طریقِ انتخاب کے مسئلے میں ریفرنڈم

سوال: طریقِ انتخاب کے مسئلے میں جماعت اسلامی نے ریفرنڈم کرانے کا جو مطالبہ کیا تھا اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں۔ میں ان کا خلاصہ پیش کر کے آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ان اعتراضات کا کیا جواب ہے۔

۱۔ جداگانہ انتخاب اگر دین اور شریعت کے اصول اور احکام کا لازمی تقاضا ہے تو اس پر عوام سے استصواب کے کیا معنی؟ کیا اسی طرح کل نماز اور روزے پر بھی استصواب کرایا جائے گا؟ کیا آپ یہ اصول قائم کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی اکثریت جس چیز کو حق کہے وہ حق اور جس چیز کو باطل کہے وہ باطل؟ فرض کیجیے کہ ریفرنڈم میں اکثریت کا فیصلہ مخلوط انتخاب کے حق میں نکلے تو کیا آپ اس کو حق مان لیں گے اور پھر جداگانہ انتخاب اسلامی اصول و احکام کا تقاضا نہ رہے گا۔

اسلامی ریاست اور خلافت کے متعلق چند سوالات

سوال: یہ ایک سوالنامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے اصل سوالات انگریزی میں ہیں۔ ذیل میں ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں۔

۱۔ کیا اموی خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

۲۔ کیا اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے صرف خلیفہ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔

۳۔ خلفائے بنو عباس خصوصاً المامون کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

الخلافت یا الحکومت

سوال: اگر بیسوی صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان و نظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت و ریاست یعنی الخلافت یا الحکومت کس سے ممکن ہے؟

اسلامی حکومت میں خواتین کا دائرہ عمل

سوال: کیا اس دور میں اسلامی حکومت خواتین کو مردوں کے برابر، سیاسی، معاشی و معاشرتی حقوق ادا نہ کرے گی جبکہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریک ترین دور میں بھی عورت کو ایک مقام (Status) عطا کیا؟ کیا آج خواتین کو مردوں کے برابر اپنے ورثہ کا حصہ لینے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم یا مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے ملک و قوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی اجازت نہ ہوگی؟ فرض کیجیے اگر اسلامی حکومت خواتین کو برابر کا حق رائے دہندگی دے اور وہ کثرت آراء سے وزارت و صدارت کے عہدوں کے لیے الیکشن لڑ کر کامیاب ہو جائیں تو موجودہ بیسویں صدی میں بھی کیا ان کو منصب اعلیٰ کا حق اسلامی احکام کی رو سے نہیں مل سکتا جبکہ بہت سی مثالیں ایسی آج موجود ہیں، مثلاً سیلون میں وزارت عظمیٰ ایک عورت کے پاس ہے یا نیدر لینڈ میں ایک خاتون ہی حکمران اعلیٰ ہے۔ برطانیہ پر ملکہ کی شہنشاہیت ہے سفارتی حد تک جیسے عابدہ سلطانہ دختر نواب آف بھوپال رہ چکی ہیں اور اب بیگم رعنا لیاقت علی خان نیدرلینڈ میں سفیر ہیں۔ یا دیگر جس طرح مسز وجے لکشمی پنڈت برطانیہ میں ہائی کمشنر ہیں۔ اور اقوام متحدہ کی صدر رہ چکی ہیں اور بھی مثالیں جیسے نورجہاں جھانسی کی رانی، رضیہ سلطانہ، حضرت محل زوجہ واجد علی شاہ جو کہ (Pride of Women) کہلاتی ہیں۔ جنہوں نے انگریزوں کے خلاف لکھنؤ میں جنگ کی کمانڈ کی ۔ اس طرح خواتین نے خود کو پورا اہل ثابت کر دیا ہے تو کیا اگر آج محترمہ فاطمہ جناح صدارت کا عہدہ سنبھال لیں تو اسلامی اصول پاکستان کے اسلامی نظام میں اس کی اجازت نہ دیں گے؟ کیا آج بھی خواتین کو ڈاکٹر، وکلا، مجسٹریٹ، جج، فوجی افسر یا پائلٹ وغیرہ بننے کی مطلق اجازت نہ ہوگی؟ خواتین کا یہ بھی کارنامہ کہ وہ نرسوں کی حیثیت سے کس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں قابل ذکر ہے۔ خود اسلام کی پہلی جنگ میں خواتین نے مرہم پٹی کی، پانی پلایا اور حوصلے بلند کیے۔ تو کیا آج بھی اسلامی حکومت میں آدھی قوم کو مکانات کی چار دیواری میں مقید رکھا جائے گا؟

اسلامی حکومت میں معاشرہ کی اصلاح و تربیت

سوال: کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟ جیسے ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان اور جیسے آجکل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ و دلفریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ و سرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمائش برسرعام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ فلموں سے متاثر ہو کر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں۔ تو کیا حکومت قانون Legislation کے ذریعے سے ہر مسلم و غیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی والدین و سرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تواس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟ کیاگرلز گائیڈ۔ اپوا (APWA) یا دیگر وائی ایم سی اے (Y.M.C.A) اور وائی ڈبلیو سی اے (Y.W.C.A) جیسے ادارے اسلامی نظام میں گوارا کیے جاسکتے ہیں؟ کیا خواتین اسلامی عدلیہ سے، خود طلاق لینے کی مجاز ہوسکیں گی اور مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہوگی؟ یا خواہ اسلامی عدالت کے روبرو ہی سہی ان کو اپنی پسند سے (Civil Marriage) کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے؟ کیا خواتین کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں، نمائش، ڈراموں، ناچ، فلموں یا مقابلہ حسن میں شرکت یا (Air Hostess) وغیرہ بننے کی آج بھی اسلامی حکومت مخالفت کرے گی۔ ساتھ ہی قومی کردار تباہ کرنے والے ادارے مثلاً سنیما، فلمیں، ٹیلی ویژن، ریڈیو پر فحش گانے یا عریاں رسائل و لٹریچر، موسیقی، ناچ و رنگ کی ثقافتی محفلیں وغیرہ کو بند کر دیا جائے گا یا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا؟

تعبیر دستور کا حق

سوال: دستور کی تعبیر کا حق کس کو ہونا چاہیے؟ مقننہ کو یا عدلیہ کو؟ سابق دستور میں یہ حق عدلیہ کو تھا اور موجودہ دستور میں یہ حق عدلیہ سے چھین کر مقننہ کو ہی دے دیا گیا ہے۔ اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ عدالتوں کے اختیارات کو کم کر دیا گیا ہے اور یہ حق عدلیہ کے پاس باقی رہنا چاہیے۔ اس مسئلہ پر ایک صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں عدالتوں کا کام صرف مقدمات کا فیصلہ کرنا تھا۔ قانون کی تشریح اور تعبیر کا حق عدالتوں کو نہ تھا اور نہ عدالتیں یہ طے کرنے کی مجاز تھیں کہ قانون صحیح ہے یا غلط۔ یہ رائے کہاں تک درست ہے۱؎۔

اسلام اور جمہوریت

سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پرمبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائض ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انہیں کس طرح دور کر سکتا ہے وہ نقائض درج ذیل ہیں:

صدر ریاست کو ویٹو کا حق

سوال: کچھ عرصہ سے اخبارات کے ذریعہ سے تجاویز پیش کی جارہی ہیں کہ صدر پاکستان کو خلیفۃ المسلمین یا امیر المومنین کے معزز خطاب سے آراستہ کیا جائے۔ اس تصور میں مزید جان ڈالنے کے لیے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر کو حق تنسیخ ملنا چاہئے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جلیل القدر صحابہ کے مقابلے میں ویٹو سے کام لیا اور منکرین زکوٰۃ و مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے جہاد کا حکم دے کر صحابہؓ کی رائے کو رد کر دیا۔ گویا اس دلیل سے شرعی حیثیت کے ساتھ ویٹو جیسے دھاندلی آمیز قانون کو مستحکم فرمایا جارہا ہے۔

ان حالات کی روشنی میں جناب والا کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جارہے ہیں، امید ہے کہ بصراحت جوابات سے مطمئن فرمائیں گے۔

۱۔ کیا حضرت ابوبکرؓ نے آج کے معنوں میں ویٹو استعمال فرمایا تھا؟ اور

۲۔ اگر استعمال فرمایا تھا تو ان کے پاس کوئی شرعی دلیل تھی یا نہیں۔