ایک ہندو دوست کا خط اور اس کا جواب
’’دیر کے بعد خط لکھ رہا ہوں۔ اس طویل غیر حاضری کی وجہ صرف یہ خیال تھا کہ آپ کی جملہ تصنیفات کو مطالعہ کرنے کے بعد اپنے خیالات کو آپ کی خدمت میں وضاحت سے پیش کرسکوں گا۔سو اب آپ کی کلیات کا ایک مرتبہ سرسری مطالعہ کر چکا ہوں۔ فی الحقیقت اپنے مشن کے لیے جہاں تک اخلاص کا تعلق ہے۔ میں نے آپ کو شری…… کے بعد واحد پہلا اور آخری رہنما پایا ہے۔ ’’آخری‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ شری…… جی جنہیں میں موجودہ دور میں ہندوؤں کی عظیم ترین شخصیت سمجھتا ہوں، کی ذات بابرکات کے لیے اپنے دل میں انتہائی عقیدت رکھنے کے باوجود، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ان کے مشن کی تکمیل ہندو قوم پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ ہندو قومیت میں کون سے عناصر شامل ہیں یا ہندو پن کیا ہے؟ اس کی تسلی بخش تفسیر آج تک نہیں ہوسکی۔ گوشت خور بھی ہندو اور گوشت کا تارک بھی ہندو، وید مقدس کو ماننے والا بھی اور ویدوں کا منکر بھی ہندو، گائے کا پجاری بھی ہندو اور گائے کے چمڑے کے جوتے بنانے والا اور گائے کے چمڑے کے سازو سامان سے گھروں کو زینت دینے والا بھی ہندو،بتوں کا پجاری بھی ہندو اور بتوں کا کھنڈن کرنے والا بھی ہندو۔ آستک بھی ہندو اور ناستک بھی ہندو، کروڑوں دیویوں دیوتاؤں کا ماننے والا بھی ہندو اور توحید کا قائل بھی ہندو۔جو قطعی ایک دوسرے کی ضد ہیں!بھائی پر مانند جی نے اسی لیے ہندو کی ایک دو حرفی تعریف کی ہے کہ ’’جو اپنے آپ کو ہندو سمجھتا ہے وہ ہندو ہے‘‘۔ ویر ساور کرنے پولیٹیکل طور پر یہ تشریح کی ہے کہ ’’جو اس دیش کو ماتری بھومی اور پنیہ بھومی سمجھتا ہے وہ ہندو ہے‘‘۔کچھ قوم پرست مسلمان اس ملک کو ماتری بھومی تو ماننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں مگر پنیہ بھومی نہیں! تو اس طرح مسلمانوں کا سوال جوں کا توں رہا، اور ہندوستان میں یہی ایک مسئلہ ہے جس کے حل کرنے پر ملک کے بہترین دماغ لگے ہوئے ہیں۔ آپ نے جو حل اس کا تجویز کیا ہے وہ فی الواقع نہ صرف مسلمان، نہ صرف ہندو، نہ صرف ہندوستان، بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے یکسانیت رکھتا ہے۔ چند ایک بنیادی اصول ہے جن کے ماننے والے ایک طرف، نہ ماننے والے دوسری طرف۔ ایک دو ٹوک (Clear Cut) واضح پالیسی ہے (اسی لیے میں نے آپ کے لیے ’’آخری‘‘ کا لفظ اوپر استعمال کیا ہے)۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آپ کی کلیات کا ایک نظر سے مطالعہ کر لیا ہے۔ آپ نے جو خطبات تعلیمی درسگاہوں میں پڑھے ہیں اور موجودہ یونیورسٹیوں کو قتل گاہوں (Slaughter Houses) سے مناسبت دے کر حقیقت کا اظہار فرمایا ہے، اس تلخ صداقت کو بے نقاب کرکے آپ نے جس اخلاقی جرأت اور دلیری کا ثبوت دیا ہے، اس کی جس قدر تعریف کی جائے، کم ہے۔ میں آپ کے ان خطبات کا جب ان کا نووکیشن ایڈریسیز سے موازنہ کرتا ہوں جو ملک کی چیدہ چیدہ نامور ہستیوں کے ہیں، جن کے نام کے ساتھ بڑے بڑے سائن بورڈ چسپاں ہیں، تو یقین فرمائیے، میری طبیعت متلانے لگتی ہے۔
ایک طرف آپ کا قرآن کریم سے روشنی لے کر انسان کی فلاح کی خاطر اسلام کو روشناس کرانے کے لیے دعوت عام دینا اور چھوٹے چھوٹے ٹریکٹوں سلامتی کا راستہ، دین حق، اسلام کا سیاسی نظریہ، اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر وغیرہ لٹریچر کی اشاعت سے ذہنی انقلاب پیدا کرنا میرے سامنے ہیں اور دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ میری قوم کے لیڈر راستی سے بھٹک کر ادنیٰ مقاصد (Minor Causes) پر اپنی اور ساری قوم کی قوت ضائع کر رہے ہیں۔ ایک طرف آپ کا خطبات جمعہ تحریر کرکے ایک ایک مسجد میں اپنے نصب العین کو عوام تک پہنچانے کی سبیل پیدا کرنا اور دوسری طرف ہندوؤں کے گرسوامی گنیش دت اور پنڈت مدن موہن مالوی بنارس ہندو یونیورسٹی میں مندر کی تعمیر کے لیے لاکھوں روپیہ اکھٹا کرنے کی فکر میں گھلے جارہے ہیں۔ آریہ سماج کے بارے میں تو میرا یہ عقیدہ ہے کہ اگر آج رشی دیانند کا ظہور ہو تو وہ سب سے پہلے آریہ سماج کا سدھار کریں۔ کانگریس کے ہندو رہنماؤں کے بارے میں ایک مرتبہ لاہور کے عام جلسہ میں چودھری خلیق الزماں سابق صدر یو، پی مسلم لیگ نے فرمایا تھا کہ ہندوؤں کے بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو سے زیادہ سیاست میرا کوچوان جانتا ہے۔ ٹھیک یہی بات بھائی پرمانند جی فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کی بدقسمتی سے شروع سے ہی کانگریس کے ایسے ہندو لیڈروں کے ہاتھوں میں سیاست کی باگ ڈور رہی ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے سیاست کے میدان میں طفل مکتب ہیں۔جب میں ان حالات پر غور کرتا ہوں تو شاعر کے یہ الفاظ ایک آہ سرد بن کر بے ساختہ زبان سے نکل جاتے ہیں
’’یاسیت کی گرد میں لپٹا ہوا
راستہ تاریک ویراں اور اداس
زندگی بے کیف و رنگ و نور ہے
کارواں منزل سے کوسوں دور ہے
جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے، میں بلا مبالغہ عرض کروں گا کہ آپ کے پروگرام نے ملک کی دیگر تمام سیاسی تحریکوں پر سایہ(Shade) ڈال دیا ہے۔ آپ کا سارا لٹریچر دیکھ جانے کے بعد مجھے بجز ایک کے اور کوئی بھی مسئلہ ایسا نظر نہیں آیا جس میں دیانتداری کے ساتھ آپ سے اختلافات کرسکوں۔ مانتا ہوں کہ آپ کا پروگرام ہر پہلو سے مکمل (Complete) اور خود کفایت (Self Sufficient) ہے۔صرف دو باتیں جو مجھے کھٹکتی ہیں۔ جناب کی خدمت میں عریاں پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔
آپ کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کے مطالعے کے بعد میرا یقین تھا کہ سنسکرت زبان پر آپ کا عبور ایک لازمی چیز ہے مگر اس شام سیر کے وقت دوران گفتگو میں آپ کا یہ فرمانا کہ آپ نے سب کچھ ویدوں کے بارے میں انگریزی کتابوں سے لیا ہے، سچ مچ یہ جملہ سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی برقی رو کے چھوجانے سے جھٹکا سا محسوس کرتا ہے جیسے آپ نے فرمایا تھا کہ ایچ، جی ویلز کا اسلام کے بارے میں براہ راست کیا علم ہے جو انہوں نے اسلام اور حضرت محمدﷺ کی پاکیزہ زندگی پر بے معنی نکتہ چینی کرکے رکھ دی، بعینہ آپ کا سنسکرت زبان سے براہ راست تعلق نہ ہونے کی وجہ سے وید بھگوان کے بارے میں آپ کے احساسات مستند نہیں کہے جاسکتے۔آپ تسلیم کریں گے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں آزادانہ ترجمہ کرنے پر بھی اصل منشا پورا نہیں ہوتا، چہ جائیکہ اسے پھر تیسری زبان میں پیش کیا جائے۔رشی دیانند نے تو مہی دھرا اور رسائن آچاریہ کے وید بھاشیہ کو ہی لغو ٹھہرایا ہے، پھر کہاں آپ ’’میکس ملر‘‘ اور دیگر یورپین اصحاب کے ترجمے سے رائے قائم کرتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ان نیک اور بلند خواہشات کا جو آپ ہندوؤں کے دل و دماغ سے تعصب دور کرکے انہیں اسلام سے صحیح طور پر روشناس کرانے کے لیے اپنے دل میں رکھتے ہیں، احترام کرتے ہوئے میں مودبانہ گزارش کروں گا کہ آپ آئندہ اپنی ان کتابوں پر نظر ثانی فرماتے وقت، جن میں خاص طور پر ہندو لٹریچر کے حوالے(References) پائے جاتے ہیں، کسی ایسے شخص کی امداد حاصل کریں جو ہندو ابھیاس اور ہندو لٹریچر پر براہ راست عبور رکھتا ہو۔ (مجھے ذاتی طور پر ایسے ایک دو اصحاب سے قربت کا شرف حاصل ہے) امید ہے کہ آپ کی ذات مبارک پر میرا منشا واضح ہوگیا ہو گا۔
آپ نے رسالہ ’’اسلام اور جاہلیت‘‘ کے اخیر میں یہ فرمایا ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار ہوگئے تھے نہ ان سے بہتر افراد کبھی روئے زمین پر پائے گئے، نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔‘‘اگر صاف گوئی پر معاف فرمایا جائے تو میں نہایت ادب و انکساری سے گزارش کروں گا کہ آپ نے یہاں طرف داری سے کام لیا ہے، یہاں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں صرف ایک بھگوان کرشن کی شخصیت پیش کروں گا، جن کی دو حرفی تقریر نے کہ:
فعل سے وابستگی واجب نہیں تیرے لیے
فرض کی تکمیل کر، خواہش صلہ کی چھوڑ دے
ویر ارجن جیسے مجاہد پر ایک ہیبت کا عالم طاری کردیا۔ اور اس کے بازو میں برقی طاقت پیدا کردی۔ اور اس تاریخی واقعہ کی یادگار میں گیتا جیسی ممتاز کتاب ظہور میں آئی۔ بڑے بڑے مخالف بھی کرشن بھگوان کی زندگی میں کوئی اخلاقی رخنہ نہ پیش کرسکے۔ ’’بھگوان‘‘ کا لفظ میں نے صفتی معنوں میں لیا ہے، اوتار کے معنوں میں نہیں۔ آپ نے ایسی شخصیتوں کو نظر انداز کرکے اسلام سے پہلے کی تاریخ کے معاملے میں تعصب کا ثبوت دیا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میری آنکھیں ترستی رہتی رہیں کہ آپ کسی جگہ کسی ہندو کیرکٹر کا نمونہ پیش کریں، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
آپ نے ترجمان القرآن میں میرے خطوط اور اپنے جوابات شائع فرماکر اسلامی پریس کے لیے دلچسپی کا سامان مہیا کردیا۔ دہلی کا ایک روزنامہ ’’حکومت الہٰیہ اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے ان خطوط کا حوالہ دے کر آپ پر خوب برسا ہے۔ عجیب منطق ہے کہ دیدہ دانستہ عین اسلامی تعلیم کو جھٹلایا جارہا ہے۔
مرحوم مولانا محمد علی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جہاں تک مسلمانوں کے ایمان کا تعلق ہے، میں ایک فاسق و فاجر مسلمان کو گاندھی جی سے بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ لیکن آپ نے اصل اسلام پیش کرکے اور مسلمانوں کی ایمانی قوت کو الم نشرح کرکے نہ صرف مسلمانوں کی، بلکہ تمام انسانیت کی زبردست خدمت انجام دی ہے۔ آپ کے اسلامی لٹریچر کے طفیل وہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں کیا ہونا چاہے تھا اور کیا ہوگئے ہیں۔ مگر میری گزارش یہ ہے کہ جب آپ کی حکومت الہٰیہ ہر فرد بشر کے لیے انسانیت کے ناطے سے یکساں جاذبیت رکھتی ہے اور آپ کا منشا بھی یہی ہے کہ بلحاظ مذہب و ملت اسے عوام تک پہنچایا جائے۔ پھر آپ اپنی مساعی (Struggle) کو صرف مسلمانوں تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟
جواب: آپ کا یہ اعتراض صحیح ہے کہ میں نے سنسکرت زبان اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے براہ راست واقفیت کے بغیر محض یورپین ترجموں کے اعتماد پر اپنی کتاب میں ویدوں سے کیوں بحث کی۔ لیکن آپ نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ الجہاد فی الاسلام بالکل میرے ابتدائی عہد کی تصنیف ہے جب مذاہب کے معاملے میں میرا رویہ پوری طرح پختہ نہیں ہوا تھا اور نہ وہ احتیاط طبیعت میں پیدا ہوئی تھی جو تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ اب اگر میں اس کتاب کو دوبارہ لکھوں گا تو ہر اس چیز کی جس کی براہ راست واقفیت کا موقع مجھے نہیں ہے، از سر نو تحقیق کروں گا۔کوئی ہندو عالم جو محض حامی دین (Defender of the Faith) ہی نہ ہو، بلکہ خود محقق بھی ہو اور محققانہ انصاف بھی اپنے اندر رکھتا ہو، اگر میری کتاب کے اس حصے پر جو ہندوؤں سے متعلق ہے، تنقید کرکے مجھے بتائے کہ میں نے کہاں کہاں غلطی کی ہے تو اس سے مجھے بہت مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ اگر آپ مجھے کوئی ایسی کتاب بتائیں جس میں ہندو مذہب کے مقصد جنگ اور قوانین جنگ کو بناوٹ کے بغیر، جیسے کہ بجائے خود وہ ہیں، پیش کیا گیا ہو تو مزید باعث شکر گزاری ہوگا۔ ’’بناوٹ کے بغیر‘‘ کی شرط میں اس لیے لگا رہا ہوں کہ آج کل عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مذہب پر، جیسا کہ وہ بجائے خود ہے، ایمان نہیں رکھتے ، مگر قومی عصبیت کی خاطر اس مذہب کو اور اپنے مذہبی طرز عمل کو ’’معقول‘‘ بنانے کے لیے وہ اکثر موجودہ نظریات کے مطابق ایک نیا مذہب گھڑتے ہیں اور پرانے مذہب کے نام سے اسے پیش کرتے ہیں۔ مجھے اس طریقے سے سخت نفرت ہے خواہ اسے مسلمان برتیں یا ہندو یا کوئی اور۔ میرا خود بھی یہ طریقہ ہے اور میں پسند بھی صرف ایسے ہی لوگوں کو کرتا ہوں جو اصل مذہب کو جیسا کہ فی الواقع وہ ہے، ویسا ہی رہنے دیں اور ویسا ہی اسے پیش کریں، پھر اگر وہ ماننے کے لائق ہو تو اسے مانیں اور ماننے کے لائق نہ ہو تو اسے رد کردیں۔
دوسری چیز جس کی آپ نے شکایت کی ہے، اس پر آپ کو بجائے مجھ سے شکایت کرنے کے خود ہندوؤں سے شکایت کرنی چاہیے تھی اور مجھے بھی اس معاملے میں ان سے شکایت ہے۔ انہوں نے خود اپنے بزرگوں کی سیرتوں کو محفوظ نہ رکھا بلکہ ان کی حقیقی زندگیوں کو افسانوں سے خلط ملط کردیا اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہودیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنی اخلاقی کمزوریوں کو درست ثابت کرنے کے لیے بد ترین اخلاقی کمزوریاں اپنے بزرگوں کی طرف منسوب کردیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کے جن بڑے بڑے اشخاص کی طرف نگاہیں اس توقع سے اٹھتی ہیں کہ انہیں اخلاقی پاکیزگی اور عظمت انسانیت کے نمونے کی حیثیت سے لیا جاسکے گا۔ ان سب کے واقعات زندگی تاریخی حیثیت سے مشتبہ بھی ہیں اور افسانویت سے آلودہ بھی۔ اور جن ماخذ کی سند سے ان کے روشن پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں انہیں کی سند سے ایسے تاریک ترین پہلو بھی آجاتے ہیں جنہیں کسی بڑے انسان کی طرف منسوب کرنا تو درکنار کسی گھٹیا انسان کی طرف منسوب کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔اسی وجہ سے، نہ کہ کسی قومی یا مذہبی تعصب کی وجہ سے میں مجبوراً عربی تاریخ کے صرف ایک ہی دور کو کمال انسانیت کے نمونہ کی حیثیت سے پیش کرتا ہوں کیونکہ وہ تاریخی حیثیت سے نہایت معتبر ہے۔افسانویت کا اضافہ کرنے کی اگر اس میں کوشش کی بھی گئی ہے تو تاریخی تنقید کے ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے اس آلودگی کو پورے منصفانہ طریقہ سے چھانٹ کر الگ کیا جاسکتا ہے اور پھر وہاں کسی اخلاقی گندگی کا سرے سے نام و نشان ہی نہیں ملتا۔ یہ تو خدا کی دین ہے جس کے نصیب میں آجائے۔ اگر عرب نسل کے ایک مختصر گروہ کو یہ فضل نصیب ہوگیا تو اس پر کسی افسوس کی ضرورت نہیں اور نہ افسوس کرنے سے کچھ حاصل ہے۔ بلکہ اگر آپ ہندوستانی یا ہندو کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو انسانیت کے لیے جو چیز قابل فخر ہے، اس پر آپ کو بھی اسی طرح فخر کرنا چاہیے جس طرح ایک عرب فخر کرسکتا ہے، کیونکہ انسانیت کے نقطہ نظر سے جو تاج کسی انسان یا کسی انسانی گروہ کو پہنا یا گیا، وہ ہم سب انسانوں کے لیے تاج فخر ہی ہے خواہ وہ کسی عرب انسان کے سر پر نظر آئے یا ہندوستانی انسان کے سر پر!
(ترجمان القرآن۔ ربیع الاول، جمادی الثانی 64 ھ ۔ مارچ، جون 45 ء)