تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم صاحب تفہیم القرآن مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ رسالہ ترجمان القرآن میں کئی دہائیوں تک لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیتے رہے، ان کی…

کیا حرام مہینوں کی حرمت کا حکم اب بھی باقی ہے؟

کیا حرام مہینوں کی حرمت کا حکم اب بھی باقی ہے؟

سوال: قرآن مجید میں الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ میں قتال سے منع کیا گیا ہے لیکن شاہ ولی اللہ اور مولانا ثناء اللہ پانی پتی (صاحب تفسیر مظہری) متاخرین میں، اور عطا اور امام بیضاوی متقدین میں، بس یہی ملے جنہوں نے آیت کے حکم کو باقی رکھا ہے۔ ان کے علاوہ صاحب بدائع و صنائع، زمخشری، جصاص، ابن عربی مالکی اور دوسرے مفسرین اور فقہاء نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ حتیٰ کہ کتاب الام میں امام شافعی کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے جب کہ ان کے فقہی اصول (مذکورہ بیضاوی) کی رو سے اس آیت کو منسوخ نہ سمجھنا چاہیے۔

درایت حدیث

درایت حدیث

سوال: آپ نے سورۂ ص کی تفسیر میں حضرت سلیمانؑ کے متعلق روایت ابو ہریرہؓ کی سند کو درست قرار دیا ہے مگر اس کے مضمون کو صریح عقل کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ آپ کے مخالفین اس چیز کو آپ کے انکار سنت پر بطور دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ آپ عقل کی آڑ لے کر صحیح احادیث کا انکار کر دیتے ہیں۔ آپ اپنی اس رائے کو بدل دیں یا پھر اس پر کوئی نقلی دلیل آپ کے پاس ہو تو تحریر فرمائیں۔ اگر آئمہ اسلاف میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں۔

حضرت ابراہیم ؑ کا دور تفکر

حضرت ابراہیم ؑ کا دور تفکر

سوال: تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۵۵۲، سورہ انعام آیت ۷۴ کا تفسیری نوٹ نمبر ۵٠ یہ ہے :

’’یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جارہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمدﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر ایک مالک کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کردیا ہے، اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کرچکے ہیں۔‘‘

بشریت خضر ؑ کا مسئلہ

بشریت خضر ؑ کا مسئلہ

سوال: تفہیم القرآن جلد سوم زیر مطالعہ ہے۔ حضرت خضر ؑ کا واقعہ اور آپ کا فٹ نوٹ نمبر ۶۰ پوری طرح پڑھ چکا ہوں۔ حضرت خضر کی نسبت آپ کا قیاس اور میلان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ یا غیر بشر ہوں گے۔ میرے ذہن میں چند ایسے امور موجود ہیں جو آپ کے میلان سے سرِدست متفق ہونے پر راضی نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے آپ کی مزید واضح تفہیم کا محتاج ہوں۔ آپ کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہر مومن کی بشریت مکلفِ شریعت ہے۔ اس لیے حضرت خضر کی بشریت تسلیم کرنے میں ’’شرعی ٹکراؤ‘‘ یا شرعی پیچیدگی حائل و مانع ہے۔ گویا اگر اس کا کوئی حل نکل آئے تو حضرت خضر کی بشریت معرضِ بحث میں نہیں آتی لیکن حضرت خضر کا قرآن میں جس طرح پر ذکر آیا ہے، اس سے ان کے بشر ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔

خدائی وعدوں کا مفہوم

خدائی وعدوں کا مفہوم

سوال: احادیث میں قرآن مجید کی بعض آیات کے بارے میں بڑے بڑے وعدے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً آیت الکرسی ہی کہ لیجیے۔ اس کے متعلق بخاری، مسلم وغیرہ میں معمولی اختلاف سے یہ بیان موجود ہے کہ جو کوئی اس کو پڑھ لے اس کے لیے ایک فرشتہ بحیثیت محافظ و نگران مقرر کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح چوری سے حفاظت اور مال کے محفوظ رہنے کا مضمون بھی مشہور ہے۔ مگر اس کے باوجود بعض اوقات چوری بھی ہوجاتی ہے اور آدمی کو نقصان بھی پہنچ جاتا ہے۔

اللہ کے رازق ہونے کا مطلب

اللہ کے رازق ہونے کا مطلب

سوال: میں آپ سے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا چاہتا ہوں:
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فَِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا
(زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے)۔

مجھے جو بات کھٹک رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب رزق کا ذمہ دار اللہ ہے تو بنگال کے قحط میں جو تیس ہزار آدمی ۱۹۴۳۔۱۹۴۴ ء میں مرگئے تھے ان کی وفات کا کون ذمہ دار تھا؟

سات آسمانوں کی حقیقت

سات آسمانوں کی حقیقت

سوال قرآن کریم کی ظاہری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آسمان چند مخصوص مواضع کا نام ہے جو اس زمین سے علیحدہ مکانات ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر چھت کی طرح ہیں مثلاً سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۔ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۔ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۔ وَزَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْعَ۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کے باقاعدہ دروازے ہوں گے مثلاً وَّفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ اَبْوَابًا احایث میں اس کی تشریح حدیث معراج میں ملتی ہے۔ جس میں صریح طور پر سات آسمانوں کو ساتھ علیحدہ علیحدہ مکانات تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر آپ نے تفہیم القرآن جلد ۱ سورہ بقرہ حاشیہ ۳۴ کے تحت لکھا ہے کہ ’’بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے‘‘۔

پسلی سے حضرت حواؑ کی تخلیق

پسلی سے حضرت حواؑ کی تخلیق

سوال: تفہیم القرآن جلد۱، سورہ نساء حاشیہ نمبر ۱ کے تحت آپ نے لکھا ہے کہ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے بارے میں عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائیبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کے آدمؑ کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا ۔ لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو بخاری اور مسلم کی ہے۔

علوم نفسیات اور چند متفرق مسائل

علوم نفسیات اور چند متفرق مسائل

سوال: مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بیحد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعائے خیر کرتا رہتا ہوں۔ میں آج کل امریکہ میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فن علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے سوالات درج ذیل ہیں: