سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی قرآن شریف کی مدد سے
سوال: مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ میرا ایمان ہے کہ قرآن شریف ہمیں ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی عطا فرماتا ہے تو سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی اور نئے نئے سائنسی راز جاننے کے لیے بھی اس میں بہت سے ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی مدد سے مسلمان اس میدان میں ترقی کرکے انسانی فلاح و بہبود اور اپنے دفاع میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ قرآن شریف سے اپنے فارغ وقت میں میں نے چند ایسے راز جاننے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ میں نے ایک ادنیٰ سا اٹامک انرجی کا انجنیئر اور سائنسدان ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کے معنی اپنے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہی نظریہ سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے اس کے صحیح مفہوم سمجھنے اور وضاحت کے لیے براہ کرم ان آیات کا مطلب مجھے سمجھا دیں تاکہ میں اپنی تحقیق سائنس کے اس شعبے میں صحیح طرح سے جاری رکھ کر مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز ایجاد کرسکوں۔
سورہ | آیات |
ھود | ۹۴۔۹۵ |
الحجر | ۸۳۔۸۴ |
المؤمنون | ۴۱ |
یٰس ٓ | ۲۸۔۲۹ |
ص ٓ | ۱۴۔۱۵ |
الحاقہ | ۱۔۲۔۳۔۴۔۵، ۱۳۔۱۴۔۱۵ |
القارعہ | ۱۔۲۔۳۔۴۔۵ |
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو پھر بعد میں بتادوں گا۔ ان آیات کی مدد سے ہم ایٹمی شعاعوں، ایٹم کی حیثیت، زمین کی گردش، آواز وغیرہ کے آپس کے (INTERACTION) کے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔
جواب: آپ اپنی سائنس کی تحقیق کے متعلق مجھ سے گفتگو کرنے تشریف لائے تھے لیکن اس روز میری طبیعت اتنی خراب تھی کہ میں نے مجبوراً تفصیل کے ساتھ بات کرنے سے معذرت کردی تھی۔ اس کے بعدجو خط آپ میرے دفتر میں چھوڑ گئے تھے اس کو بھی میں بیماری کی وجہ سے بہت دنوں تک نہیں دیکھ سکا۔ آج آپ کی پیش کردہ آیات کے متعلق سوالات کا بہت اختصار کے ساتھ جواب عرض کرتا ہوں:
۱۔ سورہ ہود، آیات ۹۴۔۹۵۔ یہ حضرت شعیب ؑ کی امت کے بارے میں ہیں۔ حضرت شعیب ؑ کی امت پر عذاب آنے کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک ’’صَیْحَہ‘‘ نے ان کو آلیا اور وہ تباہ ہوگئے۔ صَیْحَہ عربی زبان میں زور کی آواز یا چیخ اور کڑکے کے لیے بولا جاتا ہے۔ میں نے موقع و محل کے لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’زبردست دھماکہ‘‘ کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غیر معمولی سخت آواز انسانوں اور ان کی بستیوں کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔ اس کا تجربہ بھی مدت دراز سے اس دنیا میں ہوتا رہا ہے۔ یہی لفظ ’’صَیْحَہ‘‘ قیامت کے ذکر میں بھی سورہ یٰس ٓ آیت ۴۹ میں بیان ہوا ہے۔ اور اسی کو قرآن میں لفظ ’’صور‘‘ سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ الزّمر، آیت ۶۸ میں آیا ہے کہ : وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ … (اور اس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں…) دونوں قسم کی آوازوں میں جو فرق قرآن مجید کے مختلف مقامات سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک زور کی آواز تو وہ ہے جو محدود پیمانے پر کسی ایک علاقے میں بلند ہو اور وہ اسی علاقے کے لوگوں کو تباہ کرے۔ اور دوسری قسم کی زبردست آواز وہ ہے جو نہ صرف پوری زمین پر بلکہ آسمانوں تک بلند ہوگی اور تمام مخلوق کو ہلاک کردے گی۔ بہرحال اس سے آواز کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کان ہی نہیں پھاڑ دیتی بلکہ ہلاک کر ڈالتی ہے۔ کبھی اس کی طاقت سے ایک قوم ہلاک ہوتی ہے اور کبھی اس کی طاقت سے قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ اس فرق کا انحصار(INTENSITY OF SOUND) پر ہے جو ہوا کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے اور اشیاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ قیامت کے صور کی آواز ہوا کے بجائے کسی اور عنصر کے ذریعے سے بلند ہو، کیونکہ وہ صرف زمین تک محدود نہیں ہوگی بلکہ زمین سمیت آسمانوں تک پر محیط ہوگی اور ہوا زمین کے گرد ایک محدود دائرے تک ہی پائی جاتی ہے اس کے آگے خلا میں نہیں ہے۔
۲۔ الحجر، آیت ۸۳،۸۴۔ یہ آیات قومِ ثمود (اصحاب الحجر) کے بارے میں ہیں۔ اس سے پہلے اسی سورہ کی آیت ۷۳ میں بھی اس عذاب کے لیے جو قوم لوط پر آیاتھا ’’ صَیْحَہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت میں نے اوپر کردی ہے۔ آیت ۷۳ میں قوم لوط کے متعلق صَیْحَہ کا جو اثر بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی بستیاں الٹ گئیں یعنی ان کی چھتیں زمین پر آرہیں۔ یہ آواز کی اس طاقت کو ظاہر کرتا ہے جو آدمیوں ہی کو ہلاک نہیں کرتی بلکہ معذَّب قوم کی بستیوں کو بھی تلپٹ کردیتی ہیں۔ جہاں تک آیت ۸۳،۸۴ کا تعلق ہے، میں نے خود قوم ثمود کا علاقہ دیکھا ہے۔ اس میں تمام علاقے کے پہاڑ تہ سے لے کر چوٹی تک کھِیل کھِیل ہوگئے ہیں۔ یہ آواز کی اس طاقت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ پہاڑوں تک جھنجھوڑ ڈالتی ہے اور ان کو پارہ پارہ کردیتی ہے۔
۳۔ سورۂ المومنون، آیت ۴۱۔ یہ بھی قوم ثمود ہی کے بارے میں ہے۔ اس میں صیحہ کی تباہی اس حد تک بیان کی گئی ہے کہ ’’ہم نے اس کو بھس بنا کر رکھ دیا‘‘۔ اس سے آواز کی طاقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ انسان کو صرف ہلاک ہی نہیں کرتی بلکہ اس کے جسم تک ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔
۴۔ سورۂ یٰس ٓ، آیت ۲۸،۲۹۔ یہ ایک قوم کے متعلق ہے جس کا قرآن میں نام نہیں لیا گیا۔ وہ بھی ’’صَیْحَہ‘‘ سے تباہ ہوئی اور اس کے متعلق صَیْحَہ کی تاثیر یہ بیان کی گئی ہے کہ فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ، (یکایک وہ بجھ کے رہ گئے)۔ بالفاظ دیگر ان کی شمع حیات گُل ہوگئی۔ ہوسکتا ہے کہ ’’خَامِدُوْنَ‘‘ کا مطلب یہ ہو کہ ان کے جسم کی حرارت ختم ہوگئی جس سے وہ مرگئے۔
۵۔سورہ ص، آیت ۱۴، ۱۵۔ اس میں اہل مکہ کو خوف دلایا گیا ہے کہ اگر وہ نہ مانے یا ایمان نہ لائے یا رسول اللہ کو جھٹلانے پر مصر رہے تو دوسری قوموں کی طرح ان پر بھی ایک ’’صَیْحَہ‘‘ آئے گا جس کے بعد پھر دوسرا صَیْحَہ نہ ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک ہی صَیْحَہ ان کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ دوسرے صَیْحَہ کی نوبت نہیں آئے گی۔ مَّالَھَا مِنْ فَوَاقٍ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس صَیْحَہ سے ان کی تباہی میں اتنی دیر بھی نہ لگے گی جتنی اونٹنی کا دودھ نچوڑتے وقت ایک دفعہ سونتے ہوئے تھن میں دوبارہ سونتنے تک دودھ اترنے میں لگتی ہے۔ یہ بات اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے بیان کی گئی ہے کہ اس آواز کی طاقت یکایک ان کو ہلاک کردے گی۔ اس کی نوبت نہیں آئے گی کہ کوئی شخص گر کر کچھ دیر تڑپتا رہے۔
۶۔ سورۂ الحاقہ، آیت ۱ تا ۵ اور ۱۳ تا ۱۵۔ پہلی تین آیات میں قیامت کے لیے ’’الحاقہ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا آنا بالکل برحق ہے اور وہ آکر رہے گی۔ اسی بات کو میں نے اپنے ترجمے میں ’’ہونی شدنی‘‘ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ آیت نمبر ۴ میں اسی قیامت کے لیے ’’قارعہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قرع عربی زبان میں ٹھوکنے، کوٹنے، کھڑکھڑادینے اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کی تفصیلی کیفیت آیت ۱۳،۱۴ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’جب ایک ہی وفعہ صور پھونک دیا جائے گا اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کردیا جائے گا‘‘۔ پھر آیت ۱۶ میں اس کیفیت کو اس طرح بیا کیا گیا ہے کہ ’’صور پھونکنے کے اس فعل کی بدولت آسمان پھٹ جائے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی‘‘۔ بالفاظ دیگر تارے اور سیّارے جن مداروں پر قائم ہیں ان سے وہ بکھر جائیں گے اور ان کے درمیان جو جگہ (SPACE) رکھی گئی ہے وہ سب درہم برہم ہوجائے گی۔ یہ القارعہ ہی کی واضح تشریح ہے اور قرآن میں جگہ جگہ اس کی مزید تفصیلات بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ سب نفخ صور کی بدولت ہوگا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صور سے جو چیز بلند ہوگی وہ محض آواز نہیں ہوگی بلکہ کوئی ایسی طاقتور چیز ہوگی جو زمین اور پہاڑوں کو ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردے گی اور نظام فلکی کو درہم برہم کر ڈالے گی۔ آیت ۵ میں ثمود کی تباہی کا سبب طاغیہ بیان کیا گیا ہے جس سے مراد سخت حادثہ ہے اسی حادثے کو سورہ اعراف میں رجفہ کہا گیا ہے جس سے مراد زبردست زلزلہ ہے اور اسی کو سورۂ ہود میں صَیْحَہ بیان کیا گیا ہے جس کی تشریح میں اوپر بیان کرچکا ہوں اور سورہ حٰم السجدہ میں اس کو ’’صاعقۃ العذاب‘‘ (عذاب کا کڑکا) کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود پر صرف ایک زبردست آواز ہی کا عذاب نہیں آیا تھا بلکہ ساتھ ساتھ زلزلہ بھی آیا تھا۔ پھر آیت ۶ میں قوم عاد کی تباہی کا ذکر ہے جس میں ہوا کی طاقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اس نے پوری قوم عاد کو تباہ کردیا اور وہ کٹے ہوئے کھجور کے درختوں کی طرح گر گئے۔
۷۔ سورۂ القارعہ کے متعلق لفظ القارعہ کی تشریح میں اوپر کرچکا ہوں۔ یہاں قیامت ہی کے لیے ٹھونکنے والی چیز کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ٹھکائی ایسی زبردست ہوگی کہ انسان پروانوں کی طرح بکھر جائیں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کچھ دوسرے آثار بیان کئے گئے ہیں جن کا تعلق آواز یا ہوا سے نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۸ء)