کیا معاشی وُجوہ سے منع حمل صحیح ہے؟
سوال: عرض یہ ہے کہ میں اپنے ایک عزیز کے دو اعتراضات کا جواب تسلی بخش طور پر نہ دے سکا۔ ازراہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ اعتراضات یہ ہیں:
۱۔ مولانا نے قرآن مجید کی آیت: وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءًا كَبِيرًا(بنی اسرائیل:۳۱) کی تفسیر میں انصاف سے کام نہیں لیا اور اس آیت کی تفسیر میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لحاظ سے مفہوم نکالا ہے۔ کیونکہ آیت میں قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور قتل اسی کو کیا جاسکتا ہے جس میں جان ہو، جب کہ جان اس جرثومے میں اسی وقت پڑتی ہے جب رحمِ مادر میں دو مخالف جرثوموں کا ملاپ واقعہ ہوتا ہے اور ایک جاندار شے وجود میں آتی ہے۔ چونکہ افزائشِ نسل کو روکنے کے طریقے عام طور پر مذکورہ ملاپ سے پہلے ہی عمل میں آجاتے ہیں لہٰذا اس چیز کا قتل کیا معنی جس کا وجود یا جان ہی نہ ہو۔
جواب: آپ نے اپنے عزیز کے جو اعتراضات پیش کیے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:
۱۔ آپ کے عزیز نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۳۱ کو بغور نہیں پڑھا بلکہ جو خیالات ان کے ذہن میں پہلے جمے ہوئے تھے انہی کی بنیاد پر آیت سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ اس میں صرف قتلِ اولاد سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس آیت میں قتلِ اولاد کو بڑی خطا قرار دینے کے ساتھ اس کے محرک، یعنی خوفِ افلاس، کو بھی غلط قرار دیا گیا ہے، اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہہ کر کہ ’’ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی‘‘، اس امر کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ خوفِ افلاس، جو قتلِ اولاد کا محرک بنتا ہے، دراصل خدا کی رزّاقی پر عدم اعتماد ہے، ورنہ یہ اعتماد موجود ہو تو نہ افلاس کا خوف تمہیں لاحق ہوگا اور نہ تم اولاد کو قتل کروگے۔ اسی بات کی تشریح میں نے اپنے حاشیے میں کی ہے جس پر غور کرنے کی زحمت آپ کے ان عزیز نے نہیں اٹھائی۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ حمل کو روکنا قتلِ اولاد ہے، بلکہ کہا یہ گیا ہے کہ جو خوفِ افلاس پہلے قتلِ اولاد اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوتا تھا وہی اب ضبطِ ولادت کی تحریک کا محرک بنا ہوا ہے، اس لیے معاشی ذرائع کے اندیشے سے افزائشِ نسل کا روک دینا بھی اس آیت کی رو سے غلط ہے۔