دین و شریعت کی تشریح کے متعلق ایک سوال

دین و شریعت کی تشریح کے متعلق ایک سوال

سوال:(۱) تفہیم القرآن جلد چہارم سورۂ الشوریٰ کے حاشیہ ۲۰ صفحہ ۴۸۸۔۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:

’’بعض لوگوں نے … یہ رائے قائم کرلی ہے کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو مانتا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلافات کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کردیا‘‘۔

حج میں جانور ذبح کرنے کا مسئلہ

حج میں جانور ذبح کرنے کا مسئلہ

سوال:(۲) ہمارے ایک رکن جماعت نے (جو حج کی سعادت حاصل کرچکے ہیں) ایک اجتماع میں کہا کہ محترم مولانا نے تفہیم میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص موسم حج میں حج سے پہلے عمرہ کرے تو وہ قربانی دے۔ لیکن مکہ مکرمہ میں عمرے کے بعد کوئی قربانی نہیں دی جاتی۔ اس میں انہوں نے تفہیم القرآن جلد اول، سورۂ البقرہ، آیت ۱۹۶ کے ترجمے کا حوالہ دیا ہے جو درج ذیل ہے:

معراج رات کو ہوئی تھی یا دن کو؟

معراج رات کو ہوئی تھی یا دن کو؟

سوال: پچھلے دنوں جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ مختلف الخیال لوگوں میں مقصد کی یکسانیت اور لگن تھی۔ درس قرآن اور نماز با جماعت کا انتظام تھا۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے علماء حضرات وہاں بھی فروعی مذہبی اختلافات میں مبتلا تھے۔ ہماری بیرک میں تین الگ الگ جماعتیں دیو بندی، بریلوی اور اہل حدیث حضرات کراتے تھے۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ علماء حضرات کو مل کر ایک جماعت پر رضامند کیا جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے ایک دیو بندی عالم کے پاس گئے۔ انہیں میرے متعلق علم تھا کہ یہ جماعت اسلامی کا رکن ہے۔ ابھی تمہیداً کچھ باتیں ہو رہی تھیں کہ انہوں نے آپ کے بارے میں اعتراضات شروع کردیے کہ مولانا مودودی صاحب نئی نئی باتیں نکال لاتے ہیں، کسی پچھلے ترجمان میں مولانا نے لکھا ہے کہ واقعہ معراج دن کی پوری روشنی میں رونما ہوا تھا، حالانکہ قرآن کے بیان کے مطابق یہ واقعہ رات کے کسی حصہ میں پیش آیا اور حدیث سے بھی ثابت ہے کہ معراج عشاء اور فجر کے درمیان ہوا تھا۔ میں نے اس بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ چنانچہ الصلوٰۃ جامعۃٌ والا مقصد تو باتوں ہی میں ختم ہوگیا اور گفتگو آگے نہ بڑھ سکی۔

طعام المساکین کے معنی

طعام المساکین کے معنی

سوال:سورہ الحاقّہ اور سورہ ماعون کی آیت وَلَا یَحُضُّ عَلیٰ طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ کا ترجمہ دونوں جگہ تفہیم القرآن میں مختلف ہے۔ ایک جگہ ترجمہ مسکین کو کھانا کھلانا، کیا گیا ہے اور دوسری جگہ ’’مسکین کا کھانا دینا‘‘۔ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی قرآن شریف کی مدد سے

سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی قرآن شریف کی مدد سے

سوال: مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ میرا ایمان ہے کہ قرآن شریف ہمیں ہر شعبہ زندگی میں رہنمائی عطا فرماتا ہے تو سائنس اور انجینئرنگ کی ترقی اور نئے نئے سائنسی راز جاننے کے لیے بھی اس میں بہت سے ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی مدد سے مسلمان اس میدان میں ترقی کرکے انسانی فلاح و بہبود اور اپنے دفاع میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ قرآن شریف سے اپنے فارغ وقت میں میں نے چند ایسے راز جاننے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ میں نے ایک ادنیٰ سا اٹامک انرجی کا انجنیئر اور سائنسدان ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کے معنی اپنے نقطہ نگاہ سے اور اپنے ہی نظریہ سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے اس کے صحیح مفہوم سمجھنے اور وضاحت کے لیے براہ کرم ان آیات کا مطلب مجھے سمجھا دیں تاکہ میں اپنی تحقیق سائنس کے اس شعبے میں صحیح طرح سے جاری رکھ کر مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز ایجاد کرسکوں۔

بنی اسرائیل کا فتح فلسطین سے گریز

بنی اسرائیل کا فتح فلسطین سے گریز

سوال: سورۂ بقرہ کی آیت ۲۴۳۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَا رِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ ۲۶۶ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے اس خروج کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد انہوں نے فلسطین میں جہاد کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحرائے سینا میں نظر بند کردیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی نئی نسل جوان ہوئی، انہوں نے حضرت یوشع کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا۔ یہ واقعہ تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن آیت زیر بحث کا انطباق اس واقعے پر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں خوف موت کو علت خروج قرار دیا ہے۔ لیکن مصر سے بنی اسرائیل کی خروج کی علت خوف موت نہ تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حکم تھا۔ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ۔ دوسری بات یہ کہ آیت زیر بحث میں خروج کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مصر سے خروج قابل مذمت نہ تھا۔ بلکہ ہجرت تھی۔ تیسری بات یہ کہ فَقَالَ لَھُمُ اللہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ کے الفاظ کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ جن لوگوں پر موت طاری کردی گئی، انہی کو پھر زندہ کردیا گیا۔ میں نے تفاسیر کا مطالعہ کیا، کہیں بھی آپ والی بات نہیں ملی۔ بلکہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی طرف اشارہ بتاتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں کہ طاغوت کے خوف سے بھاکتے ہوئے نکلے۔ راستہ میں ان کو موت دی گئی۔ پھر انہی کو زندہ اٹھایا گیا۔ مہربانی فرما کر اس اشکال کو حل فرمائیں۔

تفہیم القرآن میں لفظ ’’تسویل‘‘ کے مختلف معانی

تفہیم القرآن میں لفظ ’’تسویل‘‘ کے مختلف معانی

سوال:تفہیم القرآن کے دو مقامات پیش نظر ہیں:

۱۔ سورہ یوسف کی دو آیتیں یعنی ۱۸ اور ۸۳: قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ۔

۲۔ سورہ طٰحٰہ کی آیت ۹۶: وَکَذٰالِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ۔

صفات الٰہی میں تناقُص ہے یا مُطابَقت

صفات الٰہی میں تناقُص ہے یا مُطابَقت

سوال: آپ نے تفہیمات حصہ اول کے مضمون ’’کوتاہ نظری‘‘ میں کسی مستفسر کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’اللہ رحم و کرم اور رأفت و شفقت کا منبع ہونے کے باوجود چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکالیف کیوں وارد کرتا ہے؟‘‘ خدائی نظام میں وقوع پذیر ہونے ہوالے ’’شرور‘‘ کی عقلی توجیہ کے لیے مندرجہ ذیل مفروضات کا سہارا لیا ہے:

۱۔ خدا کے پیش نظر پوری کائنات کا اجتماعی مفاد ہے جسے آپ خیر کل سے تعبیر کرتے ہیں۔

وجود باری کے متعلق ایک سوال

وجود باری کے متعلق ایک سوال

سوال: ذیل کا سوال میرے نزدیک دوست کے ذہن میں عرصے سے کھٹک رہا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن صحیح جواب نہ دے سکا۔ امید ہے کہ جواب دے کر ممنون فرمائیں گے۔

’’اللہ تعالیٰ کیسے وجود میں آیا؟ جبکہ ہر موجود کے لیے عقلاً کسی موجد کا ہونا نہایت ضروری ہے‘‘۔

مسئلہ عصمت انبیاء

مسئلہ عصمت انبیاء

سوال: آپ نے تفہیمات حصہ دوم میں قصہ داؤد علیہ السلام پر کلام کرتے ہوئے عصمت انبیاء کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی بنا پر علماء کا ایک گروہ مدتوں سے آپ کو عصمت انبیاء کا منکر قرار دے رہا ہے۔ اب مولانا مفتی محمد یوسف صاحب نے اپنی تازہ کتاب میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرکے ان کے تمام اعتراضات کو رد کردیا ہے۔ مگر اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک دینی مدرسے کے شیخ الحدیث صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پھر اس الزام کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’ (ان عبارات میں) ایسی توجیہات اور محتملات بھی موجود ہیں جن کی بنا پر مولانا مودودی صاحب ایک صحیح مسلمان اور سچے عاشق و محبت رسول کی نگاہ میں گستاخی کا مرتکب اور مذہبی پابندی سے آزاد نظر آئے گا‘‘۔