مسئلہ مذکور پر مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی سے مراسلت

مولانا ظفر احمد صاحب کا مکتوب:

مکرمی مولانا سید ابوالا علیٰ صاحب ! زادت محاسنکم !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! مجھے آپ سے غائبانہ محبت ہے جس کی شہادت خود آپ کا ضمیردے گا اور میرا یہ طرز عمل بھی کہ میں گاہے گاہے تھانہ بھون اور ڈھاکہ سے آپ کو از خود لکھتا رہا ہوں۔ یہ خط بھی اسی غائبانہ محبت کی بنا پر از خود لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ معلوم کرکے افسوس ہوا کہ آج کل بعض علما نے آپ کی تکفیر و تفسیق کے لیے فتویٰ نویسی شروع کردی ہے اور آپ کو جماعت اہل حق سے جدا سمجھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اہل حق سے الگ نہ کرے۔ پھر کسی کے الگ کرنے کی پروا نہیں۔

لکل شیئی اذا فارقتہ عوض

ولیس للہ ان فارقت من عوض

میں نے ترجمان القرآن میں ایک مخدوم زادہ بزرگ کا مضمون پڑھا۔ افسوس ہے کہ انہوں نے تصور شیخ کی وہی تصویر پیش کی ہے۔ جسکی بنا پر محققین نے اس کی تعلیم موقوف کی تھی۔ تصور شیخ کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ وصول الی اللہ کے لیے قلب کو حب دنیا اور علائق ماسویٰ اللہ سے پاک و صاف کرنا ضروری ہے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ہر چیز کی محبت کو ایک ایک کرکے الگ الگ نکالا جائے۔ یہ راستہ طویل بھی ہے اور بعض کے لیے دشوار بھی۔ اس لیے بعض محققین نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان سب پر کسی ایک کی محبت کو غالب کردیا جائے، اس کے غلبہ سے دوسری اشیاء کی محبت مغلوب و مضمحل ہو کر معدوم یا کالعدم ہوجائے گی۔ پھر اس ایک کی محبت کا مغلوب کرنا یا نکالنا زیادہ دشوار نہ ہوگا۔ اس کے لیے محبت شیخ کو تجویز کیا گیا کہ اس سے طالب کو فی الجملہ محبت ہوتی ہی ہے اور چوں کہ یہ محبت لوجہ اللہ ہے اس لیے اس کا غلبہ محبت حق میں معین رہے گا، اس سے مانع نہ ہوگا۔ جب غلبہ شیخ سے دوسری اشیاء کی محبت مغلوب ہوجائے۔ تو حب شیخ کو مغلوب کرنے کے لیے تصور رسول ﷺ کی تعلیم دی جاتی ہے اس کے بعد فنا فی اللہ کا راستہ شروع کردیا جاتا ہے۔ مگر جب کم فہموں نے تصور شیخ کا مطلب وہ سمجھ لیا جو ہمارے مخدوم بزرگ زادہ نے فرمایا ہے تو محققین نے اس کی تعلیم موقوف کردی اور اس کو ماھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون کا مصداق بتلایا۔ اس مسئلہ میں آپ کے رسالہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں۔

لیکن اس کے ساتھ ہی میں دوسرے مسئلے میں اپنے مخدوم زادہ کی تصدیق کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کی جماعت کے بعض افراد قرآن و حدیث سے براہ راست استنباط کرناچاہتے ہیں، اور اس کی پروا نہیں کرتے کہ وہ استنباط فقہا امت کے موافق ہے یا خلاف۔ اس کی تازہ ترین مثال ترجمان القرآن جلد ۳۶، عدد۲، بابت شعبان ۱۳۷۰ھ، مطابق جون ۱۹۵۱ء میں ابھی ابھی میری نظر سے گزری۔ آپ نے دارالاسلام اور دارالکفر کے مسلمانوں کے تعلقات کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جہاں تک مجھے علم ہے قرآن مجید کا منشا یہی ہے کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے مسلمانوں میں وراثت اور شادی بیاہ کے تعلقات نہ ہوں‘‘۔ پھر ان مہاجرین کے متعلق جن کے ایسے رشتہ دار دارالکفرمیں رہ گئے ہوں، جن کے وہ وارث ہوسکتے ہیں، فرمایا ہے کہ ’’ان کے بارے میں بھی میرا خیال یہی ہے کہ نہ وہ ہندوستان میں میراث پاسکتے ہیں اور نہ ان کے ہندوستانی رشتہ دار پاکستان میں ان سے میراث پانے کا حق رکھتے ہیں‘‘الخ (صفحہ ۱۲۵)

آپ کا یہ فتویٰ مذہب حنفی اور جملہ مذاہب اربعہ کے خلاف ہے اور جس آیت سے آپ نے استنباط کیا ہے وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُهَاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِهِم مِّن شَيْءٍ حتیٰ یُھَاجِرُوا اس میں اگر ولایت کو بمعنی وراثت تسلیم کر لیا جائے، موالات کے معنی میں نہ لیا جائے، تو یہ حکم اس وقت کا ہے جبکہ ابتدائے قدوم مدینہ میں رسول اللہﷺ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخاۃ قائم کردی تھی جس کی بنا پر مہاجرین انصار کے اور انصار مہاجرین کے وارث ہوتے تھے۔ جس کی دلیل اسی ٓایت کا یہ ٹکڑا ہے کہ:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ (سورۃ الانفال، آیت:72)
پھر جب مہاجرین و انصار کا باہم توارث سورۃ الاحزاب کی آیت:

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُوْلُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

سے منسوخ ہوگیا تو اب یہ حکم باقی نہ رہا کہ مسلم مہاجر مسلم غیر مہاجر کا وارث نہ ہو، یا برعکس۔ بلکہ آیت المواریث کے موافق توراث ہونے لگا۔

پھر آپ نے اس پر بھی غور نہ کیا کہ سورۃ الممتحنہ کی آیت وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا کے نزول سے پہلے تک غیر مسلم عورتیں صحابہ مہاجرین کے نکاح میں بدستور مکہ میں تھیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمرؓ وغیرہ نے اپنی کافر عورتوں کو طلاق دے دی تو ان کا نکاح مکہ کے کافروں سے ہوا۔ حالاں کہ مکہ اس وقت صرف دارالکفر ہی نہ تھا بلکہ وہاں کے باشندے محارب بھی تھے جن سے غزوہ حدیبیہ 6 ہجری میں چند سال کے لیے صلح کی گئی تھی تو جس دارالکفر کے باشندے برسر جنگ نہ ہوں، وہاں کی مسلمان عورتوں سے شادی بیاہ کو اور وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ توارث کو آپ کس دلیل سے منع کر سکتے ہیں؟

آج ہندوستان جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی برطانیہ کی حکومت میں تھااور آج جیسا پاکستان دارالاسلام ہے ویسا ہی کسی وقت حیدرآباد بھی دارالاسلام تھا، بلکہ کچھ زیادہ کہ وہاں محکمہ امور مذہبی قائم تھا جو اب تک پاکستان میں قائم نہیں ہوا، تو کیا آپ اس وقت ہندوستان کے اور حیدرآباد کے مسلمانوں میں باہم شادی بیاہ اور توارث کی ممنوع سمجھتے تھے؟ یا اس وقت اگر کوئی حاجی مہاجر ہو کر مکہ مدینہ میں رہ جاتا اور اس کی موت کے وقت مکہ مدینہ میں اس کا کوئی وارث نہ ہوتا تو آپ یہ فتویٰ دے سکتے تھے کہ اس کے ہندوستانی رشتہ داروں کو اس کاترکہ نہ دیاجائے؟

اگرآپ یہ فتویٰ دے دیتے تو ساری دنیا آپ کی مخالفت کرتی۔حکومت حجاز کا تعامل ٹرکی کے زمانہ میں بھی اور آج بھی یہی رہا ہے اور ہے کہ ایسے لوگوں کا ترکہ ہندوستان کی حکومت کے ذریعے سے ان کے ہندوستانی ورثا کو دے دیا جاتا تھا جبکہ ثبوت مل جاتا کہ اس کے ورثاء موجود ہیں۔ کسی مذہب کے علماء نے بھی حکومت حجاز کو یہ فتویٰ نہیں دیا کہ ان حاجیوں کا مال ہندوستانی ورثاء کا نہیں بلکہ حکومت کا حق ہے۔

اور اگر آیت انفال سے مراد ولایت بمعنی وراثت نہیں بلکہ بمعنی موالات ہے تو اسکا میراث و نکاح سے کوئی علاقہ نہ ہوگا، بلکہ موالات اور ترک موالات کا اس میں بیان ہوگا جس میں محاربین اور غیر محاربین کا فرق بھی ہوگا اور مستامن وغیر مستامن کا بھی۔ جس کی تفصیل سورۃ الممتحنہ کی آیت لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ … الآیۃ کے تحت مفسرین و محدثین و فقہا نے بہت کچھ بیان کی ہے۔ ملاحظہ ہو شرح السیر الکبیر للامام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ۔

اخیر میں خیر خواہی کے ساتھ چند باتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں:

(ا)قرآن مجید سے مسائل و احکام کا استنباط کرتے ہوئے کم از کم احکام القرآن للرازی احکام القرآن لابن العربی۔ تفسیر روح المعانی اور بیان القرآن لحکیم الامتہ التھانوی سے مراجعت ضرور کرلیا کریں۔

(ب) فتویٰ دینے سے پہلے فقہا حنفیہ کی کتابوں اور اہل فتویٰ علما سے مراجعت فرمالیا کریں کیوں کہ فتویٰ نویسی محض کتابوں کے مطالعہ سے نہیں آتی۔ اس کے لیے اہل افتاء کے پاس رہ کر مدتوں کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

(ج) ہم اور آپ مذہب حنفی کے سوا دوسرے مذاہب سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، کیوں کہ یہاں دوسرے مذاہب کا درس دینے والے محقق علما موجود نہیں ہیں اور محض کتابوں میں دوسرے آئمہ کے اقوال دیکھ لینے سے ان کے مذہب کا پورا علم نہیں ہوسکتا۔ آپ دیکھیں گے کہ ہماری کتابوں میں بعض مسائل کے متعلق دوسرے آئمہ کا مذہب غلط لکھ دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ان کی کتابوں میں ہمارا مذہب بعض مسائل میں غلط نقل ہوگیا ہے۔ حافظ ابو بکر بن ابی شبیہ جیسا محدث، جس کا وظیفہ ہی یہ ہے کہ ہر بات سند کے ساتھ کہے، اپنی مصنف کے باب الرد علیٰ ابی حنیفہ میں بہت سے مسائل امام صاحب کی طرف غلط منسوب کرگیا ہے جس کا کتب حنفیہ میں کچھ پتہ بھی نہیں۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک کسی مذہب کو اسی کے علماء سے باقاعدہ نہ پڑھا جائے، اس وقت تک پوری واقفیت نہیں ہوسکتی۔ بعض دفعہ مسئلہ صحیح نقل ہوتا ہے مگر اس میں جس قدر تفصیل و قیود اصل مذہب میں ہیں، وہ سب نقل نہیں کی جاتیں۔

چنانچہ امراۃ المفقود کے مسئلہ میں ہماری کتابوں میں امام مالک ؒ کا مذہب بہت مجمل بیان کیا گیا ہے۔ جب اس مسئلہ کی تحقیق علماء مالکیہ سے کی گئی تو اس میں بڑی تفصیل معلوم ہوئی اور بہت سی قیود و شرائط کا علم ہوا جن کا ہماری کتابوں میں پتہ بھی نہیں۔ ملاحظہ ہو رسالہ الحلیۃ الناجزۃ لحکیم الامتہ التھانوی۔ پس کسی مسئلہ میں مذہب حنفی کو چھوڑ کر یہ دعویٰ کرنا کہ ہم نے مذاہب اربعہ سے خروج نہیں کیا، اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک دوسرے مذاہب کے علما سے اس مسئلہ میں مراجعت نہ کر لی جائے۔

(د) ’’نسبت صوفیہ غنیمتیست کبریٰ امارسوم ایشان بہیچ نیززد۔‘‘ شاہ ولی اللہ صاحب کے اس قول کو پیش نظر رکھ کر نسبت صوفیہ کے حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جائے کیوں کہ اس کے بغیر درجہ احسان حاصل نہیں ہوتا جس پر کمال ایمان موقوف ہے اور اس نسبت کے لیے رسوم صوفیہ یا ان کے اشغال مروجہ کی اصلاً ضرورت نہیں مگر اہل نسبت کی صحبت ازبس ضروری ہے

قال راہ گزار مرد حال شو

پیش مردے کا ملے پامال شو

آپ کے قریب ہی … تشریف فرما ہیں۔ گاہے گاہے ان کے پاس جاتے رہا کریں۔ امید ہے کہ میری باتوں کو خیر خواہی پر محمول کیا جائے گا اور اسی نظر سے خط کو دیکھا جائے گا۔

(ظفر احمد)

جواب
مکرمی و محترمی مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی زاد مجد کم !

السلام علیکم و رحمتہ اللہ علیہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ مورخہ25 جولائی مجھے ذرا دیر سے ملا۔ اسی لیے جواب بھی بتاخیر حاضر ہو رہا ہے۔ اس میں میری کوتاہی نہیں ہے۔

میں آپ کے اخلاص محبت کا دل سے شکر گزار ہوں اور مزید شکر گزاری کی موجب وہ علمی رہنمائی ہے جو آپ نے ازراہ کرم عنایت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔

فتاویٰ کے بارے میں جناب نے بالکل سچ فرمایا۔ میری بھی غایت تمنا بس یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار سے نہ دھتکارا جاؤں، اس کے بعد مذہبی درباروں سے دھتکار دیے جانے کی مجھے پرواہ نہیں ہے۔

تصور شیخ کی جو تعبیر آپ نے پیش فرمائی ہے، اس پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ تدبیر کی حد تک اسے مباح مانا جائے گا، اگر آدمی اسی نیت سے اس تدبیر کو اختیار کرے جو آپ نے بیان فرمائی ہے۔ البتہ جو تعبیر حکیم عبدالرشید صاحب نے پیش فرمائی تھی وہ تو سخت خطرناک تھی اور مولانا امین احسن صاحب نے جو گرفت کی تھی، اسی پر کی تھی۔

آپ کا یہ ارشاد بجا ہے کہ قرآن مجید سے مسائل واحکام کا استنباط کرتے ہوئے جصاص اور ابن العربی کی احکام القرآن اور تفسیر روح المعانی اور بیان القرآن کا مطالعہ کرلیا جائے۔ الحمدللہ کہ میں پہلے ہی اس مشورے پر عامل ہوں۔ مولانا تھانوی ؒ کی بیان القرآن تو میرے پاس نہیں ہے البتہ مقدم الذکر تینوں کتابیں موجود ہیں اور ہمیشہ آیات سے احکام معلوم کرنے میں تینوں کو بغور دیکھ لیتا ہوں اور صرف انہی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ابن کثیر، ابن جریر اور تفسیر کبیر سے بھی مراجعت کرلیتا ہوں تاکہ مسئلے کے تمام اطراف سامنے آجائیں۔ اس لیے آپ یہ خیال نہ فرمائیں کہ میں تحقیق و مطالعہ کے بغیر ہی اظہار رائے کردینے کا عادی ہوں۔ البتہ ایک چیز ضرور ہے جس میں میرا طریقہ آپ حضرات سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ میں ان میں سے کسی کی تحقیق کو حرف آخر نہیں سمجھتا، اور جب میرا ان بیانات سے اطمینان نہیں ہوتا تو خود غور وفکر کرکے رائے قائم کرتا ہوں۔

فتویٰ دینے کی غلطی میں نے آج تک کبھی نہیں کی۔ فتویٰ جو شخص بھی مجھ سے پوچھتا ہے، میں ہمیشہ اس کو یہی جواب دیتا ہوں کہ مجھے منصب افتا حاصل نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ مسائل میں میری تحقیق پوچھتے ہیں ان کو اپنے علم کے مطابق جواب دے دیتا ہوں اور جواب دیتے وقت فقہ کی مستند کتابوں سے مراجعت کرنے کا پورا التزام کرتا ہوں۔ مطالعہ و تحقیق کے بغیر اظہار رائے سے میں نے ہمیشہ اجتناب کیا ہے یہ اور بات ہے کہ کبھی محض رائے پر اکتفا کرجاتا ہوں اور دلائل و مآخذ بیان کرنے کا موقع نہیں پاتا۔

آپ کا یہ ارشاد بھی بجا ہے کہ کتابوں میں بالعموم اپنے مذہب کے سوا دوسرے مذاہب کے اقوال ثبت کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ اس چیز کو میں نے خود محسوس کیا ہے۔ اس لیے میں مذہب حنفی کے سوا دوسرے مذاہب کے اقوال معلوم کرنے کے لیے صرف ان کتابوں پر اکتفا نہیں کرتا جو فقہا حنفیہ نے لکھی ہیں، بلکہ خود ان مذاہب کی اصل کتابیں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ مثلاً مذہب حنبلی کے لیے المغنی لا بن قدامہ اور مذہب مالکی کے لیے المدونہ وغیرہ۔ نیز میرا تجربہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے اقوال کو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں کافی احتیاط کے ساتھ ثبت کیا گیا ہے اور بدایۃً المجتہد بھی اس معاملے میں نسبتاً خاصی قابل اعتماد ہے۔شوکانی کو بھی میں نے اس معاملہ میں خاصا محتاط پایا ہے۔ اگرچہ بعض مقامات پر انہوں نے مذہب کے نقل میں غلطیاں کی ہیں۔ بہرحال ایک مسئلے کی تحقیق میں بہت سے مراجع کی طرف رجوع کرنے سے قریب قریب صحیح واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

صوفیہ کی صحبت سے میں نے اکثر استفادہ کیا ہے۔ ایک مدت تک میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ جس باخدا بزرگ کا بھی پتہ چلا، ان سے ضرور جا کر ملا اور ان کی صحبت میں بیٹھا۔ میرا اپنا خاندان بھی اہل تصوف ہی میں سے ہے اور میرے والد مرحوم تک بیعت و ارشاد کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ تصوف کا تھوڑا بہت مطالعہ میں نے بھی کیا ہے اور متعدد صوفی بزرگوں سے توجہ لینے اور اشغال سیکھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس لیے تصوف اور اہل تصوف کے بارے میں اپنے جن خیالات اور آراء کی بنا پر میں بدنام ہوں، انہیں ایک ایسے شخص کے خیالات اور آراء نہ سمجھیں جو اس کوچہ سے بالکل نابلد ہے۔ میں نے تصوف کو بھی دیکھا ہے اور اہل تصوف کو بھی، اور اس کے اچھے اور برے پہلو دیکھ کر ہی ایک نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میں نہیں کہتا کہ جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں، اسے ہر شخص مان لے۔ البتہ یہ عرض ضرور کرتا ہوں کہ میری رائے کو محض ایک سطحی رائے سمجھنے کی غلطی دوسرے لوگ بھی نہ کریں۔ اب بھی مجھے کسی صاحب کمال سے استفادہ کرنے میں تامل نہیں ہے اور میری ہر رائے نظر ثانی کے قابل ہے۔ لیکن میں اس کا کیا کروں کہ بہت سے لوگ جنہیں صاحب کمال کہا جاتا ہے، میں نے اپنے تجربہ میں ان کو ناقص پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی صاحب کمال سے استفادہ کرنے کا موقع نصیب فرمادے۔

اب میں اس مسئلے کی طرف آتا ہوں جس پرآپ نے تفصیلی گرفت فرمائی ہے۔ میں نے اس پر جس اختصار کے ساتھ اظہار رائے کیا تھا، اسے دیکھ کر شاید آپ نے یہ گمان فرمایا ہے کہ میں اس مسئلے میں فقہا کے ارشادات سے ناواقف ہوں اور قرآن مجید کی صرف ایک آیت دیکھ کر اظہار رائے کر بیٹھا ہوں۔ حالاں کہ معاملہ یہ نہیں ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ دارالکفر کی مسلمان رعایا اور دارالاسلام کی حکومت اور مسلم رعایا کے باہمی تعلقات کا معاملہ نہایت سخت پیچیدہ ہے اور اس معاملہ میں، میں نے فقہا کے بیانات کو بہت ناکافی پایا ہے۔ متقدین کو تو اس مسئلے سے کچھ زیادہ سابقہ پیش نہیں آیا تھا، اس لیے انہوں نے اس کے سارے اطراف کھول کر بیان نہیں کئے۔ رہے متاخرین تو ان کو اس سے سابقہ ضرور پیش آیا مگر وہ نہ تو متقدین سے کچھ زیادہ مفصل رہنمائی پاسکے اور نہ خود ہی اجتہاد کی جراٴت کرسکے۔ اب جو ہم اپنی آزاد حکومت لے کر بیٹھے ہیں تو ہمیں پھر اس مسئلے سے سابقہ پیش آرہا ہے اور قدم قدم پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پچھلی کتب فقہ اس معاملے میں ہماری پوری رہنمائی نہیں کرتیں۔ آپ خود ذرا ان احکام کو جمع فرمائیں جو اس مسئلے کے متعلق کتب فقہ میں ملتے ہیں اور پھر دیکھیں کہ کیا وہ ہمارے اس وقت کے حالات کا شافی جواب دیتے ہیں؟

دارالاسلام کی حکومت اور مسلم رعایا، اور دارالکفر کی مسلم رعایا کے باہمی تعلقات کا معاملہ محض قانونی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کے مسائل بھی ساتھ ساتھ الجھے ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان جو دارالاسلام کی رعایا ہے، اگر دارالکفر کے کسی شخص کا وارث ہو اور اس کا مفاد اس وراثت سے وابستہ ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ یہی وابستگی اس کے لیے فتنہ بن جائے۔ ایک لڑکی جو دارالکفر کی رعایا ہے اور جس کے اعزہ اقربا سب دارالکفر میں رہتے ہیں اور وہاں اپنے مفادات رکھتے ہیں، اگر دارالاسلام میں بیاہی آئے تو ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مسلموں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ ایک عورت جو ہجرت کرکے دارالاسلام میں آچکی ہے یا دارالاسلام ہی کی رہنے والی ہے، اس کا شوہر اگر دارالکفرکا باشندہ ہے اور ہجرت کے لیے تیار نہ ہو تو ظاہر ہے کہ ہم نہ اس عورت کو اس سے نفقہ دلوا سکتے ہیں، نہ ہماری کسی عدالت کا کوئی اختیار اس شخص پر نافذ ہوتا ہے کہ ہم کسی حق کا استقرار کر سکیں۔ لامحالہ ہمیں اس عورت کو یا تو تمام حقوق سے محروم رکھنا پڑے گا، یا پھر اسے دارالکفر بھیجنا پڑے گا۔ اس طرح کی بہت سی پیچیدگیاں ان معاملات میں پائی جاتی ہیں جو نری قانونی نوعیت کی نہیں ہیں۔

پھر اس معاملہ میں متعدد معاشی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ دارالکفر کی حکومت اپنے علاقہ میں دارالاسلام کی رعایا کے حقوق مالکانہ ساقط کرسکتی ہے یا ان کو طرح طرح کی پابندیوں سے محدود کرسکتی ہے اور دارالاسلام کی طرف دولت کے منتقل ہونے کو روک سکتی ہے۔ مگر ہم دارالاسلام میں دارالکفر کے ایک مسلمان کے حقوق وراثت شرعاً مان لینے کے بعد انہیں کیسے ساقط کرسکیں گے اور دارالاسلام کے ایک مسلمان کو اپنی دارالکفر میں رہنے والی بیوی کا نفقہ یا مہر ادا کرنے سے کس طرح روک سکیں گے؟ اس طرح دولت کا ایک بہاؤ شروع ہوجائے گا جو دارالاسلام کے لیے مضر اور دارالکفر کے لیے مفید ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ دارالکفر میں کروڑوں مسلمان رعایا کی حیثیت سے آباد ہوں اور دارالاسلام کے بے شمار مسلمانوں سے ان کے تعلقات ہوں، یہ نقصان ناقابل لحاظ بھی نہیں رہتا۔

میں اس پیچیدگی پر بہت غور کرتا رہا ہوں اور مجھے نہ کتب فقہ میں اس کاشافی حل مل سکا ہے اور نہ ان معاملات میں ابتداء ً چند سال تک مدینہ طیبہ اور مکہ کے مسلمانوں کے درمیان رہے تھے۔ اس لیے میں نے قرآن مجیدسے اس کا حل معلوم کرنے کی کوشش کی اور میں نے یہ سمجھا کہ آیت الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُهَاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ

میں اس کا مکمل جواب موجود ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس آیت سے کیا احکام مستنبط ہوتے ہیں اور کس طرح ہوتے ہیں۔

اس آیت میں سب سے اہم لفظ ’’ولایت‘‘ ہے جس کے معنی کا تعین ضروری ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کو مجرد وراثت یا کسی اور ایک معنی پر منحصر کرنے کی کونسی معقول وجہ ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ کی پوری وسعت کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ نصرت، سرپرستی، حمایت، نگہبانی اور قرابت کے مفہومات پر حاوی ہے۔ ان مفہومات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ’’ولایت‘‘ سے مراد ایک طرف تو وہ تعلق ہے جو ایک ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ تعلق جو ایک ریاست کے شہریوں میں باہم ہوتا ہے، اور اس کے حدود ان تمام اقسام کے روابط پر وسیع ہیں جن پر لغت کے اعتبار سے لفظ ولایت کا اطلاق ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت صرف دارالاسلام ہی کے مسلمانوں کی ولی ہو اور اس کو دارالکفر کے مسلمانوں کی ’’ولایت‘‘ سے سبکدوش کردیا جائے تاکہ وہ بین الاقوامی پیچیدگیوں میں مبتلا نہ ہو اور ایسے فرائض سے گرانبار بھی نہ ہو جنہیں ادا کرنا عملاً محال ہے۔

اس کے ساتھ قرآن مجید کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی مسلم رعایا اور دارالکفر کی مسلم رعایا کے درمیان بھی ولایت کے یہ تعلقات نہ ہوں، بلکہ ان روابط کو دارالاسلام کے مسلمانوں تک ہی محدود رکھا جائے۔

ولایت کا یہ مفہوم اور منشا ہوجانے کے بعد اس آیت سے جو ہدایت نکلتی ہیں، وہ یہ ہیں:

(۱)دارالکفر کی مسلم رعایا کی حمایت و نصرت، سرپرستی اور نگہبانی اورپشتیبانی، دارالاسلام کی حکومت کے ذمہ نہیں ہے۔ یہ مطلب اس حدیث کا بھی ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا ہے: انا بری من کل مسلم بین ظھر انی المشرکین(ترجمہ میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔)۔ البتہ اگر وہ دین کے معاملہ میں مدد مانگیں تو بشرط طاقت اس کافر قوم کے خلاف ان کی مدد کی جاسکتی ہے جس سے ہمارا معاہدہ نہ ہو۔

(۲) دارالکفر کا کوئی مسلمان جو بدستور دارالکفر ہی کی رعایا بنا رہے، دارالاسلام میں آکر مسلمانوں کے ساتھ ان کے حقوق شہریت میں حصہ دار نہیں ہوسکتا، نہ یہ جائز ہے کہ دارالاسلام کی حکومت میں اسے کوئی ذمہ داری کا عہدہ دیا جائے۔ یہ حقوق اور یہ مناصب اسے صرف اسی صورت میں مل سکتے ہیں جبکہ وہ ہجرت کرکے آجائے۔

(۳) دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے، الا یہ کہ دونوں حکومتوں اور قوموں کے درمیان قابل اعتماد دوستانہ تعلقات ہیں:

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ

’’اللہ تمہیں اس سے نہیں روکتا کہ تم ان غیر مسلموں سے تعلقات رکھو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے یہ کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان سے انصاف کرو‘‘۔ اور ان کے درمیان املاک اور مواریث کے بارے میں مساویانہ معاہدات بھی ہوجائیں تاکہ دونوں کی رعایا ایک دوسرے کی مملکت میں جائیدادوں کی مالک و متصرف ہوسکے۔ اس معاملے میں آپ نے وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ سے جو معارضہ فرمایا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اس مطلب صرف یہ ہے کہ محض مواخاۃ کی بنا پر انصار اور مہاجرین ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ وراثت رشتہ نسب و مصاہرت کی بنا پر ہوگی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ یہ آیت دارالاسلام کے مسلمانوں کی میراث ان اولوالارحام کو پہنچانا چاہتی ہے جو دارالکفر میں رعایا کی حیثیت سے رہتے ہوں اور یہ مطلب آخر کیسے نکالا جاسکتا ہے جبکہ قرآن صاف فیصلہ کرچکا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ … وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ

’’جو لوگ ایمان لائے اور دارالاسلام میں ہجرت کرکے آگئے … اور جنہوں نے مہاجرین کو (دارالاسلام میں) جگہ دی اور ان کی مدد کی وہی ایک دوسرے کے ولی ہیں۔‘‘

(۴) دارالاسلام اور دارالکفر کے مسلمانوں کے درمیان جب ولایت کا تعلق نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ کفایت کا تعلق بدرجہ اولیٰ نہیں ہے۔ اسی لیے کم از کم جو بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے درمیان مناکحت پسندیدہ نہیں ہیں۔ وہ باہم شادی بیاہ کریں تو نکاح منعقد تو ہوجائے گا، لیکن یہ اچھا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ اور اسلامی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس طرح کے رشتوں میں انتظامی احکام کے ذریعہ سے رکاوٹیں ڈالے اور بعض خاص حالات میں ان کو روک دے۔ نیز یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جن کے درمیان پہلے نکاح ہوچکے تھے اب محض اختلاف دار کی بنا پر ٹوٹ گئے۔ لیکن اگر ایک منکوحہ عورت جو دارالاسلام کی رہنے والی ہو، یا ہجرت کرکے دارالاسلام آچکی ہو، عدالت میں اس بنا پر فسخ نکاح کی درخواست کرے کہ اس کا شوہر دارالکفر کی رعایا ہے اور ہجرت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو یہ اس کی درخواست کو منظور کرنے کے لیے ایک معقول وجہ ہوگی۔ اس لیے کہ اسلامی حکومت اس عورت کے معاملات کی تو متولی ہے اور اس کے حقوق کی نگہداشت اس کا فرض ہے، مگر اس کا شوہر اس حکومت کی ولایت سے خارج ہے جس کی بنا پر اس عورت کا کوئی حق بھی اسے سے وصول کرکے نہیں دلایا جاسکتا۔ لہٰذا اگر یہ حکومت اسے اس شوہر کی قید نکاح سے نہ چھڑائے گی تو فرائض ولایت ادا کرنے میں قاصر رہے گی۔ آپ غور فرمائیں تو یہ بات آپ کو بھی عجیب معلوم ہوگی کہ جس کے ہم ولی نہیں ہیں، اس کے حقوق کے تو ہم نگہبان بن کر بیٹھ جائیں مگر جس کے ہم ولی ہیں، اس کو اس کا حق بھی نہ دلوائیں اور نہ دلواسکیں۔

میرے نزدیک اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کا تقاضا بس یہ ہے کہ جس عورت کے پاس نفقہ موجود ہو اور جس کے مبتلائے فتنہ ہوجانے کا بھی کوئی معقول احتمال نہ ہو، اس کے لیے تو ایک مناسب مدت انتظار تجویز کردی جائے کہ اس مدت کے اندر اگر اس کا شوہر ہجرت کرکے آجائے،تو وہ عورت اسی کی ہوگی، ورنہ اس کے بعد نکاح فسخ ہوجائے گا اور عورت آزاد ہوگی کہ جہاں چاہے نکاح کرلے۔ لیکن جس عورت کے پاس نفقہ نہ ہو یا جس کے مبتلائے فتنہ ہونے کا معقول احتمال ہو، اس کا نکاح بلاتاخیر فسخ کیا جانا چاہیے۔ ہم دارالکفر کے کسی شخص کی خاطر دارالاسلام کی کسی عورت کو نہ تو بھوکا مار سکتے ہیں اور نہ اسے قذف اور زنا کے خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

آیت لاتمسکوا بعصم الکوافر سے اس موقع پر آپ نے جو استدلال فرمایا ہے وہ بالکل بے محل ہے۔ ہجرت کے موقع پر مہاجرین کے نکاح میں مکہ کی جو غیر مسلم عورتیں تھیں، ان کو اس لیے طلاق نہ دی گئی تھی کہ اس وقت تک مشرکین و مشرکات کے ساتھ مناکحت کی حرمت کا حکم نہ آیا تھا۔ اسی بنا پر وہ مسلمان عورتیں بھی مشرکین کے نکاح میں رہیں، جو ہجرت کرکے مدینہ چلی گئیں۔ پھر دونوں مملکتوں کے درمیان حالت جنگ قائم ہوگئی جس کی بنا پر ایک مدت تک یہ طے ہونا مشکل تھا کہ مہاجرین اپنا خرچ کیا ہوا مال مشرکین سے لے کر اپنی مشرک بیویوں کو چھوڑ دیں اور مشرکین کو ان کا خرچ کیا ہوا مال واپس دے کر ان کی مسلمان بیویوں کو ان کی قید نکاح سے آزاد کرالیا جائے۔ اس لیے یہ معاملہ صلح حدیبیہ تک ٹلتا رہا اور صلح کے بعد حکم آیا کہ

وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا

میں نہیں سمجھ سکا کہ اس معاملے سے آپ زیر بحث مسئلہ میں کیا دلیل لا سکتے ہیں؟ اور کیسے؟

آپ نے حیدرآباد اور حجاز اور ٹرکی کے تعامل سے جو استدلال فرمایا ہے وہ اس قابل نہ تھا کہ آپ جیسا ذی علم اسے پیش کرتا۔ حیدرآباد کی حکومت اپنے محکمہ امور مذہبی کے باوجود دارالاسلام نہ تھی۔ اس کی حیثیت تو دارالکفر کے اندر ایک ذمی ریاست (Protected State) کی تھی۔ ہندوستان کے مسلمان بھی انگریز کے ذمی تھے اور نظام حیدرآباد بھی۔ نظام کی حکومت نے اگر کچھ اسلامی طریقے جاری رکھے تھے تو وہ اس کے بل بوتے پر نہ تھے بلکہ اس بنا پر تھے کہ انگریز نے اسے ان کی اجازت دے رکھی تھی۔ باقی ماندہ پورے اسلام کو اگر نظام قائم کرنا چاہتا بھی تو نہ کرسکتا تھا، کیوں کہ انگریز اس کو گورا کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ایسی حکومت کو آخر کس بناپر دارالاسلام کہا جاسکتا ہے؟ بخلاف اس کے پاکستان میں پورے اسلام کے قیام کا دستوری اعلان ہوچکا ہے اور عملاً اس کے قیام میں اگر کوئی چیز مانع ہے تو وہ پاکستان کے اپنے ہی حکام کا تساہل ہے نہ کہ کسی غیر مسلم طاقت کا تسلط۔ اس لیے پاکستان اور حیدرآباد کے درمیان سرے سے کوئی وجہ مماثلت موجود ہی نہیں ہے کہ ایک کے مسائل کو دوسرے کے مسائل پر قیاس کیا جاسکے۔ رہا ٹرکی اور حجاز کا معاملہ تو، ان ممالک کے علماء کی جو رائے تھی، اسی پر عمل ہوتا رہا۔ کیا ضروری ہے کہ میں ان کی رائے سے اتفاق ہی کروں؟ آخر آپ کی اور اس ملک کے دوسرے متعدد علماء کی رائے سے بھی تو میں اختلاف کرکے اپنی تحقیق پیش کر ہی رہا ہوں۔ آپ میری دلیل دیکھئے، نہ یہ کہ ٹرکی اور حجاز میں اس کے خلاف کیا عمل ہوتا رہا۔

میں جانتا ہوں کہ میرے سارے استدلال کو یہ کہہ کر رد کیا جاسکتا ہے کہ بہرحال یہ قرآن و حدیث سے براہ راست استنباط ہے اور اس میں یہ پروا نہیں کی گئی ہے کہ یہ استنباط فقہائے امت کے موافق ہے یا مخالف۔ لیکن اگر یہ کسی معقول اور صحیح استدلال کو رد کردینے کے لیے شرعاً کافی وجہ ہوسکتی ہے تو مجھے اس وجہ کے ماخذ سے مطلع فرمایا جائے ورنہ مجھے معاف فرمایا جائے۔ اگر میں عرض کروں کہ تقلید جامد کی یہی وہ قسم ہے جو علماء کرام کے طعنوں اور ملامتوں کے باوجود ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آسکی ہے۔

والسلام

خاکسار: ابوالاعلیٰ

مولانا ظفر احمد صاحب کا دوسرا مکتوب

مکرمی! مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دام فضلکم !

السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ ! محبت نامہ میرے خط کے جواب میں موصول ہوا۔ بہت مسرت ہوئی اور دل سے دعائیں نکلیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میری خیر خواہانہ تحریر پر آپ نے خلوص و محبت کی نظر ڈالی اور تفصیل کے ساتھ جواب لکھنے کی زحمت برداشت کی۔ مجھے آپ سے ایسی ہی توقع تھی۔ اب میں اختصار کے ساتھ چند باتیں اس خط کے متعلق اور عرض کرتا ہوں۔ امید ہے کہ ان کو بھی خیر خواہی پر محمول فرماکر نظر خلوص سے دیکھا جائے گا۔

آپ نے کتب تفسیر کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’میں ان میں سے کسی کی تحقیق کو بھی حرف آخر نہیں سمجھتا‘‘۔ تو ٹھیک اسی طرح اپنی کسی تحقیق کو بھی حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ ایسے مواقع پر صاف لکھ دینا چاہیے کہ عام مفسرین کے بیانات سے میرا اطمینان نہیں ہوا اس لیے غورو فکر کے بعد جو کچھ میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے۔ دوسرے علماء سے بھی تحقیق کرلی جائے اور میری تحقیق کو فتویٰ نہ سمجھا جائے ۔کیوں کہ مجھے منصب افتا حاصل نہیں ہے۔

آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’نیز میرا تجربہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے اقوال کو الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں کافی احتیاط کے ساتھ ثبت کیا گیا ہے‘‘ الخ۔ لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ محض کتابیں دیکھ لینے سے دوسرے مذاہب سے پوری واقفیت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ان مذاہب کے علما ءسے اسی طرح ان کا فقہ نہ پڑھا جائے جس طرح ہم نے فقہ حنفی کو اپنے علما سے پڑھا ہے۔ کیوں کہ فقہی کتابوں میں بالعموم اپنے مذہب کے سوا دوسرے مذاہب کے اقوال نقل کرنے والے بھی ان کی کتابوں کو دیکھ کر ہی نقل کرتے تھے مگر پھر بھی ان سے بہت کچھ خطائیں ہوئی ہیں جس کا سبب بظاہر یہی ہے کہ انہوں نے باقاعدہ ان کے مذاہب کو نہ پڑھا تھا۔ پھر ہم اور آپ کس شمار میں ہیں کہ صرف مطالعہ کتب سے ان مذاہب کو حاصل کرسکیں۔

میرا تجربہ ہے کہ المغنی لا بن قدامہ میں بہت سے مسائل مذہب احمد کی طرف منسوب کئے گئے ہیں حالاں کہ علما حنابلہ کا فتویٰ اس کے خلاف ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ آپ کوچہ تصوف سے نابلد نہیں ہیں اور آپ نے تصوف کو بھی دیکھا ہے اور اہل تصوف کو بھی۔ مگر بہرحال الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ جس درجہ کی طرف اشارہ ہے اس کی تحصیل ضروری ہے۔ اس کی ضرورت سے آپ انکار نہیں کرسکتے اور یقیناً جب تک قرآن وحدیث دنیا میں موجود ہیں، دنیا محسنین سے خالی نہیں ہوسکتی، ان کی تلاش ضروری ہے۔ نہ معلوم آپ کے نزدیک معیار کمال کیا ہے؟ صوفیاء کا اصلی کمال یہی نسبت احسان ہے۔ اس کے متعلق شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا ہے : ’’نسبت صوفیہ غنیمتیست کبریٰ‘‘ اور اس کی علامت حدیث میں یہ ہے کہ اذا رأواذکر اللہ اور یقیناً ایسے لوگ اب بھی ہیں … مگر ان کے پاس خالی الذہن ہوکر جانا چاہیے ناقد بن کر نہ جانا چاہیے کہ ناقدانہ نظر سے تو رسول ﷺ کے کمالات بھی مخفی ہوجاتے ہیں، ولی کس شمار میں ہے؟

دارالاسلام کی مسلمان رعایا اور دارالکفر کی مسلم رعایا کے باہمی تعلقات کے معاملہ میں شرح السیر الکبیر للا مام محمد بن الحسن الشیبانی کا مطالعہ ضروری ہے، وہ انشاء اللہ اس باب میں شافی کافی ہے۔ آپ نے جو سیاسی اور بین الاقوامی الجھنیں اہل دارین کے توارث و تناکح میں بیان فرمائی ہیں، وہ تو دارالکفر کے مسلمانوں کی ہجرت میں بھی موجود ہیں، تو کیا ہجرت کو بھی اس خیال سے بند کردیا جائے گا کہ مبادا یہ لوگ جاسوس بن کر آتے ہوں؟ بالخصوص ہندو رعایائے پاکستان کی واپسی ہندوستان سے تو بالکل بند کردینی چاہیے کہ ان پر سو فیصدی جاسوسی کا شبہ ہے۔ بلکہ پاکستان سے باقی ماندہ ہندوؤں کو بھی نکال دینا چاہیے کہ ان پر مار آستین ہونے کا شبہ ہے۔ نیز پاکستان کے تاجروں کا ہندوستان مال لے کر جانا بھی روک دیا جائے۔ اسی طرح وہاں کے تاجروں کا پاکستان آنا بھی۔ مگر ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہوسکتا ہے۔ پھر توارث و تناکح ہی میں یہ احتمالات مانع کیوں بن گئے؟ان پیچیدگیوں کا جو علاج قرآن مجید نے بتلایا ہے یا ایھا الذین امنوا اذا جاء کم المومنات مھا جراٴت فامتحنوھن وہی سب صورتوں میں بروئے کار لایا جائے گا۔ حکومت کو ان لوگوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے جو پاکستان سے باہر جاتے آتے یا ہندوستان سے نکاح ووراثت کا تعلق رکھتے ہیں۔ مگر نفس تناکح و توارث کو ان احتمالات کی بنا پر ممنوع نہیں کرسکتے جبکہ ہجرت اور تجارت کو بند نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ تجارت کا دروازہ کھولنے سے پاکستان کا وہ مال بھی پاکستان سے باہر جارہا ہے جس کو حکومت پاکستان برآمد نہیں کرنا چاہتی اور مسلم مہاجرین اور ہندو مراجعین میں بعضے پاکستان میں آکر جاسوسی بھی کرتے ہیں۔

آیت والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولا یتھم من شیئی حتی یھاجروا میں اس وقت کا حکم ہے جبکہ ہجرت فرض اور شرط قبول اسلام تھی۔ حدیث انابری من کل مسلم بین ظھر انی المشرکین بھی اسی وقت کے متعلق ہے اور اس وقت کی حکومت مدینہ مہاجرین کی آبادکاری کی ذمہ دار تھی۔ مگر آپ کی حکومت تو اس کی ذمہ داری نہیں لیتی بلکہ مہاجرین کی آمد کو روکنا چاہتی ہے اور جو پاکستان آگئے ہیں، ان کو واپس بلانا چاہتی ہے۔ اس حالت میں جو مسلمان دارالکفر کی رعایا بنے ہوئے ہیں، مجبور ہیں۔ ان پر اس آیت کے احکام چسپاں کرنا بڑی زیادتی ہے۔اسی لیے جب تک ہندوستان کے مسلمانوں پر ہجرت کو فرض نہ کیا جائے اور جب تک حکومت پاکستان ان چار کروڑ مسلمانوں کی آبادکاری کی ذمہ داری اپنے سر نہ لے لے،اس وقت تک ان احکام کو ثابت نہیں کیا جا سکتاجو آپ آیت سے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

جن مسفرین نے اس سے مسلمین دارالاسلام ودارالکفر کے مابین قطع توارث سمجھا ہے اور ولایت کو وراثت کے معنی میں لیا ہے،وہی اس آیت کو سورہ احزِاب کی آیت واولو ا الارحام بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین سے منسوخ مانتے ہیں۔ِ چوں کہ آپ نے بھی اس سے قطع توارث پر استدلال کیا ہے۔ اس لیے میں نے کہا تھا کہ پھر ان مفسرین کی طرح اس حکم کو سورہ احزاب کی آیت سے منسوخ بھی ماننا چاہیے۔ یہ تعارض میں نے پیدا نہیں کیا بلکہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے۔

آپ تو دارالکفر کے مسلمانوں کو دارالاسلام میں حقوق شہریت اور ذمہ داری کے عہدے دینے سے انکار کرتے ہیں مگر حکومت پاکستان دارالکفر کے کفار کو پاکستان میں حقوق شہریت اور ذمہ داری کے عہدے دے رہی ہے۔ غالباً ابھی تک بہت سے انگریز بہت بڑے بڑے عہدوں پر ہیں اور بہت سے ماہرین کو امریکہ، لندن وغیرہ سے بلایا جارہا ہے اور غالباً آپ بھی اس کو شرعاً ممنوع نہ کہیں گے، ورنہ پاکستان ترقی نہ کرسکے گا۔ پھر مسلم غیر مہاجر ہی کیوں خطا وار ہے؟

دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں میں کفایت کی نفی کرنا نرالی تحقیق ہے۔ کیا ایک سید ہندوستان میں رہنے کی وجہ سے سید نہ رہے گا جُلاہا بن جائے گا؟ آخر قطع ولایت سے (اگر تسلیم بھی کرلی جائے) نفی کفایت کیوں کر لازم آگئی۔

جو عورت مہاجرہ ہو کر دارالاسلام میں آجائے اور شوہر دارالکفر میں رہنے پر مصر ہو، اس کے لیے اول شوہر سے طلاق حاصل کرنے کا حکم ہے۔ اگر وہ طلاق نہ دے تو حاکم مرافعہ کے بعد طلاق واقع کر سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو آیت مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے لیے دوسرے دلائل ہیں جن سے فقہا نے تعرض کیا ہے ملاحظہ ہو الحیلۃ الناجزہ لحکیم الامتہ التھانوی ؒ۔

آیت ولاتمسکوا بعصم الکوافر استدلال کے لیے نہیں بلکہ آپ کو الزام دینے کے لیے لکھی تھی کہ آپ تو آیت والذین آمنوا ولم یھاجروا مالکم من ولا یتھم من شئی سے باہم مسلمانوں کے درمیان قطع ولایت کے قائل ہو رہے ہیں حالاں کہ آیت ولاتمسکوا بعصم الکوافر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم مہاجر اور زوجہ کافر، غیر مہاجرہ کے درمیان بھی قطع ولایت اس سے پہلے نہ ہوئی تھی، کیوں کہ نکاح بھی ولایت کے مفہوم میں داخل ہے۔ رہا دعویٰ کہ اس آیت کے نزول تک مشرکین و مشرکات کے ساتھ مناکحت کی حرمت کا حکم نہ آیا تھا … الخ یہ محتاج دلیل ہے۔ آیت ولاتنکحوا المشرکات حتیٰ یومن … ولا تنکحوا المشرکین حتیٰ یومنوا (سورہ بقرہ) اس سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت سے ابتداً نکاح مابین مسلم و کافرہ و برعکس حرام ہوگیا۔ نکاح سابق کا انقطاع نہ ہوا تھا۔ وہ سورہ ممتحنہ کی آیت سے ہوا۔ سو یہ میرے مدعا کے لیے موید ہے کہ مسلم مہاجر اور کافرہ غیر مہاجر کے درمیان اس وقت تک ولایت باقی تھی تو آپ مسلم و مسلمہ کے درمیان قطع ولایت کے کیسے قائل ہیں؟

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ قرآن و حدیث سے براہ راست استنباط کو میں منع نہیں کرتا، مگر اس کے لیے جس قدر وسعت نظر فی الحدیث اور معرفت ناسخ و منسوخ و معرفت اقوال فقہا سابقین کی ضرورت ہے، یہ شرط ہم میں اور آپ میں مفقود ہے۔ اس لیے یقیناً ہم سے بڑی بڑی خطاؤں کا ارتکاب ہوگا۔ سلامتی اسی میں ہے کہ جب کسی مسئلہ میں فقہا سابقین کا فیصلہ نہ ملے تو علماء وقت سے مراجعت کی جائے۔ شاید کسی سے کچھ مل جائے یا کم از کم اپنی تحقیق کو حرف آخر نہ سمجھا جائے اور صاف لکھ دیا جائے کہ اس مسئلہ میں فقہا سلف سے کلام میں کوئی جزئیہ نہیں ملا۔ میں نے قرآن و حدیث سے یہ سمجھا ہے، دوسرے علما سے بھی تحقیق کرلی جائے اور میری تحقیق کو فتویٰ نہ سمجھا جائے۔

والسلام: ظفر احمد عثمانی

جواب
محترمی و مکرمی جناب مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی دام مجد کم !

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ، عنایت نامہ باعث سرفرازی ہوا۔

میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ میں نے کبھی اپنی کسی تحقیق کو، دوسروں ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود اپنے لیے بھی حرف آخر نہیں سمجھا۔ میری ہر رائے قابل نظر ثانی ہے۔ جب کبھی مجھ پر مزید مطالعہ و تحقیق سے اپنی کوئی غلطی واضح ہوجاتی ہے، اس کی اصلاح کرلیتا ہوں اور اس کا اظہار بھی کردیتا ہوں اور جب کبھی کسی کی تنقید سے، خواہ وہ کتنی ہی مخالفانہ و معاندانہ ہو، بد لائل میری کوئی غلطی مجھ پر ظاہر ہوجاتی ہے، اس سے رجوع کرنے میں مجھے تامل نہیں ہوتا۔ اس بات کا بار ہا اظہار کرچکا ہوں کہ فقہی مسائل میں اپنی تحقیق سے جو کچھ بھی میں نے لکھا ہے، وہ کوئی فتویٰ نہیں ہے بلکہ ایک اظہار رائے ہے تاکہ اہل علم اس پر غور کریں۔ اگر میری تحقیق سے وہ مطمئن ہوں تو قبول کریں، ورنہ دلیل سے اس کو رد کردیں۔لیکن ظاہر ہے کہ ہر علمی بحث یا ہر اظہار رائے کے ساتھ اس تصریح کا التزام مشکل ہے۔

مولانا تھانویؒ کی بیان القرآن سے میں نے کبھی کبھی استفادہ کیا ہے۔ پٹھان کوٹ کے قیام کے زمانہ میں وہ ہمارے کتب خانے میں موجود تھی۔ مگر ہمارا جو ذخیرہ وہاں رہ گیا، اس میں جہاں اور بہت سی کتابیں ضائع ہوئیں، وہاں یہ کتاب بھی تھی۔ اب رفتہ رفتہ اس نقصان کی تلافی کی جارہی ہے اور از سر نو کتابیں جمع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مجھے علم کے معاملہ میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ متقدین کی طرح معاصرین سے بھی استفادہ کرتا ہوں اور عربی کی طرح اردو میں بھی کہیں علم موجود ہو تو اس سے فائدہ اٹھاتا ہوں۔

مجھے آپ کی رائے سے جزوی اتفاق ہے کہ دوسرے مذاہب کی پوری واقفیت ان کے علما سے پڑھے بغیر نہیں ہوسکتی۔ مگر اس کے اس جز سے اتفاق نہیں ہے کہ اس طرح کی ’’پوری واقفیت‘‘ کے بغیر سرے سے بحث و تحقیق ہی بند ہوجانی چاہیے۔ اگر یہ بات درست ہو تو آخر ہمارے مدارس دینیہ میں درس حدیث و فقہ کے موقع پر مذہب حنفی کو دوسرے مذاہب پر ترجیح دیتے ہوئے جو بحثیں کی جاتی ہیں، ان میں کیا وزن باقی رہ جاتا ہے؟ نیز اسلام اور دوسرے ادیان، یا اسلامی قانون اور دوسرے قوانین کے تقابل پر ہم جو کچھ لکھتے اور بولتے رہتے ہیں، اس کے لیے بھی کیا وجہ جواز باقی رہتی ہے جبکہ ہم نے ان کتابوں کو استادوں سے سبقاً سبقاً نہیں پڑھا ہے؟ میرے خیال میں صحیح یہ ہے کہ جتنی کچھ بھی تحقیق کتابوں کے ذریعہ سے ممکن ہو کرنی چاہیے اور اصلاح کے لیے تنقید پر اعتماد کرنا چاہیے۔ آخر ہم مغربی علوم و فنون اور قوانین کے بارے میں بھی توان کتابوں ہی کو پڑھ کر کلام کرتے ہیں۔ہر چیز کو سبقاً سبقاً تو نہیں پڑھتے۔ ہماری تحریریں ہر طرح کے اہل علم تک پہنچتی ہیں اور جس معاملہ میں بھی کوئی غلطی ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی باخبر آدمی اس پر ٹوک دیتا ہے۔ اس طرح تمام علمی مسائل میں حقائق کی تنقیح اور غلطیوں کی اصلاح ہوتی رہتی ہے اور علمی ترقی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ صرف ایک فقہ ہی کیوں ایسی چھوئی موئی ہو کہ اس میں بحث و تحقیق کا کام صرف اس اندیشے سے بند رکھا جائے کہ کہیں کسی مذہب فقہی کے بیان میں ہم سے غلطی سرزد نہ ہوجائے؟ اس طرح کی احتیاط اگر متقدین نے برتی ہوتی تو ہم تک ان کی وہ بیش قیمت تحقیقات کیسے پہنچتیں جن میں بے شمار مفید چیزوں کے ساتھ ساتھ آپ کے بیان کے مطابق غلطیاں بھی ہیں بحث وتحقیق میں احتیاط تو ضروری ہے مگر نہ اتنی احتیاط کہ یا تو سرے سے بحث و تحقیق ہی بند کردی جائے یا اس کے لیے ایسی شرطیں لگادی جائیں جو پوری نہ ہوسکتی ہوں۔

درجہ احسان کی اہمیت اور اس کے حاصل کرنے کی ضرورت سے انکار کا کیا موقع ہے۔ میرے نزدیک تو وہی اصل میں مطلوب ہے اور میں اس سے بھی انکار نہیں کرتا کہ محسنین سے نہ خدا کی زمین پہلے خالی تھی اور نہ اب خالی ہے۔ یہ لوگ جہاں بھی ہیں، خدا کی رحمت کا ایک نشان ہیں اور ان کی صحبت، معیت اور رفاقت ہمارے لیے سرمایہ سعادت ہے۔ مگر طویل بحث سے بچتے ہوئے میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ جہاں بالعموم ان لوگوں کے زیادہ پائے جانے کا گمان کیا جاتا ہے، وہاں یہ سب سے کم پائے جاتے ہیں اور جن گوشوں کو ’’اہل فن‘‘ اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ احسان کی کوئی جھلک تک ان میں دیکھنے کی توقع نہیں کرتے، وہیں یہ اکثر مل جاتے ہیں۔ اہل فن میں جن شخصیتوں کو مزکی ہونے کی شہرت حاصل ہے، ان میں بہتوں کے ساتھ مجھے کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہے اور میں نے ان کے اندر وہ کمزوریاں پائی ہیں جو معمولی انسانوں کے لیے بھی موزوں نہیں ہیں کجا کہ ماہرین تزکیہ نفس کے لیے۔ اس کے برعکس غیر معروف لوگ، جو دنیا کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اور جنہیں شاید کوئی مرتبہ بھی اہل فن کے ہاں نہیں مل سکتا، ان کے اندر ایسے ایسے بندہ حق ملے ہیں جو خوف خدا سے کانپنے والے اور اس کی رضا جوئی کے لیے ہر فائدے کو قربان اور ہر نقصان کو گوارہ کرنے والے ہیں اور جنہیں قبول حق اور ادائے حق سے نہ کوئی نفسانیت باز رکھتی ہے اور نہ کوئی عصبیت۔

شرح السیر الکبیر بلاشبہ اسلام کے بیان الاقوامی قانون پر ایک بہترین کتاب ہے۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے علاوہ مبسوط اور دوسری کتابوں کے بھی وہ ابواب پڑھے ہیں جو بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں دارالکفر اور دارالاسلام کے تعلقات پر تو بہت اچھی روشنی ڈالی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ دارالکفر کی مسلم رعایا اور دارالاسلام کے تعلقات کا پہلو ان سب میں بہت تشنہ ہے۔ میں آپ سے پھر گزارش کروں گا کہ اس خاص پہلو پر متقدین کی کتابوں میں جو بحثیں ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر ان کا جائزہ لے کر دیکھیں اور اس وقت کے حالات پر ان کو منطبق کرنے کی کوشش فرمائے۔ مجھے توقع ہے کہ اس کے بعد آپ کو خود ان کی تشنگی کا احساس ہوجائے گا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو دور ہمارے ہاں فقہی اجتہاد کے لیے ممتاز رہا ہے، اس میں سارے مسلمان دارالاسلام ہی کی رعایا تھے اور کم ہی ایسا اتفاق ہوا تھا کہ کوئی بڑی مسلم آبادی کفار کی رعیت بنی ہو۔ بعد میں جب بڑی بڑی مسلم آبادیاں کفار کی رعیت بن گئیں تو اس وقت اجتہاد کا دروازہ قریب قریب بند ہوچکا تھا۔ اس لیے ہمارے قانون کا یہ شعبہ بڑی حد تک تشنہ تفصیل رہ گیا۔ پھر موجودہ زمانہ کی ہمہ گیر قومی جمہوری ریاست سے تو مسلمانوں کو پہلے کبھی سابقہ پیش ہی نہیں آیا تھا جس میں ریاست کی پوری آبادی کو ’’ایک قوم‘‘ فرض کرکے کافر اکثریت مسلمانوں پر اپنی تہذیب و تمدن اور قوانین حیات ہی کو نہیں بلکہ اپنے نظریات و تخیلات اور احساسات تک کو مسلط کردینے کی کوشش کرتی ہے۔اس طرح کی غیر مسلم قومی ریاست کامعاملہ تو اس دارالکفر کے معاملہ سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے جہاں مسلمانوں کو ایک ’’ذمی قوم‘‘ کی سی پوزیشن دی گئی ہو اور یہ معاملہ اس سے زیادہ گہری نظر چاہتا ہے جس سے آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔

اس معاملہ میں اصل تصفیہ طلب چیز یہ نہیں ہے کہ جاسوسی کے امکانات کہاں کہاں ہیں اور ان کو کس طرح بند کرنا چاہیے، بلکہ یہ ہے کہ وہ ’’ولایت‘‘ جس کو دارالاسلام کی حکومت اور مسلم رعایا اور دارالکفر کی مسلم رعایا کے باہمی تعلقات سے ساقط کیا گیا ہے، کن معنوں میں ہے اور اس کے سقوط کے عملی اثرات و نتائج کیا ہیں۔ میں اس کے جو معنی و حدود بیان کر رہا ہوں، اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں ہے تو آپ خود بیان فرمائیں کہ آپ اس کا کیا مطلب سمجھتے ہیں۔

آپ کا یہ معارضہ البتہ وزنی ہے کہ جب دارالاسلام نے اپنے دروازے مہاجرت کے لیے بند کر رکھے ہوں تو وہ احکام موجودہ حالت پر کیسے منطبق ہوں گے جو ہجرت کی فرضیت کے زمانے میں دیے گئے تھے مگر میری طرف سے اس کاجواب یہ ہےکہ یہ احکام بلا شبہ ہجرت کی فرضیت کے زمانے میں دیے گئے تھے لیکن ’’سقوط ولایت‘‘ ہجرت کی فرضیت پر موقوف نہیں ہے بلکہ مجرد اختلاف دارین اس کا مبنی ہے۔ اگر آپ میری بات کو نہیں مانتے تو کیا آپ یہ فرماتے ہیں کہ جب دارالاسلام کی حکومت تمام کافر حکومتوں کی مسلم رعایا کو ہجرت کی دعوت نہ دے سکتی ہو تو اس صورت میں وہ ان کی پوری مسلم رعایا کی ولی ہے؟ اور کیا اس صورت میں دارالاسلام کے مسلمان بھی دارالکفر کے مسلمانوں کے ولی ہوں گے؟ حالاں کہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے۔ جو دارالاسلام اتنا کمزور ہو کہ اپنے قریب ترین دارالکفر کی مسلم آبادی کو بھی پناہ نہ دے سکتا ہو، وہ اس کی ولایت کا حق ادا کرنے سے بدرجہ اولیٰ قاصر ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ جو حقائق اور مصالح اس ولایت کے سقوط کے مقتضی ہیں، ان کا کوئی تعلق بھی ہجرت کے وجوب و عدم وجوب سے نہیں، ان کی بنیاد تو دراصل یہ ہے کہ جو مسلمان ایک غیر مسلم حکومت کے تابع امر ہیں، ان کی ولایت کا بار سنبھالنا مسلم حکومت کے لیے عملاً غیر ممکن ہے، اور مزید برآں اگر مسلم حکومت ان کی ولی بننے کی مدعی ہو، اور اس ولایت کا حق ادا کرنے کے لیے ہمسایہ غیر مسلم حکومتوں کے دائرہ اقتدار میں مداخلت کرے، یا کم از کم نظری حیثیت سے ہی اپنے لیے اس مداخلت کا حق محفوظ رکھے، تو یہ چیز اس کو ان تمام غیر مسلم حکومتوں سے ایک دائمی آویزش میں مبتلا کردے گی جن کے تحت مسلمان آباد ہوں۔

آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ولایت کے اسقاط کا یہ حکم دارالکفر کے مسلمانوں کو محض ہجرت نہ کرنے کی سزا دینے کے لیے تھا۔ اس لیے آپ کو یہ اعتراض ہے کہ جب ہم ان پر ہجرت کا راستہ نہیں کھول رہے ہیں تو ان کو یہ سزا کیوں دی جائے۔ مگر جو بات میں نے اوپر عرض کی ہے، اس پر اگر آپ غور فرمائیں گے تو مجھے امید ہے کہ آپ کا یہ اعتراض دور ہوجائے گا۔ وجوب ہجرت کی صورت میں ہجرت نہ کرنے کی سزائیں دوسری ہیں جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔ ان سزاؤں کو (جو صرف وجوب ہجرت کی صورت کے لیے مخصوص ہیں) بین الاقوامی قانون کی مستقل دفعات کے ساتھ (جن کا مبنیٰ مجرد اختلاف دار ہے خواہ ہجرت ممکن اور واجب ہو یا نہ ہو)خلط ملط کردینے سے بڑی غلط فہمیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

بیرونی ممالک سے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا اور چیز ہے اور کسی کی حقوق شہریت دے کر ان تمام رازوں اور ذمہ داریوں میں شریک کرلینا جن میں صرف شہری ہی شریک ہوسکتے ہیں، بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ ضرورت کے وقت شریعت ہمیں باہر سے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے سے نہیں روکتی۔ مگر یہ بات کم از کم میرے علم میں تو، قرآن مجید کی دی ہوئی ہدایت کے بالکل خلاف ہے کہ جو شخص ایک غیر مسلم حکومت کی رعایا ہو، اور جس کے سارے مفادات دارالکفر سے وابستہ ہوں، اس کو ہم اپنے ہاں سفیر اور وزیر اور سیکرٹری بنائیں۔

قطع ولایت سے مطلق کفایت کی نفی کا دعویٰ میں نے کب کیا تھا کہ اس سے دارالکفر کے کسی سید کا غیر سید ہوجانا لازم آئے۔ میرا مدعا تو یہ تھا کہ مناکحت میں جس کفایت کا اعتبار کیا جاتا ہے، وہ صرف انہی لوگوں کے درمیان معتبر ہے جن کے درمیان موالاۃ ہو جہاں سرے سے موالاۃ ہی نہ ہو، وہاں کفایت اگر نسب یا دوسرے وجوہ سے موجود بھی ہو تو وہ شادی بیاہ کے لیے کوئی موزوں بنیاد نہیں ہے۔ اس لیے کہ مناکحت سے زوجین کے جو قانونی حقوق ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں، ان کی بنیاد کفایت پر نہیں بلکہ ولایت پر قائم ہوتی ہے۔ اگر ولایت نہ ہو تو ان کے حقوق کے استقرار میں کفایت کچھ بھی مددگار نہیں ہوتی۔ دارالکفر کے ایک سید صاحب دارالاسلام کی ایک سیدانی کے باعتبار نسب کفو ہی سہی، مگر یہ کفایت اس غریب کو مہر، نفقہ اور دوسرے حقوق زوجیت دلوانے میں آخر کیا مدد کرسکتی ہے؟

تاہم جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، میری اس تقریر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دارالاسلام اور دارالکفر کے مسلمانوں کے درمیان مناکحت حرام ہے، یا ان کے سابق نکاح اختلاف دارین سے آپ ہی آپ ٹوٹ گئے ہیں، یا آئندہ ان کے درمیان سرے سے منعقد ہی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن زوجین کے درمیان اختلاف دار واقع ہوچکا ہے، ان کی طرف سے اگر فسخ نکاح کی درخواست ہماری عدالت میں آئے تو وہ قابل لحاظ ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ آئندہ اس طرح کے رشتے کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(خاکسار : ابوالاعلیٰ)

( ترجمان القرآن، ذی قعدہ و ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ، ستمبر ۱۹۵۱ء)