حضورﷺ کی صاحبزادیوں کی عمریں

حضورﷺ کی صاحبزادیوں کی عمریں

سوال: تفہیم القرآن جلد ششم سورہ الکوثر کے دیباچہ میں صفحہ ۴۹۰ پر ابن سعد اور ابن عساکر کے حوالہ سے آپ نے حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہﷺ کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت قاسم ؓ تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینب ؓ تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبداللہ ؓ تھے۔ پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں امُّ کلثوم ؓ، فاطمہ ؓ اور رقیہ ؓ تھیں، ان میں سے پہلے حضرت قاسم ؓ کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبد اللہ ؓ نے وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا ’’ان کی نسل ختم ہوگئی۔ اب وہ ابتر ہیں‘‘ (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔

کیا قرآنی احکام کے جزئیات میں ’’ردّوبدل‘‘ ہوسکتا ہے؟

کیا قرآنی احکام کے جزئیات میں ’’ردّوبدل‘‘ ہوسکتا ہے؟

سوال: آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۴۶ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں۔ میرے خیال میں یہ چیزیں قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں، فرمان الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشہ میں بھی ردّوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّوبدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

قرآن کی آیات سے قادیانیوں کا غلط استدلال

قرآن کی آیات سے قادیانیوں کا غلط استدلال

سوال: میں نے آپ کی بہت سے تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن مرزائی جس آیت سے استدلال کرتے ہیں اس پر آپ کا کوئی تبصرہ نہیں دیکھا۔ یہ سورۂ اعراف کی آیت ۳۵ ہے: يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ۔ یہاں رسول اللہﷺ پر نازل شدہ قرآن میں بنی آدم کو خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ میں تم میں سے رسول آئیں گے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے حضورؐ کے بعد انبیا کی آمد کا راستہ کھلا ہے۔ قادیانیوں کے استدلال کا کیا جواب ہے؟ اسی طرح وہ سورۂ مومنون کی آیت 51 اور اور حدیث لو عاش ابراہیم لکان نبیاً سے بھی دلیل لاتے ہیں۔ ان کے جواب میں کیا کہا جاسکتا ہے؟

چند قرآنی مفردات کی توضیح

چند قرآنی مفردات کی توضیح

سوال:فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْاَرْضُ … وَبَصَلِھَا۔ (البقرہ۔ تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۷۹۔۸۰، رکوع ۶)

آپ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

’’اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے‘‘۔

’’ساگ‘‘ کے بعد یہ (،) نشان ہے ، پھر آپ نے ’’ترکاری‘‘ لکھا ہے۔ بَقْلِھَا کا ترجمہ ’’ساگ ترکاری‘‘ ٹھیک ہے، مگر دونوں لفظوں کے درمیان یہ نشان (،) محل غور ہے! آپ کے ترجمہ سے ایسا لگتا ہے کہ قِثَّآئِھَا کا ترجمہ آپ نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے، حالانکہ قِثَّآئِھَا ’’ککڑیوں‘‘ کو کہتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے: عبد اللہ یوسف علی نے بھی قِثَّآئِھَا کو انگریزی میں (Cucumbers) لکھا ہے! ’’بصل‘‘ پیاز کو کہتے ہیں یا ’’لہسن پیاز‘‘ کو! ’’لہسن‘‘ قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر آپ کے ترجمہ میں ترتیب یوں ہوگئی ہے ’’پیاز دال وغیرہ‘‘ ، حالانکہ ’’پیاز‘‘ آخر میں آنا چاہیے تھا کیا ’’وغیرہ‘‘ کا اضافہ مفسرین نے کیا ہے؟

تفہیم القرآن کے چند مقامات پر اعتراضات

تفہیم القرآن کے چند مقامات پر اعتراضات

ہمارے پاس تفہیم القرآن کے بعض مقامات پر کچھ اعتراضات آئے ہیں جنہیں ہم نے اسی غائر سے دیکھا جس کے وہ مستحق تھے۔ ذیل میں ہم ایک ایک اعتراض کو نقل کرکے اس پر بحث کریں گے:

شہداء کی حیاتِ برزخ

شہداء کی حیاتِ برزخ

سوال: سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴، حاشیہ ۱۵۵، تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ ۱۲۶ میں، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے روح جہاد سرد پڑتی ہے۔ اسی نوٹ میں آگے چل کر یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ انہیں مردہ کہنا حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ لیکن پورے نوٹ کو پڑھنے سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح جہاد کے سرد نہ ہونے کی غرض سے انہیں مردہ نہ کہنا چاہیے۔

غرق ہونے والے فرعون کی لاش

غرق ہونے والے فرعون کی لاش

سوال: اگر تھوڑی سی فراغت ہو تو ازراہ کرم فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ (یونس ، آیت ۹۲) کے سلسلے میں میری ایک دو الجھنیں دور فرمائے۔ علامہ جوہری طنطاوی مصری اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ بحیرہ احمر میں ڈوبنے والے فرعون کی لاش ۱۹۰۰ء؁ میں مل گئی تھی اور مفتّش نے کئی شواہد کی بنا پر اعلان کیا تھا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ لیکن علامہ نے ان شواہد کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے صرف ایک شہادت یعنی سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے جو فرعون کے بدن پر پایا گیا تھا۔