یہ طالبانِ قانونِ شریعت
سوال: میاں ممتاز دولتانہ اور دیگر وزراء کی حالیہ تقاریر سے متاثر ہو کر مالکانِ زمین اس بات پر آمادہ ہورہے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کو محفوظ کرانے کے لیے شریعت کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ کریں اور دوسری کسی ایسی ویسی اسکیم کو تسلیم نہ کریں جو ان کے حقوق کو سلب کرنے والی ہو۔ چنانچہ کیمبل پور میں ایسے ہی لوگوں نے مل کر ’’طالبان قانون شریعت‘‘ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی ہے جو کیمبل پور کے ضلع میں اس مطالبہ کو اٹھائے گی اور دوسرے اضلاع میں بھی اس کو حرکت میں لانے کی کوشش کرے گی… اس انجمن نے اس غرض کے تحت ایک ہینڈبل بعنوان ’’انجمن طالبان قانون شریعت کا مطالبہ‘‘ اور ایک اور مراسلہ بنام ممبران پنجاب اسمبلی طبع کرایا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں توقع ہے کہ یہ لوگ ہمارے نصب العین یعنی نفاذِ قانون شریعت سے دلچسپی لیں۔ اس بارے میں آپ ہمیں ہدایت فرمائیں کہ آیا ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں؟
جواب: ایسے ’’طالبان قانون شریعت‘‘ کے ساتھ کسی تعاون اور اشتراک عمل کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا جو پوری شریعت کو ہڑپ کرجانے کے بعد کسی ایک مسئلہ میں شرعی قانون کے طالب بن کر اس لیے کھڑے ہورہے ہوں کہ اس مسئلے میں شریعت کا قانون ان کی خواہش نفس کے مطابق ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ صاف بتادیجیے کہ ہمارا ان کے ساتھ کوئی میل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ شریعت الہٰی کا نفاذ اور قیام نہیں چاہتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقعہ شریعت کے حامی اور طالب ہیں تو پوری شریعت کا قیام اور نفاذ کو اپنے پروگرام میں شامل کریں اور اپنی عملی زندگی میں اور خصوصاً اپنی زمینداری کے معاملات میں شریعت کی پیروی کرکے دکھائیں۔ اگر وہ ایسا کردیں تو ان کے ساتھ تعاون اور اشتراکِ عمل کے مسئلے پر غور کیا جاسکتا ہے، ورنہ نہیں۔
(ترجمان القرآن رمضان ۱۳۷۰ھ، جولائی ۱۹۵۱ء)