شیعہ، سنی تنازعات:

سوال: جماعت اسلامی پاکستان ایک نہایت عظیم اور بلند مقصد لے کر اٹھی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت اسلامی کو کامیابی دے تاکہ پاکستان میں اسلامی دستور کا بول بالا ہو۔

جس چیز کی طرف ہم آپ کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں وہ بھی اسلام کے لیے ایک نہایت ہی بنیادی چیز ہے اور مقام افسوس ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اسی وجہ سے یہ معاملہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ آپ خندہ پیشانی سے غور فرما کر جواب دیں گے۔

موجودہ دور کچھ اس قسم کا گزر رہا ہے کہ شیعہ فرقہ انتہائی طور پر منظم ہے اور وہ متفقہ طور پر ہر جگہ اپنی تقریروں، تحریروں اور پمفلٹوں کے ذریعے صحابہ کرامؓ پر زہر اگل رہا ہے جن میں ان کے وزارء بھی ہماری غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور ہمارے لیڈران کرام اور علماء حضرات آپس کی کش مکش میں اسلام کی جڑیں کھو کھلی کر رہے ہیں۔

یہ لوگ مذہبی آزادی کی آڑ میں ہر جگہ نئے نئے لائسنس عزاداری لے کر اور ان لائسنسوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کھلے بندوں اعلانیہ تبرا کر رہے ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے گورنمنٹ کی مخالفت کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں۔ گویا حکومت لائسنس کی آڑ میں تبرا کروا رہی ہے اور لائسنسوں ہی کی وجہ سے گورنمنٹ خود ان کی نگہداشت بھی کرتی ہے۔

حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کا ہر فرد اپنے فرقہ کی ترقی کے لیے جائزو ناجائز طریقہ سے اپنے خاص عقائد کو پھیلانے کے لیے پوری جدوجہد سے کام لے رہا ہے اور تمام شیعہ پریس بھی تبرا بازی پر مشتمل مضامین شائع کر رہا ہے اور ان کے علما ہر جگہ عزاداری کی آڑ لے کر ’’قتل حسین در سقیفہ‘‘ کے عنوان پر تقریریں کر رہے ہیں۔ ہمارے بے علم عوام ان کی تقریریں سن سن کر گمراہ ہو رہے ہیں اور شیعہ مذہب سیل رواں کی طرح ملک کے مختلف حصوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔

اب اس کے بعد ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی مٹھی بھر علما کی جماعت یا کوئی ادارہ ناموس صحابہؓ کی مدافعت کی خاطر میدان عمل میں نکلے تو اس کا کام کچھ تو جماعت اسلامی کی تنقید کی نظر ہوجاتا ہے اور کچھ نقصان گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی مخالفت سے گورنمنٹ بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ملاّ فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ حضرات زبان بندیوں اور پابندیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ المنیر جلد ۸، شمارہ ۳۶۔ ۱۷ ستمبر سر روزہ ’’دعوت‘‘ لاہور کی ضمانت طلبی پر صرف صحافت کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے اور بعد میں اس طرح تنقید کرتا ہے کہ ’’یہ طریقہ کار اسلامی نقطہ نظر سے ہمارے نزدیک زیادہ مفید نہیں ہے اور ہمارا دینی مسلک اس موضوع میں معاصر سے مختلف ہے‘‘۔

اتنے گندے ماحول میں آپ خود ہی اندازہ کریں، کیا اس تنقید سے شیعہ پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ حالاں کہ اپنے مضمون میں المنیر نے خود بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’عزاداری تبرا بازی میں بدل چکی ہے‘‘۔

ہم آپ سے مؤدبانہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے علما کرام، سیاسی لیڈر، ادارے، اخبار اور خصوصاً آنجناب اور جماعت اسلامی کیوں خاموش ہیں؟ کیوں نہیں کوئی باہمی اور متفق صورت اختیار کی جاتی؟ کیا اسلامی قانون میں کوئی تبرا کرنے کی گنجائش ہے؟ اکثر مقامات میں عشرہ محرم میں کھلی جگہ پر تبرا بازی کی گئی ہے اور یہ نوحے برسرعام لاؤڈ اسپیکر پر پڑھے گئے ہیں:

آقا کے چھوڑ جنازے کو کیوں بھاگے یار سقیفہ کو

کیوں چھوڑ دیا جنازے کو قرآن کے خافظ یاروں نے

کیوں یاروں نے من بعد نبی اس گھر پر آگستاخی کی

کیوں کھایا آل نبی کا حق قرآن کے دعوے داروں نے

جس کے گھر سے فیض اٹھاون اس دے گھر نوں آگ لگاون

کیوں دنیا حق نوں بھل گئی ہے، کیوں آل نبی دی رل گئی اے۔

گئے یار سقیفہ جس دم کیا مشورہ مل کر باہم

کرو اپنی حکومت مستحکم … وغیرہ، وغیرہ۔

یہ نوحہ جات چھپے ہوئے ہیں۔

اس کی اطلاع جب بر وقت ایس ڈی او صاحب اور ڈی ایس صاحب کو دی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ہم اپنی ڈائری میں لکھ رہے ہیں، ان کے پاس لائسنس عزاداری ہے، ہمیں قصور وار ٹھہرایا کہ تم جلوس میں گڑ بڑ کرنا چاہتے ہو اور ہمارے نام درج کرلیے۔ اس کے بعد حسب دستور عصر کی اذان وقت مقررہ پر لاؤڈاسپیکر پر دی گئی تو شیعہ کے مبلغ اعظم محمد اسماعیل گوجری نے دوران تقریر میں ہماری اذان کویزیدی اذان سے تشبیہ دی اور کہا یہ وہی اذانیں ہیں جو کوفہ میں ہو رہی تھیں جب کہ حسینؓ کا قافلہ اسی طرح لٹا جا رہا تھا اور بعد میں حضرت عائشہؓ پر ناجائز حملے شروع کردیے جو کہ بیان کرنے ہی نا مناسب ہیں۔ پھر تقریر میں باغ فدک، خلافت اور حدیث قرطاس کے مضمون بیان کرنے شروع کیے۔

عالی جاہ! ہندوستان میں اگر مذہبی راہنما کتاب چھپے جس میں نبی کریمﷺ اور حضرت عائشہؓ کی توہین ہو تو جناب اور آپ کی جماعت اور دوسری جماعتیں اور دیگر علما آپ کے کہنے کہا نے پر متفقہ ریزولیشن پاس کرکے اس کے ضبط کرنے کے لیے غیر ملکی حکومت میں پوری جدوجہدکرتے ہیں اور بفضل خدا کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ کیا اس کتاب میں کسی اور عائشہ صدیقہؓ کی توہین ہے اور شیعہ کسی اور عائشہؓ کی توہین کرتے ہیں؟

جواب: آپ نے جو واقعات لکھے ہیں، وہ واقعی بہت افسوس ناک ہیں۔ شیعہ حضرات کا یہ حق تو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی مراسم اپنے طریقہ پر ادا کریں، مگر یہ حق کسی بھی طرح تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ دوسرے لوگ جن بزرگوں کو اپنا مقتداو پیشوا مانتے ہیں، ان کے خلاف وہ برسرعام زبان طعن دراز کریں۔ یا دوسروں کے مذہبی شعائر پر علانیہ حملے کریں۔ ان کے عقیدے میں اگر تاریخ اسلام کی بعض شخصیتیں قابل اعتراض ہیں تو وہ ایسا عقیدہ رکھ سکتے ہیں، اپنے گھروں میں بیٹھ کر وہ ان کو جو چاہیں کہیں، ہمیں ان سے تعرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کھلے بندوں بازاروں میں یا پبلک مقامات پر انہیں دوسروں کے مذہبی پیشواؤں پر تو درکنارے کسی کے باپ کو بھی گالی دینے کا حق نہیں ہے اور دنیا کے کسی آئین و انصاف کی رو سے وہ اسے اپنا حق ثابت نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں اگر حکومت کوئی تساہل کرتی ہے تو یہ اس کی سخت غلطی ہے، اور اس تساہل کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ یہاں فرقوں کی باہمی کش مکش دبنے کی بجائے اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ دشنام طرازی کا لائسنس دینا اور پھر لوگوں کو دشنام طرازی کے لیے اس بنا پر مجبور کرنا کہ اس کا لائسنس دیا جا چکا ہے، حمایت بھی ہے اور زیادتی بھی۔ حکومت کی یہ سخت غلطی ہے کہ وہ شیعہ حضرات کے مراسم عزاداری اور اس سلسلے کے جلسوں اور جلوسوں کے لیے معقول اور منصفانہ حدود مقرر نہیں کرتی اور پھر جب بے قید لائسنسوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بدولت جھگڑے رونما ہوتے ہیں تو فرقہ وارانہ کش مکش کا رونا روتی ہے۔ اس معاملے میں سنیوں اور شیعوں کی پوزیشن میں ایک بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ خاطر رکھ کر ہی فریقین کے درمیان انصاف قائم کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ شیعہ جن کو بزرگ مانتے ہیں وہ سنیوں کے بھی بزرگ ہیں اور سنیوں کی طرف سے ان پر کسی طعن و تشنیع کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سنیوں کے عقیدے میں جن لوگوں کوبزرگی کا مقام حاصل ہے، ان کے ایک بڑے حصے کو شیعہ نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ انہیں برا کہنا بھی اپنے مذہب کا ایک لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ اس لیے حدود مقرر کرنے کا سوال صرف شیعوں کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ بد گوئی اگر ان کے مذہب کا کوئی جزو لازم ہے تو اسے اپنے گھر تک محدود رکھیں۔ پبلک میں آکر دوسروں کے بزرگوں کی برائی کرنا کسی طرح بھی ان کا حق نہیں مانا جاسکتا۔

میرا خیال یہ ہے کہ اس معاملہ کو اگر معقول طریقے سے اٹھایا جائے تو خود شیعوں میں سے بھی تمام انصاف پسند لوگ اس کی تائید کریں گے اور ان کے شر پسند طبقے کی بات نہ چل سکے گی۔ حکومت کو بھی بآسانی اس بات کا قائل کیا جاسکتا ہے کہ شیعہ حضرات کو ان کے مذہبی مراسم کی ادائیگی کے معاملے میں جہاں تک کہ پبلک میں ان کے ادا کرنے کا تعلق ہے، حدود کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حدود بھی گفت و شنید سے طے ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو کسی ایجی ٹیشن کی بنیاد بنانے کی بجائے اس طریقے سے حل کرنا زیادہ مناسب ہے۔ میں اپنی حد تک اس خدمت کی انجام دہی کے لیے جو کچھ کرسکتا ہوں، اس میں انشاء اللہ دریغ نہ کروں گا۔

(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۷۶ھ، نومبر ۱۹۵۶ء)