قصاص اور دیت
سوال: قصاص اور دیت کے بارے میں چند استفسارات تحریر خدمت ہیں۔ ان کے جوابات ارسال فرمائیں۔
(الف) مقتول کے ورثاء میں سے کوئی ایک وارث دیت لے کر یا بغیر دیت لیے اگر اپنا حق قاتل کو معاف کردے تو کیا سزائے موت معاف ہوسکتی ہے؟ اس میں اقلیت و اکثریت کا کوئی لحاظ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ مثلاً تین بیٹوں میں سے ایک نے قصاص معاف کردیا، باقی دو قصاص لینے پر مصر ہیں تو قاضی کو کیا شکل اختیار کرنی ہوگی؟
(ب) اگر مقتول کے ورثاء دیت لینے پر آمادہ ہیں لیکن قاتل اپنی عزت کے باعث مطلوبہ دیت کی ادائیگی سے قطعاً معذور ہے تو کیا قاضی اس کے ورثاء کو دیت ادا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے؟ اگر کرسکتا ہے تو کیا اس سے ورثاء کو بے گناہ سزا نہیں مل رہی ہے؟
(ج) اگر قاتل کے ورثاء ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو وہ اتنے مفلس ہیں کہ دیت ادا کرنا چاہیں بھی تو نہیں ادا کرسکتے، تو کیا ایسی صورت میں قاتل کو قصاص یا دیت کے متبادل سزا (از قسم حبس و مشقت وغیرہ) تجویز ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا صورت اختیار کی جائے گی؟
(د) موجودہ قانون میں ہائی کورٹ میں اپیل کے بعد بھی اگر قاتل کو پھانسی کی سزا تجویز ہوجائے تو پھر صدر حکومت یا گورنر جنرل کے سامنے رحم کی اپیل ہوتی ہے جس میں سزا کے تغیر کا امکان رہتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ صورت کس حد تک جائز ہے؟
جواب: (ا) مقتول کے ورثاء میں سے کوئی ایک بھی اگر قاتل کو اپنا حق معاف کردے یا دیت لینا قبول کرلے تو قصاص لازماً ساقط ہوجائے گا اور باقی وارثوں کو دیت پر راضی ہونا پڑے گا۔ اس معاملے میں اکثریت و اقلیت کا سوال اٹھانا صحیح نہیں ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جس وارث نے عفو یا قبول دیت کے ذریعے سے قاتل کو زندہ رہنے کی اجازت دی ہے، اس کی اجازت آخر قصاص کی صورت میں کیسے نافذ ہوسکتی ہے؟ مثال کے طور پر اگر تین وارثوں میں سے ایک نے قاتل کو معاف کردیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مقتول کی جان کے ایک تہائی حصہ کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہوگیا۔ اب کیا یہ ممکن ہے کہ باقی دو وارثوں کے مطالبے پر صرف دو تہائی جان لی جاسکے اور ایک تہائی جان کو زندہ رہنے دیا جائے؟ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو لامحالہ باقی دو وارثوں کو قبول دیت پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہی رائے ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس طرح کے ایک مقدمہ میں ظاہر کی تھی اور حضرت عمرؓ نے اسی پر فیصلہ فرمایا۔ چنانچہ مبسوط میں ہے۔ قال ابن مسعود اری ھذا قد احیا بعض نفسہ فلیس للآخر ان یتلفہ، فامضی عمر القضاء علی رایہ (جلد ۲۶، صفحہ ۲۵۸) یعنی ابن مسعودؓ نے کہا کہ میرے نزدیک ایک وارث نے جب قاتل کی جان کے ایک حصے کو حق حیات بخش دیا تو دوسرے کو اسے تلف کرنے کا حق نہ رہا۔ اسی رائے پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ فرمادیا۔
(ب) قاضی یقیناً یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کے اولیا کو دیت ادا کرنے پر مجبور کرے۔ حمل بن مالک والی روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبیﷺ نے اولیا قاتل کو خطاب فرمایا۔ قُوْمُوْا فَدُوْا ’’اٹھو اور دیت ادا کرو‘‘۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دیت ادا کرنے کی ذمہ داری میں قاتل کے ساتھ اس کے اولیا بھی شریک ہیں۔ البتہ اس امر میں فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ دیت ادا کرنے کے معاملے میں قاتل کے اولیا (یا عاقلہ) کن لوگوں کو قرار دیا جائے گا؟ شافعہ کے نزدیک ’’عاقلہ‘‘ سے مراد ورثا یا عصبہ ہیں، اور حنفیہ کے نزدیک وہ تمام لوگ عاقلہ ہیں جو زندگی کے معاملات میں ایک شخص کے پشت پناہ اور سہارا بنتے ہیں، خواہ وہ رشتے دار ہوں یا ہم پیشہ برادری والے، یا وہ لوگ جو عہدوپیمان کی بنا پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند ہوں۔ شافعہ نے جو رائے دی ہے وہ صرف اس معاشرے کے لیے موزوں ہے جس میں قبائلی سسٹم رائج ہو۔ لیکن حنفیہ کی رائے ان معاشروں میں بھی چل سکتی ہے جن میں قبیلے کی بجائے دوسرے نسبی یا معاشی یا تمدنی روابط کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے پشت پناہ بنتے ہوں۔ حنفیہ کی رائے کے مطابق ایک سیاسی پارٹی بھی اپنے ایک فرد کی عاقلہ بن سکتی ہے، کیوں کہ اس کے ارکان زندگی کے اہم معاملات میں ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہوتے ہیں اور بڑی حد تک ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں شریک سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاشرے کی بنیادیں قبائلی نظام کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوگیں تو حضرت عمرؓ نے ایک فوجی کی دیت کا ذمہ دار اس کے پورے لشکر کو ٹھہرایا۔ چنانچہ فتح القدیر میں ہے:
فانہٗ لمادون الدواین جعل العقل علیٰ اھل الدیوان وکان ذلک بمحضر من الصحابۃ رضی اللہ عنھم من غیر نکیر منھم جلد ۸، صفحہ ۴۲)۔)
’’حضرت عمرؓ نے جب عسکری نظام قائم کیا تو دیت کو پورے اہل لشکر پر عائد کیا۔ آپؓ کا یہ فعل صحابہؓ کی ایک مجلس میں انجام دیا گیا اور انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔‘‘
رہا آپ کا یہ سوال یہ اولیا یا عاقلہ پر دیت عائد کرنا گناہ کی سزا بے گناہوں کو دینے کا ہم معنی تو نہیں ہے؟ تو اس کا جواب آپ خود پالیتے اگر اس امر پر غور فرماتے کہ ایک شخص اجتماعی زندگی کے اندر رہتے ہوئے قتل جیسے اجتماع کش فعل کا ارتکاب بالعموم اپنے حمایتیوں کے بل بوتے پر ہی کیا کرتا ہے۔ اگر وہ لوگ جن کی حمایت اور پشتبانی پر وہ بھروسہ رکھتا ہے، یہ جان لیں کہ اس کی ایسی حرکات کی ذمہ داری میں وہ بھی شریک ہوں گے، تو وہ اسے قابو میں رکھنے کی خود کوشش کریں گے اور اسے ایسی چھوٹ نہ دیں گے کہ وہ دوسروں کی جان لیتا پھرے۔ کیاعجب ہے کہ دیت کے ذمہ دار اولیا کے لیے ’’عاقلہ‘‘ کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہو۔ عقل کے معنی آپ جانتے ہی ہیں کہ روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ شاید ابتداء اس لفظ کو اختیار کرنے میں یہی مناسبت پیش نظر رہی ہو کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کام یہ ہے کہ آدمی کو قابو میں رکھیں اور ایسا بے قابو نہ ہونے دیں کہ وہ قتل و غارت کا ارتکاب کرنے لگے۔
(ج) اگر قاتل ایک لاوارث آدمی ہو یا اس کا قریب تر حلقئہ اولیا دیت کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں صحیح یہ ہے کہ اس کی دیت کا بوجھ وسیع تر حلقہء اولیا پر ڈالا جائے، حتیٰ کہ بالآخر اس کا بوجھ ریاست کے خزانے پر پڑنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک شہری کا وسیع تر علاقہ اس کی ریاست ہی ہے۔ اس قول کا ماخذ وہ حدیث ہے جس میں نبیﷺ نے رئیس مملکت ہونے کی حیثیت سے فرمایا ہے:
من ترک کلا فالیَّ ومن ترک مال فلورثتہ وانا وارث من لاوارث لہ اعقل لہ وارثہ۔ (ابودائود، کتاب الفرائض)ۤۤۤۤــ
’’یعنی اگر کوئی شخص بے سہارا اہل و عیال چھوڑے تو ان کی کفالت میرے ذمہ ہے اور اگر کوئی مال و دولت چھوڑے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے، اور میں لاوارث کا وارث ہوں، اس کی طرف سے دیت بھی دوں گا اور اس کا ورثہ بھی لوں گا۔‘‘
اس حدیث کی رو سے ریاست ہر اس شہری کی وارث ہے جو لاوارث مرگیا ہو اور ہر اس شہری کی عاقلہ ہے جس کی دیت ادا کرنے والا کوئی نہ ہو۔ خود عقل کی رو سے بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کیوں کہ ریاست ملک میں امن کی ذمہ دار ہے، اگر وہ قتل کو روکنے میں ناکام رہی ہے تو مقتول کے وارثوں کے نقصان کی تلافی یا تو اسے قاتل کے وارثوں اور حامیوں سے کرانی چاہیے یا پھر خود کرنی چاہیے۔
دیت ادا نہ کرسکنے کی صورت میں قاتل کو کوئی متبادل سزا دینے کا ثبوت کتاب و سنت میں مجھے کہیں نہیں ملا، نہ اس بارے میں سلف سے کوئی معتبر قول منقول ہوا ہے۔
(د) یہ بات اسلامی تصور عدل کے خلاف ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کسی کو سزا کی معاف کرنے یا بدلنے کا اختیار حاصل ہو۔ عدالت اگر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں غلطی کرے تو امیر یا صدر حکومت کی مدد کے لیے پریوی کونسل کی طرز کی ایک آخری عدالت قائم کی جاسکتی ہے جس کے مشورے سے وہ ان بے انصافیوں کا تدارک کرسکے جو نیچے کی عدالتوں کے فیصلوں میں پائی جاتی ہوں مگر ’’مجرد رحم‘‘ کی بنا پر عدالت کے فیصلوں میں ردو بدل کرنا اسلامی نقطہ نظر سے بالکل غلط ہے۔ یہ ان بادشاہوں کی نقالی ہے جو اپنے اندر کچھ شان خدائی رکھنے کے مدعی تھے یا دوسروں پر اس کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔
(ترجمان القرآن، رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ، جون و جولائی ۱۹۵۲ء)