ختم نبوت کے خلاف قادیانیوں کے دلائل:

سوال: قادیانی حضرات قرآن مجید کی بعض آیات اور بعض احادیث سے ختم نبوت کے خلاف دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً وہ سورہ اعراف کی آیت يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ … کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے نزول اور محمد ﷺ کی بعثت کے بعد اس آیت کا خطاب امت محمدیہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ یہاں بنی آدم سے مراد یہی امت ہے اور اسی امت کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اگر ’’کبھی تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں‘‘۔ اس سے قادیانیوں کے بقول نہ صرف امتی انبیاء بلکہ امتی رسولوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔ دوسری آیت سورہ مومنون کی ہے جس میں آغاز يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ سے ہوتا ہے۔ اس سے بھی ان کے نزدیک رسول کی آمد ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح قادیانی حدیث ’’لَوْ عَاشَ اِبْراھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا‘‘ (اگر رسول اللہ کے صاحب زادے ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے) سے بھی امکان نبوت کے حق میں استد لال کرتے ہیں۔ براہ کرم ان دلائل کی وضاحت واضح فرمائیں۔

جواب: قادیانیوں کے جو دلائل آپ نے نقل کیے ہیں، وہ بھی ان کے اکثر دلائل کی طرح سراسر گمراہ کن مغالطہ آمیزی پر مبنی ہے۔ آیت يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (سورہ اعراف35:7) کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے جو نتیجہ نکالا جاتا ہے، وہ اس کے نتیجے کے برعکس ہے جو سلسلہ کلام میں اسے رکھ کر دیکھنے سے نکلتا ہے۔ نیز اس مضمون کی جو دوسری آیات قرآن مجید میں ہیں، وہ بھی قادیانیوں کی تفسیر سے مختلف ہیں۔ علاوہ بریں قادیانیوں سے پہلے گزشتہ تیرہ سو برس میں کسی نے بھی مذکورہ بالا آیت کا یہ مطلب نہیں لیا ہے کہ نبی ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت جاری رہنے کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان تینوں نکات کی الگ الگ توضیح کی جاتی ہے:

سورہ اعراف میں یہ آیت دراصل قصہ آدم و حوا کے سلسلے میں آئی ہے جو رکوع دوم کے آغاز سے رکوع چہارم کے وسط تک مسلسل بیان ہوا ہے۔ پہلے رکوع دوم میں پورا قصہ بیان کیا گیا ہے، پھر رکوع سوم و چہارم میں ان نتائج پر تبصرہ کیا گیا ہے جو اس قصے سے نکلتے ہیں۔ اس سیاق و سباق کو ذہن میں رکھ کر آیت کو پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’يَا بَنِي آدَمَ‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے، اس کا تعلق آغاز آفرینش کے وقت سے ہے نہ کہ نزول قرآن کے وقت سے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز آفرینش ہی میں اولاد آدم کو اس بات پر متنبہ کیا گیا تھا کہ تمہاری نجات اس ہدایت کی پیروی پر موقوف ہے جو خدا کی طرف سے تم کو بھیجی جائے۔

اس مضمون کی آیات قرآن میں تین مقامات پر آئی ہیں اور تینوں مقامات پر قصہ آدم و حوا کے سلسلے میں ہی اس کو وارد کیا گیا ہے۔ پہلی آیت بقرۃ میں ہے (آیت نمبر ۳۸) دوسری آیت سورہ اعراف میں ہے (آیت نمبر ۳۵) اور تیسری آیت طہ میں (آیت نمبر ۱۲۳)۔ ان تینوں آیات کا مضمون بھی باہم مشابہ ہے اور موقع و محل بھی مشابہ۔

مفسرین قرآن مجید بھی دوسری آیتوں کی طرح سورہ اعراف کی اس آیت کو بھی قصہ آدم و حوا ہی سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں حضرت ابوسیار السلمی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت آدمؑ اور اس کی ذریت کو یکجا اور ایک ہی وقت میں خطاب کیا ہے‘‘۔ امام رازی اپنی تفسیر ’’تفسیر کبیر‘‘ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر خطاب نبی ﷺ کی طرف ہو، حالاں کہ وہ خاتم الانبیا ہیں، تو اس کے معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ یہاں امتوں کے بارے میں اپنی سنت بیان فرما رہا ہے‘‘۔ علامہ آلوسی اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں فرماتے ہیں ’’یہاں ہر قوم کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے اسے حکایتاً بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں بنی آدم سے نبیﷺ کی امت مراد لینا مستبعد اور ظاہر کے خلاف ہے کیوں کہ یہاں جمع کا لفظ ’’رسل‘‘ استعمال ہوا ہے۔ علامہ آلوسیؒ کے ارشاد کے آخری حصے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں خطاب امت محمدیہ سے ہو تو پھر اس امت کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’کبھی تم میں رسل آئیں‘‘۔ کیوں کہ اس امت میں ایک سے زائد رسولوں کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آیت يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (سورہ مومنون51:23) کو بھی اگر اس کے سیاق و سباق سے الگ نہ کیا جائے تو اس سے بھی وہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا جو قادیانی حضرات نے نکالا ہے۔ یہ آیت جس سلسلہ کلام میں وارد ہوئی وہ رکوع دوم سے مسلسل چلا آ رہا ہے۔ اس میں حضرت نوح ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ تک مختلف زمانوں کے انبیا اور ان کی قوموں کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں انبیا علیہ السلام ایک ہی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ ایک ہی ان سب کا طریقہ رہا ہے اور ایک ہی طرح سے ان سب پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہوتا رہا ہے۔ اس کے برعکس گمراہ قومیں ہمیشہ خدا کے رستے کو چھوڑ کر غلط کاری میں مبتلا رہی ہیں۔ اس سلسلہ بیان میں یہ آیت اس معنی میں نہیں آئی کہ ’’اے رسولو! جو محمد ﷺ کے بعد آنے والے ہو، پاک رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو‘‘۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام رسولوں کو، جو نوح ؑ کے وقت سے اب تک آئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہی ہدایت فرمائی تھی کہ ’’پاک رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو‘‘۔

اس آیت سے بھی مفسرین قرآن نے کبھی یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ محمد ﷺ کے بعد انبیا کی آمد کا دروازہ کھولتی ہے۔ اگر کوئی مزید تحقیق و اطمینان کرنا چاہے تو مختلف تفسیروں میں اس مقام کو دیکھ سکتا ہے۔

حدیث لَوْ عَاشَ اِبْراھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا سے قادیانی حضرات جو استدلال کرتے ہیں وہ چار وجوہ سے غلط ہے۔

اول یہ کہ جس روایت میں اسے خود نبی ﷺ کے قول کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، اس کی سند ضعیف ہے اور محدثین میں سے کسی نے بھی اس کو قوی تسلیم نہیں کیا ہے۔

دوم یہ کہ نووی اور ابن عبدالبر جیسے اکابر محدثین اس مضمون کو بالکل ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں۔ امام نوویؒ اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں لکھتے ہیں:

اَمَّا مَارُوِیَ عن بعضِ الْمتقدمین لو عاش ابراھیم لکان نبیا فَبِاطلٌ و جسارۃٌ علی الکلام علی المُغْیِبِاتِ وَ مُجاَزَفَۃٌ وَھُجُوْمٌ عِلٰی عَظَیْمٍ۔

’’رہی وہ بات جو بعض متقدمین سے منقول ہے کہ ’’اگر ابراہیم زندہ ہوتے تو نبی ہوتے‘‘ تو وہ باطل اور غیب کی باتوں پر کلام کرنے کی بے جا جسارت ہے اور بے سوچے سمجھے ایک بڑی بات منہ سے نکال دینا ہے۔

علامہ ابن عبد البر ’’تمہید‘‘ میں لکھتے ہیں:

لَا اَدْرِیْ مَا ھٰذا فَقَدْ وُلِدَ نُوْحٌ علیہ السلام غَیْرَ نبیٍ وَلَوْ یلدِ النبیُ الاْنبِیاءَ لَکَانَ کُلُّ اَحْدٍ نَبَیْاً لِاَنَّھُمْ مِنْ نُوْحٍ عَلَیہِ السَّلَامُ

’’میں نہیں جانتا کہ یہ کیا مضمون ہے۔ نوح علیہ السلام کے ہاں غیر نبی اولاد ہو چکی ہے۔ حالاں کہ اگر نبی کا بیٹا نبی ہی ہونا ضروری ہوتا تو آج سب نبی ہوتے۔ کیوں کہ سب کے سب نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں‘‘۔

سوم یہ کہ کثرت روایات میں اسے نبی ﷺ کے بجائے بعض صحابیوں کے قول کی حیثیت سے نقل کیا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ یہ تصریح بھی کر دیتے ہیں کہ نبی ﷺ کے بعد چوں کہ کوئی نبی نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے صاحب زادے کو اٹھا لیا۔ مثال کے طور پر بخاری کی روایت یہ ہے:
عن اسماعیل بن ابی خالد قال قلت لعبد اللہ بن ابی اوفی رأیت ابراھیم بن النبی قال مات صغیرًا ولو قضی ان یکون بعد محمد نبی عاش ابنہ ولکن لانبی بعدہ (بخاری۔ کتاب الادب، باب من سمی باسماء الانبیا)

اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبد بن ابی اوفیٰ (صحابی) سے پوچھا کہ آپ نے نبیﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ بچپن میں مر گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوتا کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو آپؐ کا صاحب زادہ زندہ رہتا، مگر حضورؐ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہے۔

اس سے ملتی جلتی روایت حضرت انسؓ سے بھی منقول ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں:
ولو بقی لکان نبیا لکن لم یبق لان نبیکم آخر الانبیا (تفسیر روح المعانی، جلد ۲۲، صفحہ ۳)

’’اگر وہ زندہ رہ جاتے تو نبی ہوتے، مگر وہ زندہ نہ رہے کیوں کہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں‘‘۔

چہارم یہ کہ اگر بالفرض صحابہ کرامؓ کی یہ تصریحات بھی نہ ہوتیں، اور محدثین کے وہ اقوال بھی موجود نہ ہوتے جن میں اس روایت کو جو نبی ﷺ کے قول کی حیثیت سے منقول ہوئی ہے، ضعیف اور ناقابل اعتبار دیا گیا ہے، تب بھی وہ کسی طرح قابل قبول نہ ہوتی، کیوں کہ یہ بات علم حدیث کے مسلّمہ اصولوں میں سے ہے کہ اگر کسی ایک روایت سے کوئی ایسا مضمون ہو جو بکثرت صحیح الاحادیث کے خلاف پڑتا ہو تو اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اب ایک طرف وہ کثیر التعداد صحیح اور قول السند احادیث ہیں جن میں صاف صاف تصریح کی گئی ہے کہ نبی ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور دوسری طرف یہ اکیلی روایت ہے جو باب نبوت کے کھلے ہونے کا امکان ظاہر کرتی ہے۔ آخر کس طرح جائز ہے کہ اس روایت کے مقابلے میں ان سب روایتوں کو ساقط کر دیا جائے؟۔

(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۵۴)