نباتات و حشرات کی موت و حیات

سوال: مندرجہ ذیل دو امور آپ کی خاص توجہ کے مستحق ہیں کہ ان پر آپ کے غور و خوض سے میری الجھن دور اور دیگر قارئین تفہیم القرآن کے علم میں اضافہ ہوگا۔

(۱) سورۂ النحل صفحہ ۵۵۰ پر آیت ۶۵ کا آپ نے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے، ’’(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو) کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں حاشیہ ۵۳ پر آپ نے جو تحریر فرمایا، اس کا اختصار حسب ذیل ہے:

ازواج مطہراتؓ پر زبان درازی کا الزام

سوال: آپ نے سورۂ تحریم کی آیت إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ… الآیہ کی تشریح کرتے ہوئے تفہیم القرآن میں حضرت عمرؓ کی جو روایت بخاری اور مسند احمد سے نقل کی ہے، اس میں حضرت عمرؓ کے الفاظ ’’لاَ تُراجِعی‘‘ کا مفہوم ’’رسول اللہﷺ کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر‘‘ (ترجمان القرآن، جلد ۷۲ عدد ۴ صفحہ ۲۲۳، آخری سطر) اگرچہ صحیح ہے لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان الفاظ کو بدلنے پر غور فرمائیں کیونکہ اہلِ زَیغ نے آپ پر منجملہ بہت سے الزامات کے ایک یہ الزام بھی بڑے زور و شور سے پھیلا رکھا ہے کہ مولانا مودودی نے ازواج مطہرات کو ’’زبان دراز‘‘ کہہ کر ان کی گستاخی اور بے ادبی کی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ تفہیم القرآن میں ’’زبان درازی نہ کر‘‘ کے الفاظ کی جگہ’’پلٹ کر جواب نہ دے‘‘ یا ’’دوبدو جواب نہ دے‘‘ کے الفاظ رکھ دیں تو مفہوم کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا اور اہلِ زَیغ کے ہاتھ میں بھی پروپیگنڈہ کے لیے شوشہ نہیں آئے گا‘‘۔

قوم ثمود کے مَساکِن

سوال: ڈاکٹر نکلسن نے اپنی معروف تصنیف ’’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز‘‘ (عربوں کی ادبی تاریخ) کے پہلے باب میں ’’افسانہ ثمود‘‘ کے زیر عنوان یہ رائے درج کی ہے:

’’قرآن میں ثمود کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مکانوں میں رہتے تھے جو انہوں نے چٹانوں سے کاٹ کر بنائے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محمد کو ان تراشیدہ غاروں کی صحیح حقیقت معلوم نہیں تھی جو آج بھی حجر (مدائن صالح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ مدینہ سے شمال کی طرف ایک ہفتے کے سفر پر واقع ہیں اور ان پر نبطی زبان میں جو کتبے کندہ ہیں انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ مکانات نہیں بلکہ مقبرے ہیں‘‘ (ص ۳، کتاب مذکور)

انسان کے اندر مادّۂ تخلیق کا ماخذ کہاں ہے؟

(سورۂ الطارق کے ایک مقام کی تشریح)

سوال: میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورۂ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵تا ۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے، اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:

’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو بیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘۔

تفہیم القرآن میں الحمدللہ کا ترجمہ

سوال: تفہیم القرآن میں آپ نے الحمد اللہ کا ترجمہ ’’تعریف اللہ کے لیے ہے‘‘ کیا ہے۔ حالانکہ مترجمین سلف و خلف نے اس کا ترجمہ ’’تمام خوبیاں اللہ کے لیے‘‘، ’’سب تعریف اللہ کے لیے‘‘ کیا ہے۔ تفہیم القرآن کا ترجمہ کچھ نا مکمل، یا نا تمام سا محسوس ہوتا ہے۔

قدیم عربوں میں حروف مقطعات کا رواج

سوال: تفہیم القرآن میں حروف مقطعات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ اسلوب شعرائے جاہلیت میں معروف تھا جو بعد میں متروک ہوگیا۔ اس سلسلے میں چند معروضات ہیں:

۱۔ کیا اس کی مثال شعرائے جاہلیت کے اشعار میں یا خطبا کے خطبوں میں ملتی ہے؟

۲۔ صحابہ کرامؓ کے اقوال میں اس کے اثبات میں کچھ منقول ہے؟

۳۔ کیا حروف مقطعات کا اسلوب اگر بعد میں متروک ہوگیا، تو یہ ’’عربی مبین‘‘ کے خلاف تو نہیں؟

عہد صدیقی اور دور عثمانی میں جمع قرآن

سوال:ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں رسائل و مسائل کا مطالعہ کرکے ایک شک میں پڑ گیا ہوں۔ امید ہے آپ اسے رفع فرمائیں گے تاکہ سکون میسر ہو۔

’’رد و بدل‘‘ کی صریح مثال کے سلسلے میں آپ نے لکھا ہے کہ قرآن متفرق اشیا پر لکھا ہوا تھا جو ایک تھیلے میں رکھی ہوئی تھیں۔ حضورﷺ نے اسے سورتوں کی ترتیب کے ساتھ کہیں یکجا نہیں لکھوایا تھا، اور یہ کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوگئے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

سیل عرم کا زمانہ

سوال: تفہیم القرآن میں آپ نے سیل عرم کا جو زمانہ ۴۵۰ء متعین فرمایا ہے اس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں (یعنی ان کا ماخذ کیا ہے)۔

۲۔ ’’ارض القرآن‘‘ کی اشاعت سے پہلے بھی ۴۵۰ء والی روایت بعض کتابوں میں ملتی ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ارض القرآن کی اشاعت کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ سیل عرم ۴۵۰ء میں آیا۔ نکلسن کی تاریخ ادب العرب میں بھی سیل عرم کا زمانہ ۴۴۷ء یا ۴۵۰ء لکھا ہے، لیکن یہ روایت بوجوہ محل نظر ہے۔

بعض تفسیری اشکالات کے جوابات

سوال: تفہیم القرآن (جلد چہارم) کے مطالعہ کے بعد درج ذیل باتیں وضاحت طلب رہ گئی ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرما کر ممنونِ احسان فرمائیے۔ جزاک اللہ۔

۱۔ سبا آیت ۱۴، ح ۲۴، صفحہ ۱۹۰۔ حضرت سلیمان ؑ کا مردہ جسم عصا کے سہارے اتنی مدت کھڑا رہا کہ گھن نے عصا کو کمزور کردیا اور جنوں کو (اور یقیناً انسانوں کو بھی) ان کے انتقال کا علم نہ ہوا… یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اور قرآن اسے کسی معجزے کے طور پر پیش نہیں کر رہا ہے… کیا جنوں (اور دیگر عمائد سلطنت) میں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ حضرت سلیمان ؑ جو بولتے چالتے، کھاتے پیتے، مقدمات کے فیصلے سناتے، فریادیں سنتے، احکام جاری کرتے، عبادت کرتے، حاجات سے فارغ ہوتے تھے اتنی دیر (بلکہ مدت) سے ساکت و صامت کیوں کھڑے ہیں؟ کیا زندگی کے ثبوت کے لیے صرف کھڑا رہنا کافی ہے؟ اور پھر آپ کے اہل و عیال؟ کیا انہیں بھی انتقال کا پتہ نہیں چلا (جو نا ممکن ہے) یا انہی نے یہ ایک ترکیب نکالی تھی؟

حضورﷺ کی صاحبزادیوں کی عمریں

سوال: تفہیم القرآن جلد ششم سورہ الکوثر کے دیباچہ میں صفحہ ۴۹۰ پر ابن سعد اور ابن عساکر کے حوالہ سے آپ نے حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہﷺ کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت قاسم ؓ تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینب ؓ تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبداللہ ؓ تھے۔ پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں امُّ کلثوم ؓ، فاطمہ ؓ اور رقیہ ؓ تھیں، ان میں سے پہلے حضرت قاسم ؓ کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبد اللہ ؓ نے وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا ’’ان کی نسل ختم ہوگئی۔ اب وہ ابتر ہیں‘‘ (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔