قرآن و حدیث کا باہمی تعلق:

قرآن و حدیث کا باہمی تعلق:

سوال: رسائل و مسائل حصہ دوم، صفحہ ۶۲۔ ۶۳ پیرا گراف میں آپ نے لکھا ہے:

’’قرآن میں اگر کوئی حکم عموم کے انداز میں بیان ہوا ہو اور حدیث یہ بتائے کہ اس حکم عام کا اطلاق کن خاص صورتوں پر ہوگا تو یہ قرآن کے حکم کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہے۔ اس تشریح کو اگر آپ قرآن کے خلاف ٹھہرا کر رد کردیں تو اس سے بے شمار قباحتیں پیدا ہوں گی جن کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں تو آپ خود مان جائیں گے کہ فی الواقع یہ اصرار غلطی ہے‘‘۔

اگر آپ اس عبارت کے آخر میں چند مثالیں اس امر کی پیش فرماتے تو مستفسر کو مزید تشفی ہوجاتی۔ مجھے چند ایسی امثلہ کی ضرورت ہے جس سے ایک منکر حدیث مان جائے کہ ایسا کرنے سے (تشریح کو قرآن کے خلاف ٹھہرانے سے) فی الواقع قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ بہتر ہوگا اگر آپ چار امثلہ مہیا فرمادیں۔

احادیث کی تاویل کا صحیح طریقہ

احادیث کی تاویل کا صحیح طریقہ

سوال: ایک مضمون میں ذیل کی حدیث نقل ہوئی ہے:

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کیا تو تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ اٹھالے گا اور ایک دوسری قوم لے آئے گا جو گناہ کرے گی اور مغفرت چاہے گی۔ پس اللہ اس کو بخش دے گا۔‘‘

ناچیز کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث شاید موضوع ہوگی جو بد اعمالیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنا لی گئی ہوگی۔ بظاہر اس میں جتنی اہمیت استغفار کی ہے، اس سے کہیں زیادہ گناہ کی تحریص معلوم ہوتی ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی کوئی معقول توجیہ ممکن ہے؟

زکوٰۃ اور مسئلہ تملیک:

زکوٰۃ اور مسئلہ تملیک:

سوال: علمائے حنفیہ بالعموم ادائیگی زکوٰۃ کے لیے تملیک شخصی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ حیلۂ تملیک کے بغیر رفاہِ عامہ کے اداروں مثلاً مدارس اور شفا خانوں وغیرہ کے اجتماعی مصارف میں زکوٰۃ دینا صحیح نہیں۔ اس پر ایک مستفسر نے بعض اشکالات و سوالات علما کرام کی خدمت میں پیش کیے تھے جو ترجمان القرآن محرم ۱۳۷۴ھ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سائل کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فقہ حنفی میں تملیک کی جو شرط لگائی جاتی ہے اور اس بنا پر جو فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں، وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب کہ لوگ انفرادی طور پر زکوٰۃ نکال کر انفرادی طور پر ہی اسے خرچ کریں۔ لیکن اجتماعی طورپر مثلاً اسلامی حکومت کے ذریعے سے اگر زکوٰۃ کی وصولی و صرف کا انتظام کیا جائے تو شرط تملیک اپنے جزئی احکام کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کیوں کہ زکوٰۃ کے نظام کو وسیع اور مستحکم کرتے ہوئے زکوٰۃ کی تقسیم و تنظیم، حمل و نقل اور متعلقہ سازو سامان کی فراہمی میں بے شمار شکلیں ایسی پیدا ہوں گی جن میں شرط تملیک کی پابندی لا محالہ ہوگی۔ ان سوالات کا جو جواب دیا گیا تھا وہ درج ذیل ہے۔

توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح

توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح

سوال: مندرجہ ذیل سطور بغرض جواب ارسال ہیں۔ کسی ملاقاتی کے ذریعے بھیج کر ممنون فرمائیں۔

بہاول پور میں دو توأم لڑکیاں متحد الجسم ہیں یعنی جس وقت وہ پیدا ہوئیں تو ان کے کندھے، پہلو، کولہے کی ہڈی تک آپس میں جڑے ہوئے تھے اور کسی طرح ان کو جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اپنی پیدائش سے اب جوان ہونے تک وہ ایک ساتھ چلتی پھرتی ہیں۔ ان کو بھوک ایک ہی وقت لگتی ہے۔ پیشاب پاخانہ کی حاجت ایک ہی وقت ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو کوئی عارضہ لاحق ہو تو دوسری بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان کا نکاح ایک مرد سے ہوسکتا ہے یا نہیں۔ نیز اگر دونوں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی ہیں تو اس کے لیے شرعی دلیل کیا ہے؟

طلاق قبل از نکاح

طلاق قبل از نکاح

سوال: میرے ایک غیر شادی شدہ دوست نے کسی وقتی جذبے کے تحت ایک مرتبہ یہ کہہ دیا تھا کہ ’’اگر میں کسی عورت سے بھی شادی کروں تو اس پر تین طلاق ہے‘‘۔ اب وہ اپنے اس قول پر سخت نادم ہے اور چاہتا ہے کہ شادی کرے۔ علما یہ کہتے ہیں کہ جونہی وہ شادی کرے گا، عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لیے عمر بھر اب شادی کی کوشش کرنا اس کے لیے ایک بے کار اور عبث فعل ہے۔ براہ کرم بتائیں کہ اس مصیبت خیز الجھن سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟

قزع اور تشبہ بالکفار

قزع اور تشبہ بالکفار

سوال: آپ نے رسائل و مسائل میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ کے نزدیک انگریزی طرز کے بال شرعاً ممنوع نہیں ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ جو چیز ممنوع ہے وہ یا تو فعل قزع ہے یا وضع میں تشبہ بالکفار ہے، اور انگریزی طرز کے بال ان دونوں کے تحت نہیں آتے۔ مگر آپ کا جواب بہت مختصر تھا اور اس میں آپ نے اپنے حق میں دلائل کی وضاحت نہیں کی۔ خصوصاً قزع کی جو تعریف آپ نے بتائی ہے، اس کی تائید میں آپ نے کسی متعین حدیث یا اقوال صحابہ و آئمہ میں سے کسی کو نقل نہیں کیا۔ اسی طرح عہد نبوی میں غیر مسلموں کے اجزائے لباس کے اختیار کیے جانے کا آپ نے ذکر تو کیا ہے لیکن وہاں بھی آپ نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ متعلقہ حوالہ جات کو بھی ترجمان میں نقل کردیں تا کہ بات زیادہ صاف ہوجائے۔

عدت خلع

عدت خلع

سوال: آپ کی تصنیف ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد اول، سورہ بقرہ، صفحہ ۱۷۶ میں لکھا ہوا ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔ دراصل یہ عدت ہے ہی نہیں بلکہ یہ حکم محض استبرائے رحم کے لیے دیا گیا ہے‘‘۔ الخ

اب قابل دریافت امر یہ ہے کہ آپ نے اس مسئلہ کی سند وغیرہ نہیں لکھی۔ حالاں کہ یہ قول مفہوم الآیۃ اور اقوال محققین اور قول النبیﷺ کے بھی خلاف ہے۔

انگریزی میں نماز

انگریزی میں نماز

سوال: میں اکیس سال کا ایک انگریز مسلمان ہوں۔ ایک سال قبل جب کہ میں سومالی لینڈ میں ایک فوجی افسر تھا، اس وقت اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوا۔ میرا سوال اسلام کی سرکاری زبان سے متعلق ہے۔ اس سے پیشتر جب میں مسیحیت کا پیرو تھا، اس وقت میں اپنی عبادت اور کتاب مقدس اپنی مادری زبان (انگریزی) میں پڑھا کرتا۔ اب جب کہ میں دائرہ اسلام میں آچکا ہوں، تو مجھے نماز اور قرآن مجید دونوں عربی زبان میں پڑھنے پڑتے ہیں۔ اس تبدیلی سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں عربی کی پابندی کی وجہ سے، خواہ اس میں کتنا ہی حسن کیوں نہ ہو، بہت بڑی روحانیت سے محروم کردیا گیا ہوں۔

چھوٹے ہوئے فرائض شرعیہ کی قضا

چھوٹے ہوئے فرائض شرعیہ کی قضا

سوال: ایک مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’قضا نمازیں جلد سے جلد ادا کرنا لازم ہیں … جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا‘‘۔

اس اصول کی عقلی حیثیت کسی دلیل کی محتاج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ شریعت ہمارے کسی عقلی اصول کو تسلیم کرکے اس پر اپنے مسائل کی بنیاد رکھے۔ ادھر ہم مسلمانوں کی غالب اکثریت کا یہ حال ہے کہ ہر شخص پر ایک زمانہ تھوڑا یا بہت جاہلیت کا گزر ہو چکا ہے جس میں نہ نماز کا خیال نہ روزے کی پروا، اس لیے قضا نمازوں کے لازم فی الذمہ ہونے سے بہت ہی کم لوگ خالی ہیں۔

ضبط ولادت

ضبط ولادت

سوال: آج کل ضبط ولادت کو خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان جدید کے تحت مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے حق میں معاشی دلائل کے علاوہ بعض لوگوں کی طرف سے مذہبی دلائل بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جارہا ہے کہ حدیث میں عزل کی اجازت ہے اور برتھ کنٹرول کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اب حکومت کی طرف سے مردوں کو بانجھ بنانے کی سہولیتں بھی بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ چنانچہ بعض ایسے ٹیکے ایجاد ہو رہے ہیں جن سے مرد کا جوہر حیات اس قابل نہیں رہتا کہ وہ افزائش نسل کا ذریعہ بن سکے لیکن جنسی لذت برقرار رہتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ طریقہ بھی شرعاً قابل اعتراض نہیں، اور نہ یہ قتل اولاد یا اسقاط حمل ہی کے ضمن میں آسکتا ہے۔

براہ کرم اس بارے میں بتائیں کہ آپ کے نزدیک اسلام اس طرز عمل کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟