شفاعت کا صحیح تصور
سوال: کسی مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں آپ پر معتزلی اور خارجی ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔ بنائے فتویٰ یہ ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قیامت کے روز امت کے بارے میں شفاعت کے منکر ہیں۔ اس کا حوالہ ترجمان القرآن جلد ۲۶، عدد ۱، ۲ صفحہ ۳۰ سے لیتے ہوئے آیت ’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘ کے تشریحی نوٹ کا دیا ہوا ہے۔ یہ نوٹ یوں ہے : ’’وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ اور کسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا‘‘۔ اسی طرح تفہیمات سے بھی کوئی حوالہ اسی قسم کا اخذ کیا ہے۔
براہ کرم آپ بیان فرمائیں کہ اہل سنت کا عقیدہ شفاعت کے بارے میں کیا ہے۔ نبی ﷺ اپنی امت کی شفاعت کس حیثیت سے کریں گے، نیز آیا وہ ساری امت کی طرف سے شفیع ہوں گے؟
جواب: خدا ان لوگوں کو نیک ہدایت دے جو دوسروں کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے ساری دنیا میں پھیلاتے ہیں اور ان کے اقوال کو ایسے معنی پہناتے ہیں جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ اگر الزام لگانے والے بزرگ کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہوتا تو وہ اشتہار کی اشاعت سے پہلے مجھ سے لکھ کر پوچھ سکتے تھے کہ تیری ان عبارات کا منشا کیا ہے اور شفاعت کے بارے میں تیرا عقیدہ کیا ہے۔ میری جن عبارتوں کا انہوں نے حوالہ دیا ہے، ان میں سے ایک یہود ونصاریٰ کے غلط عقیدۂ شفاعت کی تردید میں ہے اور اس کا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ اس غلط عقیدے کی وجہ سے کس طرح اہل کتاب کا ایمان بالیوم الآخر باطل ہوگیا ہے جس کی بنا پر قرآن مجید میں ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ دوسری عبارت میں ان تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جو نبیﷺ نے اپنی دعوت رسالت کے آغاز میں مشرکین مکہ کو خطاب کرکے ارشاد فرمائی تھیں۔ دونوں میں سے کسی مقام پر بھی اسلام کے عقیدۂ شفاعت کو بیان کرنے کا موقع نہ تھا۔ آخر کافروں اور مشرکوں کے سلسلے میں اس شفاعت کا ذکر کیوں کیا جاتا جس کے مستحق صرف اہل ایمان ہیں؟ کافروں اور مشرکوں کے معاملے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ وہی کچھ ہے جو قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ
وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ
رہا اسلامی عقیدہ شفاعت تو وہ قرآن و حدیث کی رو سے یہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں شفاعت صرف وہ کرسکے گا جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے اور صرف اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت دے۔ ملاحظہ ہو يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا۔ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ مَنْ ذَالَّذِیْ يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه اس قاعدے کے تحت نبیﷺ آخرت میں یقیناً شفاعت فرمائیں گے، مگر یہ شفاعت اللہ کے اذن سے ہوگی اور ان اہل ایمان کے حق میں ہوگی جو اپنی حد وسع تک نیک عمل کرنے کی کوشش کے باوجود کچھ گناہوں میں آلودہ ہوگئے ہوں۔ جان بوجھ کر خیانتیں اور بدکاریاں کرنے والے، اور کبھی خدا سے نہ ڈرنے والے لوگ حضور ﷺ کی شفاعت کے مستحق نہیں ہیں۔
چنانچہ حدیث میں حضور ﷺ کا ایک طویل خطبہ مروی ہے جس میں آپ جرم خیانت کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ خائن لوگ اس حالت میں آئیں گے کہ ان کی گردن پر ان کا خیانت سے حاصل کیا ہوں مال لدا ہوگا اور وہ مجھے پکاریں گے کہ ’’یا رسول اللہ اغثنی‘‘ (یا رسول اللہ ﷺ میری مدد فرمائے) مگر میں جواب دوں گا کہ ’’لا املک لک شیئا، قد ابلغتک‘‘ (میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تجھ تک خدا کا پیغام پہنچا دیا تھا)۔ ملاحظہ ہو مشکوٰۃ باب قسمۃ الغنائم، الغلول فیھا۔
(ترجمان القرآن۔ محرم ۱۳۷۰ھ، نومبر ۱۹۵۰ء)