کیا روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود فدیہ دیا جاسکتا ہے؟
سوال: یہاں کیمبل پور میں ایک صاحبِ علم نے پچھلے ماہ رمضان میں ایک فتنہ کھڑا کیا تھا کہ رمضان کے بارے میں سورۃ بقرہ کی آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے شروع میں جو رعایت دی ہے کہ ’’جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں، اور پھر نہ رکھیں تو وہ فدیہ ادا کریں‘‘۔ یہ ایک اٹل رعایت ہے اور اب بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس کی حمایت میں ایک آیت ۱۸۳ کے آخری حصہ کو پیش کیا گیا ہے کہ اگر روزہ رکھو تو بہتر ہے اور نہ رکھو تو فدیہ ادا کردو۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت۱۸۴ پہلی آیات کے ساتھ نازل ہوئی تھی، وہ پہلی آیات کی رعایت کو کیسے چھین سکتی ہے۔
آپ کی تفسیر کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ آیات ۱۸۲، ۱۸۳ تو جنگ بدر سے پہلے ۲ ہجری میں نازل ہوئیں اور آیت ۱۸۴ ایک سال بعد نازل ہوئی۔ اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو پھر ان کے اس خیال کی تردید ہوسکتی ہے کہ آج بھی ایک تندرست ہٹا کٹا انسان فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے کیسے بچ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا صاحب اپنے آپ کو علم حدیث کے استاد اور قرآن مجید کے مفسر سمجھتے ہیں اور ہر دو کے متعلق اپنے افکار و خیالات دنیا کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ آپ براہ مہربانی کچھ تکلیف گوارا کرکے ان کتب کا حوالہ دے دیں جن سے آپ کو ثبوت ملا کہ آیات ۱۸۲ اور۱۸۳ تو ۲ ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئیں اور آیت۱۸۴ ایک سال بعد نازل ہوئیں۔ اس طرح ہمارے پاس ایک سند ہوجائے گی اور ہم انہیں اپنے فاسد خیالات کی نشرو اشاعت سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ اسلام کی ہی خدمت ہے۔ امید ہے کہ آپ ضرور ہمیں اپنے افکار عالیہ سے مستفید فرمائیں گے۔
جواب: اس سوال میں جس فتنے کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا منشا تو خود اس کے موضوع و مضمون ہی سے ظاہر ہے۔ اس کے مصنف کا صاف مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں روزے رکھنے کی’’مصیبت‘‘ سے خود بھی بچیں اور اپنے ہم مشرب ’’صاحب لوگوں‘‘ کو بھی بچائیں۔ عام فساق غنیمت ہیں کہ کھلی کھلی نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور جو نافرمانی کرنا چاہتے ہیں، اسے بے محابہ کر گزرتے ہیں۔ ان میں کم از کم یہ مکاری موجود نہیں ہے کہ خدا کی نافرمانی کرنے کے لیے خود خدا کی کتاب کو حجت بنائیں۔ لیکن یہ نرالی قسم کے فساق وہ ہیں کہ اپنے فسق و فجور کے لیے قرآن مجید کو آڑ بناتے ہیں اور قرآن مجید سے یہ خدمت لینے ہی کے لیے انہوں نے اس کا رشتہ حدیث سے توڑا ہے تاکہ اس کی آیات کو جیسے چاہیں معنی پہنائیں، ان لوگوں کو آج کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ جس جس طرح چاہتے ہیں، خلق خدا کو خدا کی کتاب کا نام لے لے کر دین سے پھیرتے ہیں۔ پہلے انہوں نے ’’دو قرآن‘‘ تصنیف کیے تھے۔ پھر ’’دو اسلام‘‘ وضع کیے۔ آگے چل کر یہ ’’دو خدا‘‘ بھی بنا ڈالیں تو کون ان کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے۔
روزوں کے بارے میں قرآن مجید سے جو غلط استدلال انہوں نے کیا ہے، اس کی غلطی واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے ہم خود قرآن مجید کی شہادت پیش کرتے ہیں۔ زیر بحث آیات کا لفظی ترجمہ یہ ہے:
’’اے لوگوں! جو ایمان لائے ہو، لکھ دیئے گئے تم پر روزے جس طرح لکھے گئے تھے تم سے پہلے کے لوگوں پر، تاکہ تم پرہیزگاری کرو۔ روزہ رکھنا چند گنے چنے دنوں کا ، پھر جو کوئی تم میں سے مریض ہو، یا سفر پر ہو، تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے اور جو لوگ اس کی (یعنی روزے کی) طاقت رکھتے ہوں، ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا۔ پھر جو کوئی رضاکارانہ بجا لائے نیکی تو وہ بہتر ہے اسی کے لیے اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر علم رکھتے ہو۔ ماہ رمضان وہ ہے جس میں نازل کیا گیا قرآن۔ رہنما بنا کر انسانوں کے لیے، اور روشن لیے ہوئے ہدایت اور تفریق حق و باطل کی۔ پس جو پائے تم میں سے اس مہینے کو تو چاہیے کہ اس کے روزے رکھے۔ اور مریض ہو یا سفر پر ہو، تو پورا ہونا چاہیے، شمار دوسرے دنوں سے۔‘‘
(ملاحظہ فرمائے سورۃ بقرہ، رکوع ۲۳ اور اصل سے مقابلہ کرکے خوب اطمینان کر لیجیے کہ اصل اور ترجمے میں معنی کے لحاظ سے کوئی فرق تو نہیں ہے۔)
اس عبارت کو جو شخص خالی الذہن ہو کر پڑھے گا، اس کے دل میں لازماً پہلا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر یہ پوری عبارت ایک ہی سلسلہ تقریر کی ہے جو بیک وقت ارشاد ہوئی تھی تو اس میں پہلے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا گیا کہ ماہ رمضان میں تم کو یہ نعمت دی گئی تھی اس لیے تم میں سے جو اس کو پائے، اسے چاہیے کہ اس مہینے کے روزے رکھے؟ آخر یہ کیا انداز بیان ہے کہ پہلے کہا ’’روزہ رکھنا چند گنے چنے دنوں کا‘‘۔ پھر تین چار فقروں میں روزوں کے متعلق بعض احکام بیان کیے، پھر بتایا گیا کہ وہ گنے چنے دن رمضان کے ہیں اور رمضان کو اس کام کے لیے اس وجہ سے منتخب کیا گیا ہے اور اس پورے مہینے کے روزے رکھنے چاہئیں۔ ایک مربوط سلسلئہ تقریر میں شاید ایک اناڑی بھی اپنی بات یوں ادا نہ کرتا، بلکہ یوں کہتا کہ اگلی قوموں کی طرح تم پر بھی روزے فرض کیے گئے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تم کو قرآن مجید کی نعمت دی گئی ہے اس لیے یہ فرض روزے تم اس مہینے میں رکھو۔ اس کے بعد اس کو جو کچھ احکام بیان کرنے ہوتے وہ بیان کر دیتا۔
دوسرا سوال ایک خالی الذہن ناظر کے دل میں یہ پیدا ہوگا کہ اس سلسلئہ عبارت میں جب پہلے یہ فقرہ آچکا ہے کہ ’’جو کوئی تم میں سے مریض ہو، یا سفر پر ہو تو پورا ہونا چاہیے شمار دوسرے دنوں سے‘‘ تو اسی فقرے کو بعد میں پھر دہرانے کی کیا حاجت تھی؟ اور اگر فی الواقع اس کا دہرانا ضروری تھا تو پھر یہ فقرہ بھی کیوں نہ دہرایا گیا کہ ’’جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں، ان پر فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا‘‘۔ حقیقت میں ضرورت تو دونوں میں سے ایک کو بھی دہرانے کی نہ تھی۔ لیکن ایک کو دہرانا اور دوسرے کو نہ دہرانا تو ایک معما سا محسوس ہوتا ہے۔
تیسرا سوال جو اس کے دل میں کھٹکے گا وہ یہ ہے کہ ’’ماہ رمضان وہ ہے‘‘ سے پہلے کی عبارت اور اس کے بعد کی عبارت کا مضمون ایک دوسرے سے صریحاً متناقض نظر آتا ہے۔ پہلا مضمون صاف طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ جو شخص طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہ رکھے، وہ فدیہ دے دے، لیکن اگر وہ روزہ ہی رکھے تو یہ اسی کے حق میں اچھا ہے۔ اس کے برعکس دوسرا مضمون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ جو شخص ماہ رمضان کو پائے وہ اس میں ضرور روزے رکھے اور اس لازمی حکم کو یہ بات مزید تقویت پہنچارہی ہے کہ اس حکم کے بعد اس رعایت کا تو اعادہ کردیا گیا ہے جو پہلے مضمون میں مریض اور مسافر کو دی گئی تھی، مگر اس رعایت کو ساقط کردیا گیا جو اوپر روزے رکھنے کی طاقت رکھنے والے کو دی گئی تھی۔ ایک معمولی عقل و خرد رکھنے والے قانون ساز سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ایک ہی معاملہ میں بیک وقت دو مختلف احکامات دے تو پھر بھلا یہ فعل اللہ تعالیٰ کے شایان شان کیسے ہوسکتا ہے؟
پہلے دو سوالات صرف سوالات ہی ہیں۔ لیکن یہ آخری سوال تو ایک سخت اعتراض ہے جو اس عبارت پر وارد ہوتا ہے، اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص حدیث سے مدد لیے بغیر اسے کیسے رفع کر سکتا ہے۔ جو لوگ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنے کے مدعی ہیں، اور حدیث کو احکام دین کا ماخذ اور قرآن مجید کی مستند شرح ماننے سے انکار کرتے ہیں، ان سے پوچھیے کہ ان کے پاس ان سوالات اور اس اعتراض کا کیا جواب ہے؟
اب دیکھیے کہ حدیث کس طرح ہمیں قرآن مجید کے اس مقام کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جن لوگوں کے سامنے قرآن کے یہ احکام نازل ہوئے تھے، ان کا بیان یہ ہے کہ اس عبارت کا ایک حصہ جو ’’اے لوگو‘‘ سے شروع ہو کر ’’اگر تم علم رکھتے ہو؟‘‘ پر ختم ہوتا ہے، ابتداً نازل ہوا تھا اور دوسرا حصہ اس کے ایک سال بعد نازل ہوا۔ پہلے سال روزے فرض کرتے وقت یہ رعایت رکھی گئی تھی کہ آدمی روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اگر روزے نہ رکھے تو فدیہ دے دے۔ مگر دوسرے سال اس رعایت کو منسوخ کر دیا گیا۔ البتہ مسافر اور مریض کے لیے سابق رعایت بحال رکھی گئی۔
اس بیان میں نہ صرف یہ کہ سارے اشکالات رفع ہوگئے، بلکہ یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ دوسرے سال آخری اور قطعی حکم دیتے ہوئے یہ تمہید کیوں اٹھائی گئی کہ یہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں تمہیں قرآن جیسی نعمت دی گئی ہے۔ اب بات سمجھ میں آگئی کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا احساس دلایا گیا، پھر حکم دیا گیا کہ اس نعمت کے شکریے میں تم کو اس مہینے کے روزے ضرور رکھنے چاہئیں۔
محدثین و مفسرین نے یہ تشریح متعدد صحابہ کرام اور تابعین سے نقل کی ہے۔ مثلاً امام احمد بن حنبلؒ، حضرت معاذ بن جبلؒ سے ایک طویل تشریحی بیان نقل کرتے ہیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نماز اور روزہ دونوں کی موجودہ صورت بتدریج قائم کی گئی ہے۔ نماز میں پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کیا جاتا تھا۔ پھر مکے کی طرف رخ پھیرا گیا۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کو نماز کی اطلاع دیتے تھے۔ پھر اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا۔ پہلے طریقہ یہ تھا کہ اگر ایک شخص بیچ کے کسی مرحلے پر آکر جماعت میں شریک ہوتا تھا تو اپنی نماز کا چھوٹا ہوا حصہ ادا کرنے کے بعد امام کی پیروی شروع کرتا تھا۔ پھر یہ طریقہ مقرر کیا گیا کہ جماعت میں کسی مرحلے پر بھی آکر شریک ہو، امام کی پیروی میں نماز پڑھنی شروع کردو۔ پھر امام کے سلام پھیر دینے کے بعد اٹھ کر اپنی نماز پوری کرو۔ اسی طرح روزے کے احکام بھی بتدریج آئے ہیں۔ جب نبیﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ ہر مہینے تین دن کے روزے رکھتے تھے اور ایک روزہ محرم کی دسویں کو رکھا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے، مگر یہ رعایت رکھی کہ جو روزہ نہ رکھے، وہ ایک مسکین کو کھانا کھلادے۔ اس کے بعد حکم آیا کہ رمضان کے روزے ضرور رکھے جائیں اور تندرست مقیم آدمی کے لیے فدیے کی رعایت منسوخ کردی۔ پہلے لوگ افطار کے بعد اس وقت تک کھانا پینا، مباشرت کرنا جائز سمجھتے تھے جب تک سو نہ جائیں۔ سونے کے بعد وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے دن کا روزہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ اس باب میں کوئی صریح حکم نہ تھا مگر لوگ ایسا ہی سمجھے ہوئے تھے۔ بعد میں حکم آیا ’’أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ اِلٰی قَوْلِہٖ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ‘‘ (ابن کثیر، جلد ۱، صفحہ ۲۱۴)
اس مضمون کی تائید میں بخاری، مسلم، ابوداؤد اور دوسرے محدثین نے متعدد روایات نقل کی ہیں جو حضرت عائشہؓ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے مروی ہیں۔ مشہور مفسر ابن حریر طبری (متوفی ۳۱۰ھ) نے پوری سند کے ساتھ جن صحابہ اور تابعین سے اس کی تائید میں روایات نقل کی ہیں، ان کے نام یہ ہیں:
معاذ بن جبل، ابن عمر، ابن عباس، سلمہ بن اکوعؓ۔ علقمہؒ، حسن بصریؒ، شعبیؒ، عطاءؒ، زہریؒ۔ ان میں سے ایک روایت میں وہ حضرت معاذ بن جبل سے یہ تصریح نقل کرتے ہیں کہ پہلے چوں کہ اہل عرب روزوں کے عادی نہ تھے اور روزہ ان پر سخت گراں گزرتا تھا اس لیے ان کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ رمضان میں جس دن روزہ نہ رکھیں، اس دن کسی مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ بعد میں تاکیدی حکم آگیا کہ پورے مہینے کے روزے رکھو، الا یہ کہ تم مریض ہو یا سفر پر ہو۔ ایک اور رو ا یت میں وہ ابن عباسؓ کی یہ تصریح نقل کرتے ہیں کہ پہلے سال کے روزوں میں اللہ تعالیٰ نے فدیے کی رخصت رکھی تھی، مگر دوسرے سال جو حکم آیا، اس میں مریض و مسافر کی رعایت تو بحال تھی لیکن مقیم کے لیے فدیے کی رعایت کا ذکر نہ تھا، اس لیے یہ رعایت منسوخ ہوگئی۔
اس تشریح سے ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ جو لوگ حدیث سے بے نیاز ہو کر، بلکہ احادیث کو حقارت اور تضحیک کے ساتھ پھینک کر قرآن مجید سے من مانے احکام نکال رہے ہیں، وہ کس طرح خود گمراہ ہو رہے ہیں اور عام مسلمانوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
(ترجمان القرآن، رجب شعبان ۱۳۷۲ھ، مطابق اپریل مئی ۵۳ ۱۹ء)