سیل عرم کا زمانہ

سوال: تفہیم القرآن میں آپ نے سیل عرم کا جو زمانہ ۴۵۰ء متعین فرمایا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں (یعنی ان کا ماخذ کیا ہے)۔

۲۔ ’’ارض القرآن‘‘ کی اشاعت سے پہلے بھی ۴۵۰ء والی روایت بعض کتابوں میں ملتی ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ارض القرآن کی اشاعت کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ سیل عرم ۴۵۰ء میں آیا۔ نکلسن کی تاریخ ادب العرب میں بھی سیل عرم کا زمانہ ۴۴۷ء یا ۴۵۰ء لکھا ہے، لیکن یہ روایت بوجوہ محل نظر ہے۔

بعض تفسیری اشکالات کے جوابات

سوال: تفہیم القرآن (جلد چہارم) کے مطالعہ کے بعد درج ذیل باتیں وضاحت طلب رہ گئی ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرما کر ممنونِ احسان فرمائیے۔ جزاک اللہ۔

۱۔ سبا آیت ۱۴، ح ۲۴، صفحہ ۱۹۰۔ حضرت سلیمان ؑ کا مردہ جسم عصا کے سہارے اتنی مدت کھڑا رہا کہ گھن نے عصا کو کمزور کردیا اور جنوں کو (اور یقیناً انسانوں کو بھی) ان کے انتقال کا علم نہ ہوا… یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اور قرآن اسے کسی معجزے کے طور پر پیش نہیں کر رہا ہے… کیا جنوں (اور دیگر عمائد سلطنت) میں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ حضرت سلیمان ؑ جو بولتے چالتے، کھاتے پیتے، مقدمات کے فیصلے سناتے، فریادیں سنتے، احکام جاری کرتے، عبادت کرتے، حاجات سے فارغ ہوتے تھے اتنی دیر (بلکہ مدت) سے ساکت و صامت کیوں کھڑے ہیں؟ کیا زندگی کے ثبوت کے لیے صرف کھڑا رہنا کافی ہے؟ اور پھر آپ کے اہل و عیال؟ کیا انہیں بھی انتقال کا پتہ نہیں چلا (جو نا ممکن ہے) یا انہی نے یہ ایک ترکیب نکالی تھی؟

کیا قرآنی احکام کے جزئیات میں ’’ردّوبدل‘‘ ہوسکتا ہے؟

سوال: آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۴۶ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں۔ میرے خیال میں یہ چیزیں قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں، فرمان الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشہ میں بھی ردّوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّوبدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

چند قرآنی مفردات کی توضیح

سوال:فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْاَرْضُ … وَبَصَلِھَا۔ (البقرہ۔ تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۷۹۔۸۰، رکوع ۶)

آپ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

’’اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے‘‘۔

’’ساگ‘‘ کے بعد یہ (،) نشان ہے ، پھر آپ نے ’’ترکاری‘‘ لکھا ہے۔ بَقْلِھَا کا ترجمہ ’’ساگ ترکاری‘‘ ٹھیک ہے، مگر دونوں لفظوں کے درمیان یہ نشان (،) محل غور ہے! آپ کے ترجمہ سے ایسا لگتا ہے کہ قِثَّآئِھَا کا ترجمہ آپ نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے، حالانکہ قِثَّآئِھَا ’’ککڑیوں‘‘ کو کہتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے: عبد اللہ یوسف علی نے بھی قِثَّآئِھَا کو انگریزی میں (Cucumbers) لکھا ہے! ’’بصل‘‘ پیاز کو کہتے ہیں یا ’’لہسن پیاز‘‘ کو! ’’لہسن‘‘ قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر آپ کے ترجمہ میں ترتیب یوں ہوگئی ہے ’’پیاز دال وغیرہ‘‘ ، حالانکہ ’’پیاز‘‘ آخر میں آنا چاہیے تھا کیا ’’وغیرہ‘‘ کا اضافہ مفسرین نے کیا ہے؟

شہداء کی حیاتِ برزخ

سوال: سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴، حاشیہ ۱۵۵، تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ ۱۲۶ میں، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے روح جہاد سرد پڑتی ہے۔ اسی نوٹ میں آگے چل کر یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ انہیں مردہ کہنا حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ لیکن پورے نوٹ کو پڑھنے سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح جہاد کے سرد نہ ہونے کی غرض سے انہیں مردہ نہ کہنا چاہیے۔

غرق ہونے والے فرعون کی لاش

سوال: اگر تھوڑی سی فراغت ہو تو ازراہ کرم فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ (یونس ، آیت ۹۲) کے سلسلے میں میری ایک دو الجھنیں دور فرمائے۔ علامہ جوہری طنطاوی مصری اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ بحیرہ احمر میں ڈوبنے والے فرعون کی لاش ۱۹۰۰ء؁ میں مل گئی تھی اور مفتّش نے کئی شواہد کی بنا پر اعلان کیا تھا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ لیکن علامہ نے ان شواہد کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے صرف ایک شہادت یعنی سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے جو فرعون کے بدن پر پایا گیا تھا۔

دین و شریعت کی تشریح کے متعلق ایک سوال

سوال:(۱) تفہیم القرآن جلد چہارم سورۂ الشوریٰ کے حاشیہ ۲۰ صفحہ ۴۸۸۔۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:

’’بعض لوگوں نے … یہ رائے قائم کرلی ہے کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو مانتا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلافات کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کردیا‘‘۔

طعام المساکین کے معنی

سوال:سورہ الحاقّہ اور سورہ ماعون کی آیت وَلَا یَحُضُّ عَلیٰ طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ کا ترجمہ دونوں جگہ تفہیم القرآن میں مختلف ہے۔ ایک جگہ ترجمہ مسکین کو کھانا کھلانا، کیا گیا ہے اور دوسری جگہ ’’مسکین کا کھانا دینا‘‘۔ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

بنی اسرائیل کا فتح فلسطین سے گریز

سوال: سورۂ بقرہ کی آیت ۲۴۳۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَا رِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ ۲۶۶ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے اس خروج کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد انہوں نے فلسطین میں جہاد کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحرائے سینا میں نظر بند کردیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی نئی نسل جوان ہوئی، انہوں نے حضرت یوشع کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا۔ یہ واقعہ تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن آیت زیر بحث کا انطباق اس واقعے پر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں خوف موت کو علت خروج قرار دیا ہے۔ لیکن مصر سے بنی اسرائیل کی خروج کی علت خوف موت نہ تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حکم تھا۔ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ۔ دوسری بات یہ کہ آیت زیر بحث میں خروج کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مصر سے خروج قابل مذمت نہ تھا۔ بلکہ ہجرت تھی۔ تیسری بات یہ کہ فَقَالَ لَھُمُ اللہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ کے الفاظ کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ جن لوگوں پر موت طاری کردی گئی، انہی کو پھر زندہ کردیا گیا۔ میں نے تفاسیر کا مطالعہ کیا، کہیں بھی آپ والی بات نہیں ملی۔ بلکہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی طرف اشارہ بتاتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں کہ طاغوت کے خوف سے بھاکتے ہوئے نکلے۔ راستہ میں ان کو موت دی گئی۔ پھر انہی کو زندہ اٹھایا گیا۔ مہربانی فرما کر اس اشکال کو حل فرمائیں۔