تحقیق حدیث دجال
سوال: ترجمان القرآن میں کسی صاحب نے سوال کیا تھا کہ ’’کانے دجال کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں مقید ہے، تو آخر وہ کونسی جگہ ہے؟ آج دنیا کا کونہ کونہ انسان نے چھان مارا ہے۔ پھر کیوں کانے دجال کا پتہ نہیں چلتا؟‘‘ اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ’’کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے‘‘۔ لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے، کم از کم تیس روایات میں دجال کا تذکرہ موجود ہے، جس کی تصدیق بخاری شریف، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، شرعی السنہ بیہقی کے ملاحظہ سے کی جاسکتی ہے۔ پھر آپ کا جواب کس سند پر مبنی ہے؟
جواب: میں نے جس چیز کو افسانہ قرار دیا ہے وہ یہ خیال ہے کہ دجال کہیں مقید ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ ایک بڑا فتنہ پرداز (الدجال) ظاہر ہونے والا ہے تو اس کے متعلق احادیث میں جو خبر دی گئی ہے میں اس کا قائل ہوں اور ہمیشہ اپنی نماز میں وہ دعائے ماثورہ پڑھا کرتا ہوں جس میں منجملہ دوسرے تغو دات کے ایک یہ بھی ہے کہ :
’’اعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال۔‘‘
دجال کے متعلق جتنی احادیث نبی کریمﷺ سے مروی ہیں، ان کے مضمون پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حضور اکرمﷺ کو اللہ کی طرف سے اس معاملہ میں جو علم ملا تھا وہ صرف اس حد تک تھا کہ ایک بڑا دجال ظاہر ہونے والا ہے اس کی یہ اور یہ صفات ہوگی، اور وہ ان ان خصوصیات کا حامل ہوگا۔ لیکن یہ آپ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کب ظاہر ہوگا، کہاں ظاہر ہوگا اور یہ کہ آیا وہ آپ کے عہد میں پیدا ہوچکا ہے۔ یا آپ کے بعد کسی بعید زمانہ میں پیدا ہونے والا ہے۔
ان امور کے متعلق جو مختلف باتیں حضور اکرمﷺ سے احادیث میں منقول ہیں ان کا اختلاف مضمون خود بھی یہ ظاہر کرتاہے اور حضور اکرمﷺ کے طرز کلام سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ وہ آپ نے بربنائے وحی نہیں بلکہ بربنائے ظن و قیاس ارشاد فرمائی ہیں۔ کبھی آپ نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ دجال خراسان سے اٹھے گا، کبھی یہ کہ اصفہان سے اور کبھی یہ کہ شام اور عراق کے درمیانی علاقہ سے۔ پھر کبھی آپ نے ابن صیاد نامی اس یہودی بچے پر جو مدینہ میں (غالباً ۲ یا ۳ھ میں) پیدا ہوا تھا یہ شبہ کیا کہ شاید یہی دجال ہو اور آخری روایت یہ ہے کہ ۹ھ میں جب فلسطین کے ایک عیسائی راہب(تمیم داری) نے آکر اسلام قبول کیا اور آپ کو یہ قصہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ سمندر میں (غالباًبحر روم یا بحرعرب میں)سفر کرتے ہوئے ایک غیر آباد جزیرے میں پہنچے اور وہاں ان کی ملاقات ایک عجیب شخص ہوئی اور اس نے انہیں بتایا کہ وہ خود ہی دجال ہے، تو آپﷺ نے ان کے بیان کو بھی غلط باور کرنے کی کوئی وجہ نہ سمجھی، البتہ اس پر اپنے شک کا اظہار فرمایا کہ اس بیان کی رو سے دجال بحر روم یا بحر عرب میں ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ وہ مشرق سے ظاہر ہوگا۔
ان مختلف روایات پر جو شخص بھی مجموعی نظر ڈالے گا وہ اگر علم حدیث اور اصول دین سے کچھ بھی واقف ہو تو اسے یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ اس معاملہ میں حضور اکرمﷺ کے ارشادات دو اجزا پر مشتمل ہیں:
جزو اول یہ کہ دجال آئے گا، ان صفات کا حامل ہوگا اور یہ فتنے برپا کرے گا۔ یہ بالکل یقینی خبریں ہیں جو آپ نے اللہ کی طرف سے دی ہیں۔ ان میں کوئی روایت دوسری روایت سے مختلف نہیں ہے۔
جزو دوم یہ کہ دجال کب اور کہاں ظاہر ہوگا اور وہ کون شخص ہے، اس میں نہ صرف یہ کہ روایات مختلف ہیں بلکہ اکثرروایات میں شک و شبہ اور گمان پر دلالت کرنے والے الفاظ بھی مروی ہیں۔ مثلاً ابن صیاد کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمرؓ سے یہ فرمانا کہ ’’اگر دجال یہی ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو۔ اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو تمہیں ایک معاہد کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ یا مثلاً ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’اگر وہ میری زندگی میں آگیا تو میں حجت سے اس کا مقابلہ کروں گا ورنہ میرے بعد میرا رب تو ہر مومن کا حامی و ناصر ہے ۔‘‘
اس دوسرے جز کی دینی اور اصولی حیثیت ظاہر ہے کہ وہ نہیں ہے اور نہیں ہوسکتی جو پہلے جز کی ہے۔ جو شخص اس کی بھی تمام تفصیلات اور اسلامی عقائد میں شمار کرتا ہے وہ غلط کرتا ہے۔ بلکہ اس کے ہر حصے کی صحت کا دعویٰ کرنا بھی درست نہیں ہے۔ابن صیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شبہ ہوا تھا کہ شاید وہی دجال ہو، اورحضرت عمرؓ نے تو قسم بھی کھائی تھی کہ یہی دجال ہے، مگر بعد میں وہ مسلمان ہوا، حرمین میں رہا، حالت اسلام میں مرا اور اس کی نماز جنازہ مسلمانوں نے پڑھی اب اس کی کیا گنجائش باقی رہ گئی کہ آج تک ابن صیاد پر دجال ہونے کا شبہ کیا جاتا رہے؟ تمیم داری کے بیان کو حضور اکرمﷺ نے اس وقت تقریباً صحیح سمجھا تھا، مگر کیا ساڑھے تیرہ سو برس تک بھی اس شخص کا ظاہر نہ ہونا جسے حضرت تمیم نے جزیرے میں محبوس دیکھا تھا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس نے اپنے دجال ہونے کی جو خبر حضرت تمیم کو دی تھی وہ صحیح نہ تھی؟حضور اکرمﷺ کو اپنے زمانہ میں یہ اندیشہ تھا کہ شاید دجال آپ ﷺ کے عہد ہی میں ظاہر ہو جائے یا آپ ﷺ کے بعد کسی قریبی زمانہ میں ظاہر ہو، لیکن کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ساڑھے تیرہ سو برس گزر چکے ہیں اور ابھی تک دجال نہیں آیا ہے؟اب ان چیزوں کو اس طرح نقل و روایت کیے جانا کہ گویا یہ بھی اسلامی عقائد ہیں، نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی ہے اور نہ اسے حدیث ہی کا صحیح فہم کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں، اس قسم کے معاملات میں اگر کوئی بات نبی کے قیاس یا گمان یا اندیشے کے مطابق ظاہر نہ ہو تو یہ اس کے منصب نبوت میں ہرگز قادح نہیں ہے۔ نہ اس سے عصمت انبیاء کے عقیدے پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ایسی چیزوں پر ایمان لانے کے لیے شریعت نے ہم کو مکلّف کیا ہے اس اصولی حقیقت کو تا بیر نخل والی حدیث میں نبی کریمﷺ خود واضح فرما چکے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔ربیع الاول ۴۵ھ؍ فروری۴۶ء)