کیا قرآنی احکام کے جزئیات میں ’’ردّوبدل‘‘ ہوسکتا ہے؟

سوال: آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۴۶ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں۔ میرے خیال میں یہ چیزیں قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں، فرمان الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشہ میں بھی ردّوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّوبدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

قرآن کی آیات سے قادیانیوں کا غلط استدلال

سوال: میں نے آپ کی بہت سے تحریروں کا مطالعہ کیا، لیکن مرزائی جس آیت سے استدلال کرتے ہیں اس پر آپ کا کوئی تبصرہ نہیں دیکھا۔ یہ سورۂ اعراف کی آیت ۳۵ ہے: يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ۔ یہاں رسول اللہﷺ پر نازل شدہ قرآن میں بنی آدم کو خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ میں تم میں سے رسول آئیں گے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے حضورؐ کے بعد انبیا کی آمد کا راستہ کھلا ہے۔ قادیانیوں کے استدلال کا کیا جواب ہے؟ اسی طرح وہ سورۂ مومنون کی آیت 51 اور اور حدیث لو عاش ابراہیم لکان نبیاً سے بھی دلیل لاتے ہیں۔ ان کے جواب میں کیا کہا جاسکتا ہے؟

چند قرآنی مفردات کی توضیح

سوال:فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْاَرْضُ … وَبَصَلِھَا۔ (البقرہ۔ تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۷۹۔۸۰، رکوع ۶)

آپ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

’’اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے‘‘۔

’’ساگ‘‘ کے بعد یہ (،) نشان ہے ، پھر آپ نے ’’ترکاری‘‘ لکھا ہے۔ بَقْلِھَا کا ترجمہ ’’ساگ ترکاری‘‘ ٹھیک ہے، مگر دونوں لفظوں کے درمیان یہ نشان (،) محل غور ہے! آپ کے ترجمہ سے ایسا لگتا ہے کہ قِثَّآئِھَا کا ترجمہ آپ نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے، حالانکہ قِثَّآئِھَا ’’ککڑیوں‘‘ کو کہتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے: عبد اللہ یوسف علی نے بھی قِثَّآئِھَا کو انگریزی میں (Cucumbers) لکھا ہے! ’’بصل‘‘ پیاز کو کہتے ہیں یا ’’لہسن پیاز‘‘ کو! ’’لہسن‘‘ قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر آپ کے ترجمہ میں ترتیب یوں ہوگئی ہے ’’پیاز دال وغیرہ‘‘ ، حالانکہ ’’پیاز‘‘ آخر میں آنا چاہیے تھا کیا ’’وغیرہ‘‘ کا اضافہ مفسرین نے کیا ہے؟

تفہیم القرآن کے چند مقامات پر اعتراضات

ہمارے پاس تفہیم القرآن کے بعض مقامات پر کچھ اعتراضات آئے ہیں جنہیں ہم نے اسی غائر سے دیکھا جس کے وہ مستحق تھے۔ ذیل میں ہم ایک ایک اعتراض کو نقل کرکے اس پر بحث کریں گے:

شہداء کی حیاتِ برزخ

سوال: سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴، حاشیہ ۱۵۵، تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ ۱۲۶ میں، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے روح جہاد سرد پڑتی ہے۔ اسی نوٹ میں آگے چل کر یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ انہیں مردہ کہنا حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ لیکن پورے نوٹ کو پڑھنے سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح جہاد کے سرد نہ ہونے کی غرض سے انہیں مردہ نہ کہنا چاہیے۔

غرق ہونے والے فرعون کی لاش

سوال: اگر تھوڑی سی فراغت ہو تو ازراہ کرم فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ (یونس ، آیت ۹۲) کے سلسلے میں میری ایک دو الجھنیں دور فرمائے۔ علامہ جوہری طنطاوی مصری اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ بحیرہ احمر میں ڈوبنے والے فرعون کی لاش ۱۹۰۰ء؁ میں مل گئی تھی اور مفتّش نے کئی شواہد کی بنا پر اعلان کیا تھا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ لیکن علامہ نے ان شواہد کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے صرف ایک شہادت یعنی سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے جو فرعون کے بدن پر پایا گیا تھا۔

معراج کے موقع پر حضورﷺ کو کیا تعلیمات دی گئی تھیں؟

سوال:واقعہ اسراء و معراج کے متعلق جناب کے حالیہ مضمون کو پڑھ کر ذہن میں مندرجہ ذیل خیالات پیدا ہوئے ہیں۔امید ہے کہ جناب اس سلسلے میں مناسب رہنمائی فرمائیں گے۔ جناب نے اس واقعہ کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مقصد آنحضرتؐ کو کائنات کے باطنی نظام کا ادراک حاصل کرنے کے لیے ان نشانیوں کا مشاہدہ کرانا مقصود تھا جنہیں قرآن حکیم اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی کہتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ آنحضرتؐ کو اپنی بارگاہ میں طلب کرکے اسلامی معاشرہ کے قیام کے بارے میں چند بنیادی ہدایات دینا چاہتا تھا۔…

دین و شریعت کی تشریح کے متعلق ایک سوال

سوال:(۱) تفہیم القرآن جلد چہارم سورۂ الشوریٰ کے حاشیہ ۲۰ صفحہ ۴۸۸۔۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:

’’بعض لوگوں نے … یہ رائے قائم کرلی ہے کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو مانتا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلافات کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کردیا‘‘۔