قزع اور تشبہ بالکفار

سوال: آپ نے رسائل و مسائل میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ کے نزدیک انگریزی طرز کے بال شرعاً ممنوع نہیں ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ جو چیز ممنوع ہے وہ یا تو فعل قزع ہے یا وضع میں تشبہ بالکفار ہے، اور انگریزی طرز کے بال ان دونوں کے تحت نہیں آتے۔ مگر آپ کا جواب بہت مختصر تھا اور اس میں آپ نے اپنے حق میں دلائل کی وضاحت نہیں کی۔ خصوصاً قزع کی جو تعریف آپ نے بتائی ہے، اس کی تائید میں آپ نے کسی متعین حدیث یا اقوال صحابہ و آئمہ میں سے کسی کو نقل نہیں کیا۔ اسی طرح عہد نبوی میں غیر مسلموں کے اجزائے لباس کے اختیار کیے جانے کا آپ نے ذکر تو کیا ہے لیکن وہاں بھی آپ نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ متعلقہ حوالہ جات کو بھی ترجمان میں نقل کردیں تا کہ بات زیادہ صاف ہوجائے۔

آپ کی توضیح کے مطابق اس طرز کے بال رکھنا حرام نہیں ہے لیکن آپ کا ذوق انہیں پسند بھی نہیں کرتا۔ کیا جو وضع اہل دین کے نزدیک نا پسند ہو مگر حرمت کے درجے میں نہ ہو، اس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی تدابیر اختیار نہیں کی جاسکتیں؟

جواب: کسی چیز کو شرعی حیثیت سے ناجائز کہنے کے لیے دو امور میں سے ایک کا پایا جانا ضروری ہے یا تو بعینہٖ اس چیز کے متعلق کوئی حکم کلام شارع میں موجود ہو، یا شارع کی دی ہوئی کسی اصولی ہدایت کے تحت وہ ناجائز قرار پاتی ہو۔ اگر ان دونوں امور میں سے کوئی بھی نہ ہو تو ایسی چیز کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا خواہ وہ کسی شخص یا کسی گروہ کے مذاق پر کتنی ہی گراں ہو۔ اس قاعدہ کلیہ کے تحت جب ہم تحقیق کرتے ہیں کہ انگریزی طرز کے بالوں کی شرعی حیثیت کیا ہے تو معلوم ہوتا کہ مذکورہ بالا وجوہِ تحریم میں سے کوئی بھی یہاں نہیں پائی جاتی۔ سر کے بالوں کے متعلق نص صریح میں جس چیز کی ممانعت وارد ہوئی ہے، وہ قزع ہے اور قزع کی جو تعریف آئمہ حدیث و فقہ نے بیان کی ہے وہ یہ ہے:

اَنْ یُّحَلَقَ بَعْضُ رَأسِ الصَّبِیِّ وَ یُتْرَکُ بَعْضٌ۔ (نافع مولیٰ ابن عمر۔ صحیح مسلم)

’’یہ کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ مونڈا جائے اور کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے‘‘۔

اِذا حُلِقَ الصبیُ وَتُرِکَ ھٰھنا شَعْرۃً ھٰھنا وھٰھنا وَاَشارَ اِلٰی نَاصِیَتِہٖ وَ جَانِبَیْ رَأسِہٖ … وَلٰکِنَّ الْقَزْعَ اَن یُتْرَکَ بناصِیَتِہٖ شعرٌ وَلَیْسَ فی رأسِہ غَیرُہ وکذٰلک شُقَّ رَأسُہ ھٰذا وھٰذا (عمر بن نافع، صحیح بخاری)

جب کہ بچے کا سر اس طرح مونڈا جائے کہ صرف پیشانی اور سر کے دونوں جانب بال چھوڑ دیے جائیں۔ (پھر دوبارہ پوچھنے پر مزید تشریح کی کہ) … مگر قزع یہ ہے کہ پیشانی کے بال چھوڑ کر باقی سارا سر مونڈ دیا جائے اور اسی طرح یہ کہ سر کے ان ان حصوں کو چھوڑ کر باقی سارا سر مونڈ دیا جائے۔

ابو داؤد کی روایت میں یہ تشریح خود نبیﷺ کے ارشاد سے مستنبط ہوئی ہے۔ اس میں ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور کچھ حصے پر بال چھوڑ دیے گئے تھے۔ حضور نبی ﷺ نے اس فعل سے منع کیا اور فرمایا اِحْلِقُوْ کَلَّہٗ اواُتْرُ کُوْا کُلَّہٗ۔ ’’یا تو پورا مونڈا دو یا پورے سر کے بال چھوڑ دو‘‘۔

اس سے یہ بات متعین ہوگئی ہے کہ شریعت میں جو چیز بعینہٖ ممنوع ہے، وہ کچھ مونڈنا اور کچھ رکھنا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق ان بالوں پر نہیں ہوتا جو آج کل انگریزی بالوں کے نام سے مشہور ہیں۔

اب رہ گیا دوسرا امر کہ شارع کی کسی اصولی ہدایت کے تحت ان بالوں کو ناجائز قرار دیا جائے تو وہ اصولی ہدایت صرف نہی تشبہ والی ہدایت ہوسکتی ہے جس کے اس معاملہ پر منطبق ہونے کا دعویٰ کرنا ممکن ہے۔ لیکن اس معاملہ میں تحقیق طلب امر یہ ہے کہ تشبہ سے مراد کیا ہے؟ آیا تشبہ مجموعی وضع و ہیئت سے ہی ہوتا ہے یا جزئی طور پر بھی ہوسکتا ہے؟ اس سوال کی تحقیق میں جب ہم حدیث پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ جزئی طور پر غیر مسلم قوموں کی کوئی چیز لے کر اپنی وضع و معاشرت میں شامل کرلینے کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر شلوار ایران کی چیز تھی جو عرب پہنچ کر سراویل کے نام سے موسوم ہوئی اور نبیﷺ نے اس کے استعمال کو نہ صرف جائز رکھا بلکہ خود بھی استعمال فرمایا۔

چنانچہ بخاری میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: مَنْ لَّمْ یَجِدْ اِزارً فَلْسْ سَرَاوِیلَ(جس کو تہمد نہ ملے وہ شلوار پہن لے) اور معتبر روایات سے ثابت ہے کہ حضورﷺ نے شلوار خود بھی خریدی تھی اور آپؐ کے زمانے میں آپؐ کی اجازت سے مسلمان بھی اس کو پہنتے تھے۔ اسی طرح بُرنُس کے استعمال کو آپؐ نے نہ صرف جائز رکھا تھا بلکہ ایک صحابی کو تحفتاً بھی دی تھی اور قرن اول کے قراء میں اس کا استعمال عام تھا، حالاں کہ یہ عیسائی راہبوں کی ٹوپی تھی۔ اسی بنا پر سلف میں سے بعض حضرات نے اس کے استعمال کو مکروہ سمجھا بھی تھا۔ لیکن امام مالکؒ نے ان کے اس خیال کی صاف صاف تردید فرمائی۔

اسی طرح حضورﷺ نے مختلف اوقات میں ایسے جبے بھی استعمال فرمائے ہیں جو غیر مسلم قوموں سے درآمد ہوئے تھے۔ چنانچہ معتبر احادیث سے آپؐ کا جبہ شامیہ، جبہ رومیہ اور جبہ کسروانیہ پہننا ثابت ہوتا ہے۔ حالاں کہ جبہ شامیہ یہودیوں کے لباس کا جز تھا، جبہ رومیہ کیتھولک عیسائیوں کا لباس تھا اور جبہ کسروانیہ ایرانی فیشن کی چیز تھی۔ ان تمام روایات سے یہ بات ناقابل انکار طور پر ثابت ہوتی ہے کہ غیر مسلموں کے تمدن، معاشرت اور وضع و ہیئت میں سے متفرق اجزا لے کر (بشرطیکہ ان میں سے کوئی چیر بذات خود حرام نہ ہو) اپنی معاشرت میں داخل کرلینا تشبہ نہیں ہے بلکہ تشبہ کا اطلاق صرف اس چیز پر ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان اپنے آپ کو بحیثیت مجموعی کسی غیر مسلم قوم کی وضع و ہیئت میں ڈھال لے، حتیٰ کہ اسے دیکھ کر ایک ناواقف آدمی یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ مسلمان ہے۔ اب یہ صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی مجموعی وضع مسلمانوں کی سی معروف وضع رکھتا ہو اور اس میں صرف انگریزی بال اس کے سر پر ہوں تو اسے تشبہ کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔

بلاشبہ میرے اپنے مذاق پر اب بھی یہ بال گراں ہیں اور اسی لیے میں نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ حدود حلال و حرام اور چیز ہیں، اور وہ مذاق اور چیز ہے جو اسلامی ذہنیت کی نشونما سے ابھرتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک اسلامی نظام میں جس چیز کو ضابطہ کے طور پر حکماً نافذ کرسکتے ہیں، وہ صرف حدود حلال و حرام ہیں۔

رہا وہ مذاق جو اسلامی ذہنیت کے ارتقاء سے ہم میں پیدا ہوتا ہے تو اول تو ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام اہل ایمان میں متفق علیہ ہو۔ دوسرا اگر وہ متفق علیہ بھی ہو تب بھی ہمیں اس کو ’’شریعت‘‘ قرار دینے کا حق نہیں ہے۔ شریعت تو صرف ان احکام کا نام ہے جو کتاب و سنت میں منصوص ہوں۔ منصوصات سے ماورا جو اجتہادی یا ذوقی امور ہوں، ان کو رائج کرنے کے لیے استدلال، تعلیم، تربیت وغیرہ کے ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں مگر ان کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔

(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ ۱۳۷۵ھ، جولائی ۱۹۵۶ء)