تجارتی حصص کی زکوٰۃ

سوال: اب تک تجارتی حصص پر زکوٰۃ کے متعلق آپ کی جو تحریریں میری نظر سے گزری ہیں، ان میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست یا کم از کم تحصیل زکوٰۃ کا ایک مرکزی نظام موجود ہے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کس مرحلہ پر اور کس سے وصول کی جائے۔ جب تک کوئی مرکزی نظم زکوٰۃ قائم نہ ہو، اس وقت تک حصص پر زکوٰۃ کی کیا صورت ہوگی؟ اس وقت بہت سے لوگوں کے پاس تجارتی حصے ہیں، وہ ان پر کس شرح سے زکوٰۃ ادا کریں؟

میں نے اپنے حصص کو روپے کا نعم البدل قیاس کرتے ہوئے ان کی مالیت پر ڈھائی فیصدی نکالنا چاہا تھا لیکن حصص کی سالانہ آمدنی ٹیکس کٹ کٹا کر جتنی ملتی ہے، وہ پوری ان کی زکوٰۃ میں چلی جاتی ہے۔ بعض حصص سے آمدنی اتنی کم ہوتی ہے کہ الٹا جیب سے زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ صورت قطعاً غیر تشفی بخش ہے۔

جواب: تجارتی حصص کی زکوٰۃ اس اصول پر نہیں نکالی جائے گی کہ گو یا حصے کی رقم آپ کے پاس جمع ہے اور آپ جمع شدہ روپے کی زکوٰۃ نکال رہے ہیں۔ بلکہ ان کی زکوٰۃ تجارتی مال کی زکوٰۃ کے اصول پر نکالی جائے گی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ کاروبار شروع ہونے کی تاریخ پر جب ایک سال گزر جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پاس تجارتی مال(Stock in Hand) کس قدر موجود ہے اور وہ کس مالیت کا ہے اور نقد روپیہ(Cash in Hand) کتنا ہے دونوں کے مجموعہ پر ڈھائی فیصدی کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ اسی قاعدے پر دیکھا جائے گا کہ کمپنی یا کمپنیوں میں آپ کے جو حصے ہیں، اس وقت بازاری قیمت کے لحاظ سے ان کی قیمت کیا ہے۔ سال کے دوران میں آدمی نے خواہ کتنی ہی مرتبہ پہلا حصہ فروخت کیا ہو اور دوسرا خریدا ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلا حصہ جب آپ نے خریدا، اس وقت سے سال شمار کیا جائے گا اور سال کے خاتمہ پر آپ کے حصوں کی جو بازاری قیمت ہو، اس کے لحاظ سے زکوٰۃ کی تعداد کا تعین کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آپ کے پاس نقد کس قدر موجود ہے۔ دونوں کے مجموعے پر ۴۰؍۱ کی شرح سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
رہی یہ بات کہ ٹیکس لگ کر آپ کی بقیہ آمدنی اتنی کم رہ جاتی ہے کہ زکوٰۃ دینے کی صورت میں وہ پوری کی پوری زکوٰۃ ہی میں چلی جاتی ہے تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔ یہ تو ایسی حکومتوں کے ماتحت رہنے کی سزا ہے جو ٹیکس عائد کرتے وقت سرے سے زکوٰۃ کا کوئی لحاظ ہی نہیں کرتیں۔ یہ سزا ہمیں اس وقت تک بھگتنی ہوگی جب تک کہ اس حکومت کا نظام ہم نہ بدل دیں جس میں ہم رہتے ہیں۔