طلاق قبل از نکاح

سوال: میرے ایک غیر شادی شدہ دوست نے کسی وقتی جذبے کے تحت ایک مرتبہ یہ کہہ دیا تھا کہ ’’اگر میں کسی عورت سے بھی شادی کروں تو اس پر تین طلاق ہے‘‘۔ اب وہ اپنے اس قول پر سخت نادم ہے اور چاہتا ہے کہ شادی کرے۔ علما یہ کہتے ہیں کہ جونہی وہ شادی کرے گا، عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لیے عمر بھر اب شادی کی کوشش کرنا اس کے لیے ایک بے کار اور عبث فعل ہے۔ براہ کرم بتائیں کہ اس مصیبت خیز الجھن سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟

جواب: بلاشبہ فقہائے حنفیہ کی رائے یہی ہے کہ ایسی صورت میں جس عورت سے بھی اس کا نکاح ہوگا، اس پر طلاق وارد ہوجائے گی۔ لیکن تمام آئمہ و فقہا کا اس بارے میں اتفاق نہیں ہے۔ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی رائے یہ ہے کہ طلاق کا حق نکاح کے بعد پیدا ہوتا ہے نہ کہ نکاح سے پہلے۔ اگر کسی شخص نے یہ کہا ہو کہ وہ آئندہ جس عورت سے بھی نکاح کرے، اس کو طلاق ہے تو یہ ایک لغو اور غیر مؤثر بات ہے۔ اس سے کوئی قانونی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ یہی رائے حضرت علیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت جابرؓ بن عبداللہ، حضرت ابن عباسؓ، اور حضرت عائشہؓ سے بھی منقول ہے اور اس رائے کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
لَا طَلَاقَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ نِکَاح (طلاق نہیں ہے مگر نکاح کے بعد) امام مالکؒ کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی خاص عورت یا خاص قبیلے یا خاص خاندان کی عورتوں کے بارے میں کوئی شخص ایسی بات کہے تب تو طلاق لازم آجائے گی، لیکن مطلقاً تمام عورتوں کے بارے میں یہ بات کہی جائے تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ کیوں کہ پہلی صورت میں تو یہ امکان باقی رہتا ہے کہ مرد اس عورت یا اس قبیلے کی عورت کے سوا دوسری عورت سے نکاح کرسکے۔ لیکن دوسری صورت میں ترک سنت کی قباحت لازم آتی ہے اور یہ ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا ہم معنی ہیں۔(اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورہ احزاب صفحہ ۷۳)

ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۵ھ، جنوری ۱۹۵۶ء)