو خلط ملط نہ ہونے دیں۔ نذرانے ڈالنے سے منع کریں۔ تنظیم کے ساتھ غلاف دکھائیں تاکہ حادثات رونما نہ ہوں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ صرف ایک کپڑا ہے جو اللہ کے گھر کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسے بس دیکھ لو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ اپنے گھر کی زیارت بھی نصیب کرے۔
واقعات کی اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کوئی ایسا پروگرام نہ تھا جو میں نے خود کسی اچھے یا برے مقصد سے شروع کیا ہو۔ بلکہ یہ پروگرام اس وقت بنایا گیا جب عوام میں ایک جذبہ خود بخود بھڑک اٹھا تھا اور اس کے بنانے کی اصل غرض یہ تھی کہ اس جذبے کے سیلاب کو منکرات کی طرف جانے اور صحیح راستے پر موڑنے کے لیے جو کچھ کیا جاسکتا ہے، کیا جائے۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو یہ بہت زیادہ مکروہ راستہ اختیار کرلیتا اور کسی کے روکے نہ رکتا۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے میں مختصراً یہ بھی بتائے دیتاہوں کہ فی الواقع ہوا کیا ہے اور اس کو بنا کیا دیا گیا ہے۔
لاہور شہر میں مجلس انتظامیہ کے زیراہتمام غلاف کی نمائش چار دن عورتوں کے لیے اور تین دن مردوں کے لیے رہی اور ایک ایک دن مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ نمائش کا انتظام لاہور چھاؤنی میں بھی کیا گیا۔ ان مواقع پر غلاف کو سجدہ کرنے، یا اس کا طواف کرنے کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ کارکنوں نے لوگوں کو حدود شرعیہ سمجھاے اور ان کی خلاف ورزی سے روکنے کی کوشش کی۔ کسی قسم کے نذرانے اور چڑھاوے نہ چڑھانے دیے گئے۔ بہت بڑی اکثریت نے کارکنوں کو تلقین کو قبول کیا اور حدود کی پابندی کی۔ لیکن جہاں ہزاروں لاکھوں آدمی ٹوٹ پڑے ہوں وہاں یہ ممکن نہ تھا کہ کسی شخص کو بھی حد سے تجاوز نہ کرنے دیا جائے۔ اس سیلاب میں اگر کچھ لوگ منع کرنے کے باوجود غلاف کو چوم بیٹھے، یا کوئی بندۂ خدا غلاف ہی سے دعا مانگ بیٹھا یا مردوں کی نمائش میں کچھ عورتیں خود اپنے گھر والوں کے ساتھ آگئیں تو اس کی ذمہ داری آخرمنتظمین پر کیسے عائد ہو جائے گی۔
لاہور کا جلوس میں نے خود دیکھا ہے اور شروع سے آخر تک اس میں شریک رہا ہوں۔ ہوائی اڈے تک پہنچتے پہنچتے اس میں چھ سات لاکھ آدمی شامل ہو گئے تھے۔ اور آٹھ میل لمبا راستہ تھا۔ اس پورے راستے میں تمام سنیماؤں اور دکانوں پر سے عورتوں کی تصاویر اور ہر قسم کی فحش تصویریں ہٹا دی گئی تھیں یا چھپا دی گئی تھیں۔ ریڈیو پر گانوں کی تمام آوازیں بند ہو گئی تھیں۔ پورا جلوس اللہ اکبر اور لاالٰہ الا اللہ کے ذکر کے سوا کوئی چیز قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا اتنے بڑے ہجوم میں ایک جیب نہیں کٹی۔ کسی نے سگریٹ نہیں پیا۔ کوئی غنڈہ گردی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ عورتیں منع کرنے کے باوجود آئیں مگر کوئی ادنیٰ سا واقعہ بھی عورتوں کو چھیڑنے کا سننے میں نہ آیا۱؎۔ پورے شہر پر اس وقت نیکی کا اتنا غلبہ تھا کہ بعض لوگ جن کی جوتیاں مال روڈ پر جلوس میں چھوٹ گئی تھیں انہوں نے کئی گھنٹے بعد ہوائی اڈے سے واپس آکر اپنی جوتیاں اسی جگہ پڑی پائیں جہاں وہ چھوٹی تھیں۔ اتنی بڑی خیر میں اگر کہیں کوئی مشرکانہ یا متبدعانہ بات ہو گئی تووہ معترضین کی گرفت میں آگئی۔ حالانکہ جہاں لاکھوں آدمی جمع ہوں وہاں کون اس امر کی ضمانت لے سکتا تھا کہ کوئی فرد بھی کوئی غلط کام نہ کرے گا۔ چلتے ہوئے مجمع میں سے اگر کچھ لوگ لپک کر غلاف کو چوم بیٹھے، یا کچھ لوگوں نے غلط نعرے لگا دیے، یا اور کوئی بیجا بات کر گزرے تو کیا صرف اس وجہ سے اس خیر عظیم پر پانی پھیر دیا جائے گا جو اتنے بڑے پیمانے پراس روزشہر لاہور میں رونما ہوئی؟ یہ تو مکھی کا سا حال ہوا کہ ساری پاک چیزوں کو چھوڑ کر وہ صرف گندگی ہی تلاش کرتی ہے اور کہیں اس کی کوئی چھینٹ پا جائے تو اسی پر جا بیٹھتی ہے۔
جو اسپیشل ٹرینیں باہر بھیجی گئی تھیں ان کی مفصل رپورٹ بھی میں نے لی ہے اور صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں ہی سے نہیں بلکہ سول ڈیفنس اور ریلوے اسکاؤٹس کے ان لوگوں سے بھی لی ہے جو ان ٹرینوں کے ساتھ گئے تھے۱؎۔ ان کا متفقہ بیان ہے کہ جگہ جگہ ہزاروں، بلکہ بعض جگہ لاکھوں آدمی غلاف دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ہر جگہ ذکر الٰہی ہی غالب رہا اور بہت کم دوسرے نعرے بلند ہو سکے۔ ہر جگہ عورتوں اور مردوں کے مجمعے الگ رہے اور بہت ہی کم مقامات پر ہجوم کی کثرت کے باعث انہیں خلط ملط ہونے سے نہ روکا جاسکا۔ ہرجگہ امن و سکون سے زیارت ہوئی اور بہت کم مقامات پرحادثات پیش آئے جن کی وجہ کسی کی غفلت نہ تھی بلکہ اژدہام کی شدت تھی۔ عورتیں کثرت سے آئیں، مگر شاذ و نادر ہی کہیں یہ واقعہ پیش آیا کہ کسی نے انہیں چھیڑا ہو۔ اتنے بڑے مجمعوں میں کسی کی جیب کٹنے کا کوئی واقعہ سننے میں نہیں آیا۔ عوام کو بڑے پیمانے پر نیکی اور بھلائی کی تلقین کی گئی اور انہیں غلاف کی زیارت کے حدود بتائے گئے۔ عموماً لوگوں نے ان حدود کا خیال رکھا اور زیادہ تر لوگ یہی دعا مانگتے دیکھے گئے کہ خدایا، جس گھر کا غلاف تونے دکھایا ہے خود اس گھر کو بھی دیکھنے کی توفیق عطا فرما۔ ان ٹرینوں کے ساتھ جو غلاف گئے تھے ان میں سے کسی کا طواف ہر گز نہیں ہوا، اور نہ کسی کو غلاف کے آگے سجدہ کرتے دیکھا گیا۔ اب اگر کہیں ان لاکھوں انسانوں کے مجمع میں کوئی غلاف کو، یا غلافہ لے جانے والی ٹرین کو چوم بیٹھا، یا کسی نے ٹرین کے انجن کو انجن شریف کہہ دیا۔ یا کارکنوں کے منع کرنے کے باوجود لوگوں نے ٹرین کے اندر پیسے پھینک دیے یاہجوم کی کثرت کے باعث عورتوں اورمردوں کو خلط ملط ہونے سے نہ روکا جاسکتا تو بس یہی چند واقعات ہمارے دینداروں نے اعتراض جڑنے کے لیے چُن لیے اور اس ساری خیر کونظرانداز کر دیا جو اس کام میں غالب پائی جاتی تھی۔
پھران معترض حضرات نے محض کیڑے چننے ہی پراکتفا نہ کیا بلکہ جہاں کیڑے نہ تھے وہاں اپنی طرف سے کیڑے ڈالنے میں بھی تامل نہ فرمایا۔ مثلاً لاہور میں مجلس انتظامیہ کے علم و اجازت کے بغیر اس محلہ کے لوگوں نے، جس میں غلاف تیار کرنے والی فیکٹری قائم تھی بطور خود غلاف کا جلوس نکال ڈالا تھا۔ اس جلوس کے متعلق بڑے بڑے اتقیا و صلحا یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس کے آگے باجا بج رہا تھا اور جلوس والوں نے غلاف کو لے جاکر حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر چڑھایا۔ حالانکہ یہ دوسری بات تو قطعی جھوٹ ہے۔ غلاف کو مزار پر چڑھانے کی روایت سرے سے کوئی اصلیت نہیں رکھتی۔ رہا باجا تو اس کے متعلق خبریں متضاد ہیں۔ کسی کا بیان ہے کہ بجا تھا، کسی کا کہنا ہے کہ نہیں بجا، اور کوئی کہتا ہے کہ جب جلوس گزر رہا تھا تو ایک برات آگئی جس کے ساتھ باجا تھا۔ تاہم اگر وہ بجا ہی ہو تب بھی اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر یامجلس انتظامیہ پرعائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ جلوس ہماری اجازت کے بغیر، بلکہ ہمارے منع کرنے کے باوجود نکالا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم کسی طرح بھی غلاف کو ان لوگوں سے نہ بچا سکتے تھے جن کے محلے میں وہ بن رہا تھا۔ اِلّا یہ کہ ایک ہیلی کاپٹر فراہم کیا جاتا اور غلاف کے تھان وہاں سے اڑا کر نکال لے جاتے!
عجیب تر بات یہ ہے کہ ان حضرات کو سارا غم صرف اس غلاف کا ہے جو لاہور میں تیار ہوا تھا۔ کراچی میں جو غلاف بنا تھا، نمائش اس کی بھی ہوئی اور شہر در شہر وہ بھی پھرا، مگر اس کا ماتم کسی سے نہ سنا گیا۔ بلکہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا، وہ سب بھی ایسے سیاق و سباق میں بیان کیا گیا کہ وہ آپ سے آپ میرے اور جماعت اسلامی کے حساب میں پڑ گیا۔
یہ باتیں تو پھر بھی ظاہر سے تعلق رکھتی تھیں۔ کمال یہ ہے کہ ہمارے ان دین داروں کی نگاہ دور رس میرے باطن تک بھی جاپہنچی اور انہیں معلوم ہو گیاکہ میں نے غلاف کعبہ کی نمائش کا یہ سارا اہتمام کس نیت سے کیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میری نیت ان پر کیسے منکشف ہو گئی۔ اگر وہ علیم بذات الصدور ہونے کے مدعی ہیں تو یہ اس شرک و بدعت سے اشد چیز ہے جس پر وہ گرفت فرما رہے ہیں۔ اور اگر انہوں نے میری طرف یہ نیت محض قیاس و گمان کی بناء پرمنسوب فرمائی ہے تو شاید انہیں قرآن و حدیث میں شرک و بدعت ہی کی برائی ملی ہوگی۔ بہتان و افترا کے متعلق احکام ان کی نگاہ سے نہ گزرے ہوں گے۔
اس بیان واقعہ کے بعد اب میں ان اصولی سوالات کی طرف رجوع کرتا ہوں جن پر روشنی ڈالنے کی خواہش محترم سائل نے ظاہر فرمائی ہے۔
۱۔ شعائراللہ کے لفظ کا اطلاق صرف انہی چیزوں پر نہیں ہوتا جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے، بلکہ ہر وہ چیز جو خدا پرستی کی علامت ہو، شعائراللہ میں شمار کی جاسکتی ہے۔ اور جس چیز کو بھی اللہ جل شانہ ٗ کے حضور ہدیہ کرنے کی نیت کرلی جائے اس کا احترام بجا و درست ہے۔ یہ احترام اس شے کا نہیں بلکہ اس خدا کا ہے جس کے لیے اسے مخصوص کرنے کی نیت کی گئی ہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے اگر پتھر اور لکڑی بھی جمع کی جائے اور لوگ اسے ادب و احترام کے ساتھ اٹھائیں اور اسے اٹھاتے اور لے جاتے اور تعمیر کی خدمت انجام دیتے وقت باوضو ہونے اور اللہ کا ذکر کرنے کا اہتمام کریں تو آخر یہ چیز قابل اعتراض کس بنیاد پر ہو گی؟ البتہ جو شخص ان حدود سے تجاوز کر کے انہی چیزوں کا طواف، یا ان کی طرف رُخ کر کے سجدہ کرنے لگے یا ان سے دعا و استعانت کرنے لگے تو یہ بلاشبہ شرک ہوگا۔
۲۔ کسی فعل کو بدعت مذمومہ قرار دینے کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ نبیﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا۔ لغت کے اعتبار سے تو ضرور ہر نیا کام بدعت ہے۔ مگر شریعت کی اصطلاح میں جس بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے اس سے مراد وہ نیا کام ہے جس کے لیے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو، جو شریعت کے کسی قاعدے یا حکم سے متصادم ہو، جس سے کوئی ایسا فائدہ حاصل کرنا یا کوئی ایسی مضرت رفع کرنا متصور نہ ہو جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہے، جس کا نکالنے والا اسے خود اپنے اوپر یا دوسروں پر اس ادعاء کے ساتھ لازم کر لے کہ اس کا التزام نہ کرنا گناہ اور کرنا فرض ہے۔ یہ صورت اگر نہ ہو تو مجرد اس دلیل کی بناء پر کہ فلاں کام حضورﷺ کے زمانے میں نہیں ہوا، اسے ’’بدعت‘‘ بمعنی ضلالت نہیں کہا جاسکتا۔ بخاری نے کتاب الجمعہ میں چار حدیثیں نقل کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ عہدِ رسالت اور عہدِ شیخین میں جمعہ کی صرف ایک اذان ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں ایک اذان کا اور اضافہ کردیا۔ لیکن اسے بدعت ضلالت کسی نے بھی قرار نہیں دیا بلکہ تمام امت نے اس نئی بات کو قبول کرلیا۔ بخلاف اس کے انہی حضرت عثمان نے منیٰ میں قصر کرنے کے بجائے پوری نماز پڑھی تو اس پر اعتراض کیاگیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر صلوٰۃ ضحی کے لیے خود بدعت اور احداث کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ انہالمن احسن ما احد ثوا (یہ ان بہترین نئے کاموں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں) بدعۃ و نعمت البدعۃ (بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے) مااحدث الناس شیئا احبالی منہا لوگوں نے کوئی ایسا نیا کام نہیں کیا ہے جو مجھے اس سے زیادہ پسند ہو۔ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں وہ طریقہ جاری کیا جو نبیﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ وہ خود اسے نیا کام کہتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں: نعمت البدعۃ ہذہ (یہ اچھا نیا کام ہے) اس سے معلوم ہوا کہ مجرد نیا کام ہونے سے کوئی فعل بدعت مذمومہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے بدعت مذمومہ بنانے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔
امام نووی شرح (کتاب الجمعہ) میں کل بدعۃ ضلالۃ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ علماء نے کہا ہے کہ بدعت (یعنی باعتبار لغت نئے کام) کی پانچ قسمیں ہیں۔ ایک بدعت واجب ہے۔ دوسری بدعت مندوب ہے (یعنی پسندیدہ) ہے جسے کرنا شریعت میں مطلوب ہے۔ تیسری بدعت حرام ہے۔ چوتھی مکروہ ہے اور پانچویں مباح ہے۔ اور ہمارے اس قول کی تائید حضرت عمرؓ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو انہوں نے نماز تراویح کے بارے میں فرمایا۔
علامہ عینی عمدۃ القاری (کتاب الجمعہ) میں عبد بن حمید کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’جب مدینہ کی آبادی بڑھ گئی اور دور دور مکان بن گئے تو حضرت عثمان نے تیسری اذان کا (یعنی اس اذان کا جو اب جمعہ کے روز سب سے پہلے دی جاتی ہے) حکم دیا اور اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا، مگر منیٰ میں پوری نماز پڑھنے پر اعتراض کیا گیا‘‘۔
علامہ ابن حجر فتح الباری (کتاب التراویح) میں حضرت عمر کے قول نعمت البدعۃ ھذہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے ‘‘بدعت ہر اس نئے کام کو کہتے ہیں جو کسی مثال سابق کے بغیر کیا گیا ہو۔ مگر شریعت میں یہ لفظ سنت کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور اسی بناء پر بدعت کو مذموم کہا جاتا ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ جو نیا کام شرعاً مستحسن کی تعریف میں آتا ہو وہ اچھا ہے اور جو شرعاً برے کام کی تعریف میں آتا ہو وہ برا، ورنہ پھر مباح کی قسم میں سے ہے‘‘۔
اس اصولی وضاحت کے بعد اب میں عرض کرتا ہوں کہ غلاف کے کپڑے کا جلوس نکالنا اس کی نمائش کا انتظام کرنا بلاشبہ ایک نیا کام تھا جو عہدِ رسالت اور زمانہ خلافت راشدہ میں نہیں ہوا۔ مگر میں نے یہ کام اس بناء پر نہیں کیا کہ میں اصلاً اس کی نمائش کرنا چاہتا تھا اور اسے دھوم دھام کے ساتھ بھیجنا ابتدا ہی سے میری اسکیم میں شامل تھا۔ بلکہ میں نے یہ پروگرام اس وقت بنایا جب سارے ملک میں اس کے لیے عوام کے اندر بے پناہ جذبہ شوق خود بخود بھڑک اٹھا اور مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ شوق اگر خود اپنا راستہ نکالے گا تو بڑے پیمانے پر گمراہی پھیلنے کا موجب بن جائے گا۔ (چنانچہ جہاں جہاں بھی اس نے موقع پاکر خود اپنا راستہ نکالا۔ بہت بری طرح نکالا) اس لیے میں نے اس مضرت کو دفع کرنے کی خاطر یہ کام کیا جو شریعت کی نگاہ میں ایک بڑی مضرت تھی۔ اس کے لیے ایسا طریقہ تجویز کیا جس سے لوگوں کے جذبات کا سیلاب حدود شرع کے اندر محدود رہ سکے۔ اس کو سیئسات کے بجائے ان حسنات کی طرف موڑنے کی کوشش کی جو شرعاً پسندیدہ ہیں۔ میرا ہر گز یہ دعویٰ نہ تھا کہ لوگوں کو ضرور غلاف دیکھنا اور اس کے جلوس میں شامل ہونا چاہیے، نہ آئیں گے تو گناہ ہوں گے اور آئیں گے تو یہ اور یہ اجر ملے گا۔ اور میرا یہ ارادہ بھی نہیں ہے کہ آئندہ اگر پاکستان ہی میں غلاف بننے لگے اور اس سے میرا کوئی تعلق ہو تو اس کی زیارت کے اہتمام اور جلوسوں کے انتظام کو ایک مستقل طریقہ بنا لوں۔ اب میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کسی فقہی قاعدے سے میں بدعت ضلالت کا مرتکب ہوا ہوں۔ اگر سب و شتم کے بجائے کوئی صاحب دلائل سے مجھے بتا دیں کہ پھر بھی یہ بدعت ضلالت ہی ہے تو مجھے نادم اور تائب ہونے میں ذرّہ برابر تامل نہ ہوگا۔ الحمدللہ، میں متکبر نہیں ہوں کہ گناہ کو گناہ جان لینے کے بعد بھی اپنی بات کی پچ میں اس پر اصرار کروں۔
۳۔ کوئی کپڑا خواہ کعبے پر چڑھایا گیا ہو، یا چڑھنے کے لیے تیار کیا گیا ہو دونوں صورتوں میں وہ ایسا متبرک نہیں ہو جاتا کہ اس سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کو چھوا جائے، چوما جائے، اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے دھوم دھام سے روانہ کیا جائے۔ بلکہ فقہا نے کعبے پر سے اترے ہوئے غلاف سے بھی لباس بنانے کو جائز قرار دیا ہے، بشرطیکہ اس پر کلمہ طیبہ یا آیاتِ قرآنی یا اسمائے الٰہی لکھے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن اگر لوگ اس بناء پر اس کا ازخود (نہ کہ کسی شرعی حکم اور فتوے کی حیثیت سے) احترام کریں کہ یہ اللہ کے گھر کے لیے جارہا ہے، یا وہاں سے اتر کر آیا ہے تو اس احترام کو ناروا بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو اس نسبت کا احترام ہے جو اسے اللہ کے گھر سے حاصل ہوگئی ہے۔ اس احترام کے لیے اللہ کی عظمت و محبت کے سوا کوئی دوسرا محرک نہیں ہے۔ اس احترام کو کوئی شخص واجب اور کسی خاص شکل کو لازم قرار دے تو غلط ہے۔ لیکن اگر کوئی اسے مذموم ٹھہرائے اور خواہ مخواہ شرک قرار دے تو یہ بھی زیادتی ہے۔ رہی اس کی زیارت اور اس کے لیے جلوس کا اہتمام، تو وہ جس بناء پر کیا گیا اس کی وضاحت میں اوپر کر چکا ہوں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۶۰، عدد ۱۔ اپریل ۱۹۶۳ء)