بشریت خضر ؑ کا مسئلہ

سوال: تفہیم القرآن جلد سوم زیر مطالعہ ہے۔ حضرت خضر ؑ کا واقعہ اور آپ کا فٹ نوٹ نمبر ۶۰ پوری طرح پڑھ چکا ہوں۔ حضرت خضر کی نسبت آپ کا قیاس اور میلان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ یا غیر بشر ہوں گے۔ میرے ذہن میں چند ایسے امور موجود ہیں جو آپ کے میلان سے سرِدست متفق ہونے پر راضی نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے آپ کی مزید واضح تفہیم کا محتاج ہوں۔ آپ کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہر مومن کی بشریت مکلفِ شریعت ہے۔ اس لیے حضرت خضر کی بشریت تسلیم کرنے میں ’’شرعی ٹکراؤ‘‘ یا شرعی پیچیدگی حائل و مانع ہے۔ گویا اگر اس کا کوئی حل نکل آئے تو حضرت خضر کی بشریت معرضِ بحث میں نہیں آتی لیکن حضرت خضر کا قرآن میں جس طرح پر ذکر آیا ہے، اس سے ان کے بشر ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔

اللہ کے رازق ہونے کا مطلب

سوال: میں آپ سے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا چاہتا ہوں:
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فَِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا
(زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے)۔

مجھے جو بات کھٹک رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب رزق کا ذمہ دار اللہ ہے تو بنگال کے قحط میں جو تیس ہزار آدمی ۱۹۴۳۔۱۹۴۴ ء میں مرگئے تھے ان کی وفات کا کون ذمہ دار تھا؟

سات آسمانوں کی حقیقت

سوال قرآن کریم کی ظاہری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آسمان چند مخصوص مواضع کا نام ہے جو اس زمین سے علیحدہ مکانات ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر چھت کی طرح ہیں مثلاً سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۔ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۔ وَزَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْعَ۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کے باقاعدہ دروازے ہوں گے مثلاً وَّفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا احایث میں اس کی تشریح حدیث معراج میں ملتی ہے۔ جس میں صریح طور پر سات آسمانوں کو ساتھ علیحدہ علیحدہ مکانات تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر آپ نے تفہیم القرآن جلد ۱ سورہ بقرہ حاشیہ ۳۴ کے تحت لکھا ہے کہ ’’بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے‘‘۔

پسلی سے حضرت حواؑ کی تخلیق

سوال: تفہیم القرآن جلد۱، سورہ نساء حاشیہ نمبر ۱ کے تحت آپ نے لکھا ہے کہ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے بارے میں عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کے آدمؑ کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا ۔ لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو بخاری اور مسلم کی ہے۔

کیا ’’نور‘‘ اور ’’کتاب مبین‘‘ ایک شئے ہے؟

سوال: تفہیم القرآن کے مطالعہ سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ مائدہ (رکوع سوم آیت ۱۵۔ تفہیم القرآن اول) میں قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصہ کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:

نباتات و حشرات کی موت و حیات

سوال: مندرجہ ذیل دو امور آپ کی خاص توجہ کے مستحق ہیں کہ ان پر آپ کے غور و خوض سے میری الجھن دور اور دیگر قارئین تفہیم القرآن کے علم میں اضافہ ہوگا۔

(۱) سورۂ النحل صفحہ ۵۵۰ پر آیت ۶۵ کا آپ نے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے، ’’(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو) کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں حاشیہ ۵۳ پر آپ نے جو تحریر فرمایا، اس کا اختصار حسب ذیل ہے:

قوم ثمود کے مَساکِن

سوال: ڈاکٹر نکلسن نے اپنی معروف تصنیف ’’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز‘‘ (عربوں کی ادبی تاریخ) کے پہلے باب میں ’’افسانہ ثمود‘‘ کے زیر عنوان یہ رائے درج کی ہے:

’’قرآن میں ثمود کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مکانوں میں رہتے تھے جو انہوں نے چٹانوں سے کاٹ کر بنائے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محمد کو ان تراشیدہ غاروں کی صحیح حقیقت معلوم نہیں تھی جو آج بھی حجر (مدائن صالح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ مدینہ سے شمال کی طرف ایک ہفتے کے سفر پر واقع ہیں اور ان پر نبطی زبان میں جو کتبے کندہ ہیں انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ مکانات نہیں بلکہ مقبرے ہیں‘‘ (ص ۳، کتاب مذکور)

انسان کے اندر مادّۂ تخلیق کا ماخذ کہاں ہے؟

(سورۂ الطارق کے ایک مقام کی تشریح)

سوال: میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورۂ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵تا ۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے، اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:

’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو بیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔

تفہیم القرآن میں الحمدللہ کا ترجمہ

سوال: تفہیم القرآن میں آپ نے الحمد اللہ کا ترجمہ ’’تعریف اللہ کے لیے ہے‘‘ کیا ہے۔ حالانکہ مترجمین سلف و خلف نے اس کا ترجمہ ’’تمام خوبیاں اللہ کے لیے‘‘، ’’سب تعریف اللہ کے لیے‘‘ کیا ہے۔ تفہیم القرآن کا ترجمہ کچھ نا مکمل، یا نا تمام سا محسوس ہوتا ہے۔

قدیم عربوں میں حروف مقطعات کا رواج

سوال: تفہیم القرآن میں حروف مقطعات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ اسلوب شعرائے جاہلیت میں معروف تھا جو بعد میں متروک ہوگیا۔ اس سلسلے میں چند معروضات ہیں:

۱۔ کیا اس کی مثال شعرائے جاہلیت کے اشعار میں یا خطبا کے خطبوں میں ملتی ہے؟

۲۔ صحابہ کرامؓ کے اقوال میں اس کے اثبات میں کچھ منقول ہے؟

۳۔ کیا حروف مقطعات کا اسلوب اگر بعد میں متروک ہوگیا، تو یہ ’’عربی مبین‘‘ کے خلاف تو نہیں؟