چند مزیداعتراضات:

ایک صاحب نے ایک طویل مکتوب کی شکل میں مدیر ’’ترجمان‘‘ کی بعض تحریروں پر اعتراضات وارد کیے ہیں۔ مدیر ’’ترجمان‘‘ نے ان کا مفصل جواب دیا ہے، افادہ عام کی خاطر سوالات و جوابات کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔

راقم عریضہ کافی عرصے سے آپ کی تصنیفات کا یک جہتی سے مطالعہ کر رہا ہے۔ چند شبہات ایسے واقع ہوئے کہ باوجود کافی حسن ظن کے دل میں بے حد خلجان پیدا کر رہے ہیں۔ عمائدین جماعت سے بالمشافہ کئی مرتبہ گفتگو ہوئی، لیکن بجائے ازالہ، اضافہ ہوتا رہا۔ انہی مخلصین کے مشورے سے یہ طے پایا کہ براہ راست جناب سے استفادہ کیا جائے، لہٰذا جناب کو تکلیف دی جاتی ہے کہ مسائل مندرجہ ذیل کا تشفی جواب تحریر فرما کر ممنون فرمائیں۔ اگر مناسب خیال فرمائیں تو ترجمان میں شائع فرما دیں، تاکہ فائدہ عام ہو جائے۔

۱۔ تفہیم القرآن جلد ۲، صفحہ ۱۷۴۔ ’’اس مقام پر یہ جان لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج ۸ ہجری میں قدیم طریقے پر ہوا، پھر ۹ ہجری میں دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشکرین نے اپنے طریقے پر، اس کے بعد تیسرا حج، ۱۰ ہجری میں خالص اسلامی طریقے پر ہوا‘‘.

۸ ہجری میں کون سے صحابہ کرام ؓ حج کو تشریف لے گئے؟ حج کی فرضیت کس سنہ میں ہوئی ؟ حج کی فرضیت کے ساتھ احکام نہ تھے؟ حضرت محمد ؐ نے عازمین حج کو کوئی ہدایات نہ دیں؟ ۹ ہجری میں صدیق ؓ کی زیر قیادت اسلامی طریقے کو چھوڑ کر اپنے طریقے پر کیسے حج کیا ؟ پھر حضرت محمد ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو غیر اسلامی طریق پر حج کرنے میں کوئی تنبیہ نہ فرمائی؟ قدیم طریقے میں ننگے طواف ہوتا تھا۔ کیا صحابہ ؓ نے بھی ایسا کیا؟ ہر ایک جزو کا تفصیلی جواب تحریر فرما دیں۔

۲۔ تفہیم القرآن جلد ۲ سورہ یونس میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہو گئی تھیں‘‘۔

کیا انبیا علیہم السلام معصوم نہیں ہوتے؟ خصوصاً فریضہ رسالت میں انبیا سے کوتاہی کیسے ممکن ہے۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ( 44 ) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ( 45 ) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (الحاقۃ:69, 44-46)فریضہ رسالت کی عدم کوتاہی میں تصریح نہیں کی؟ اگر نبی سے فریضہ رسالت میں بھی کوتاہی ہو سکتی ہے تو پھر دین خداوندی کا کیا بچ جاتا ہے؟ کیا یہ مضمون موہم ہتک انبیا نہیں؟

۳۔ ترجمان اکتوبر نومبر ۵۵ء میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ احکام منسوخہ پر اب بھی عمل جائز ہے، اگر معاشرے کو انہی ضروریات سے سابقہ ہو جائے۔ اگر احکام شارع نے منسوخ فرمائے ہیں تو پھر ان احکام کو مشروع کرنے والا کون سا شارع ہو گا؟ اگر ذی علم کو اس ترمیم و تنسیخ کا حق دیا جائے جب کہ اعجاب کل ذی رأی برأ یہ کا دور دورہ ہے تو کیا یہ تلعب بالدین نہ ہوگا؟ آیا احکام منسوخہ میں تعیم ہے یا تخصیص؟ محرمات اب پھر حلال ہوسکتے ہیں یا حلال شدہ احکامات اب پھر منسوخ ہوسکتے ہیں۔ مہربانی فرما کر وسعت سے بحث فرمادیں، کیوں کہ یہ بنیادی امور سے متعلق ہے۔

۴۔ترجمان ربیع الاول ۷۵ھ ’’حضرت آدم علیہ السلام جس جنت میں تھے، وہ زمین پر تھی‘‘۔

اگر جنت زمین پر تھی تو اِھْبِطُوْا کیوں فرمایا؟ اخرجوا زیادہ مناسب نہ تھا؟ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ(الاعراف7، 24) جب پہلے ہی زمین مستقر تھی تو دوبارہ استقرار کیا معنی؟ نیز جنت کا قرآنی تصور تو یہ ہے عَرْضُھَا السَّمٰوٰاتُ وَالْاَرْضُ۔ پھر اس کا تحقق فی الارض کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى ( 15 ) إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى (النجم:53، 15-16) کیا سدرۃ المنتہیٰ بھی زمین پر تھا؟ بالفرض اگر زمین پر جنت تھی تو اب کہاں ہے؟ کیوں نہ کسی طیارے سے ہم اُڑ کر وہاں پہنچ جائیں؟ اڑا دی گئی ہے تو کیوں اور کیا ثبوت؟

۵۔ تفہیمات جلد ۲، صفحہ ۴۳: ’’یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں ہو جانے دیں‘‘۔

کیا انبیا تمام معاصی سے معصوم نہیں؟ اگر نبی سے نبوت کے ہوتے ہوئے عصمت اٹھ سکتی ہے تو اس کی نبوت و تعلیمات پر کیسے کامل اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ ہر اہم مقام پر شبہ ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ وہی مقام ہو جہاں نبی سے عصمت اٹھ چکی ہو۔ اس کی کیسے حد بندی ہوگی؟ بالتفصیل بحث فرما دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

۶۔ تفہیم القرآن جلد ۱، صفحہ ۴۲۱ ’’پس جو چیز قرآن مجید کی روح سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی‘‘۔

کیا یہ مسئلہ قرآنی لحاظ سے مجمل ہے؟ مَاقَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوہ میں اگر قتل جسم کی تصریح ہے تو اسی جملے کے ایک جز رَفَعَہٗ میں کون سا اجمال آگیا؟ بصورت دیگر انتشار ضمائر لازم نہ آئے گا جو معیوب ہے؟ یہاں رفع جسم سے کون سا قرینہ مانع ہے جب کہ احادیث رفع جسمانی ہی روایت کر رہی ہیں تو یہاں کیوں رفع جسم مراد نہ ہو؟ پھر اجماع امت بھی اس پر منعقد ہو چکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ متفق علیہ مسئلے کو قرآن مجید کی روح کے لحاظ سے مجمل کہہ کر مشتبہ بنایا جائے؟ پھر الفاظ بھی ایسے مؤکد کہ قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت۔

۷۔ تفہیمات حصہ دوم صفحہ ۲۸۹۔ اقامت حدود میں وقت کے حالات اور ملزم کے حالات کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ زمانہ جنگ میں حد موقوف رکھی جاتی ہے۔ قحط کے زمانے میں چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جاتے۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب و سنت کی روشنی میں مدلل بیان فرما دیں۔ حضرت سعد کا واقعہ حدود اللہ کو توڑنے چھوڑنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ انہوں نے کتاب و سنت سے کوئی مستحکم دلیل بیان نہیں فرمائی ہے۔ اسی طرح عمرؓ کا حضرت حاطب ؓ کے غلاموں کو چھوڑ دینا اور حاطبؓ سے عوض دلوانا بھی نوعیت جرم کی بدلی ہوئی کیفیت پر دلالت کرتا ہے، ورنہ مجرموں کو چھوڑ کر غیر انسان سے عوض دلوانا کیا معنی؟ یقیناً حضرت عمر ؓ کے ذہن میں جرم کی نوعیت کچھ سرقہ کی سی نہ ہو گی بلکہ غصب کی سی ہو گی، جس کی ضمانت ان کے مولیٰ سے لی گئی۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے میں کتاب و سنت کے مستحکم دلائل بیان فرما کر مشکور کریں۔

۸۔ حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد ۱، صفحہ ۳۱۹ میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم علیہ السلام کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ حدیث بخاری خلقت من ضلع آدم کا کیا جواب ہو گا؟

۹۔ تفہیم القرآن جلد ۱، صفحہ ۸۳، کوہ طور کے اٹھائے جانے میں جناب نے محققین مفسرین سے کیوں اختلاف فرمایا ہے؟ اس قول میں کیا قباحت ہے؟ وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ الاعراف7، 171 میں لفظ نتق کس طرف اشارہ کر رہا ہے؟ پھر ظُلَّةٌ کیسے آپ کی تفسیر پر صادق آتا ہے، نیز جب کہ تلمود اور بائبل کی روایات بھی اسی قول کی تصدیق کر رہی ہیں۔ اسی طرح لفظ رفعنا اور پھر فوقکم کا صریح مفہوم بھی آپ کی تفسیر کا انکار کر رہا ہے۔ نیز اگر حقیقت رفع مقصود نہ تھی اور صرف تخیل رفع مقصود تھا تو اس کی تصریح سے کون سا امر مانع تھا جب کہ قرآن مجید کی عادۃ مستمرہ ایسی ہے کہ ایسے مقام پر صاف تصریح کر دیتا ہے۔ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلاً وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ الانفال8، 44 جب حقیقت قلت و کثرت مقصود نہ تھی تو واشگاف الفاظ میں بیان فرما دیا۔ اسی طرح آیت ہے يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (طٰہ20، 66)جب اجماع امت بھی اس پر منعقد ہو چکا تو کیا وجہ ہے کہ ایک متفق علیہ مسئلے کو مجمل کہہ کر مشتبہ بنایا جاوے۔ پھر الفاظ بھی ایسے مؤکد کہ قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت۔

۱۰۔ رسائل و مسائل جلد اول، صفحہ ۶۷، مہدی علیہ السلام پر بحث فرماتے ہوئے جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ جو مسئلہ بھی دین میں ایسی نوعیت رکھتا ہو، اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے ۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچی ہوئی آئی ہیں، جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز ثابت ہو سکتی ہے تو گمان صحت نہ علم یقین ۔ یہ قاعدہ کلیہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کیا اس سے خطرے میں نہیں پڑ جاتے؟ کیا تعدد رکعات و سجود و صلوٰۃ کی ہیئت کذائیہ جو قرآن میں مصرح نہیں، ان کے انکار سے کفر لازم نہ آئے گا؟

۱۱۔ آیت رجم کے متعلق جناب نے جو بحث ترجمان میں فرمائی ہے، آپ نے اس کے ثبوت میں تامل فرمایا ہے۔ حالاں کہ بخاری شریف میں نوکر اور سیدہ کے زنا کے معاملے میں لڑکے کے والد کا حضور ﷺ کو عرض کرنا، انْشَدُکَ بِاللہِ اِلاقَضَیْتُ بیننا بِکتابِ اللہ اور حضورؐ کا فرمانا، والذی نفسی بیدہ لَاَ قْضِیَنَّ بینکما بکتاب اللہ ان دونوں کے بعد کون سا اشتباہ رہ جاتا ہے؟ کیا حضورؐ کی قسم ہمارے یقین کے لیے ناکافی ہے؟ یا بخاری کی حدیث کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر فاروق اعظم ؓ کے خطبہ فکان مما اَنْزلَ اللہ آیۃَ الرَّجم فقرأناھا وَعَقَلْنْاھاوَوَعَیْنَاھا سے ہمیں یہ توقع ہوسکتی ہے کہ یوم الجمعہ مسجد میں فقہا صحابہ کی موجودگی میں کتاب اللہ و رسول اللہ پر افترا کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر نعوذ باللہ جو صحابہؓ موجود تھے، وہ سب حرارتِ ایمانی سے خالی ہو چکے تھے۔ ایک نے بھی نہ ٹوکا۔ جو ایک قمیص کے ٹکڑے پر حضرت عمر ؓ کو اسی منبر پر ٹوک سکتے ہیں کتاب اللہ پر افترا میں نہ ٹوک سکے یا قرآن سے ایک قمیص کا ٹکڑا زیادہ قیمتی تھا؟ آپ کا یہ فرمانا کہ عمر ؓ کے اس قول پر اجماع منعقد نہیں ہوا، اس لیے کہ سب صحابہ ؓ کی موجودگی یقینی نہیں، کیا صحابہ صلوٰۃ جمعہ سے غیر حاضری کرتے تھے؟ حضرت عبد الرحمانؓ کا یہ فرمانا: فانھا دارُالھجرۃِ والسُّنَّۃِ فتخلص باھلِ الفِقْہ واشرفِ الناس صاف تصریح نہیں؟ ان دنوں فقہائے مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔ بالفرض اگر تمام موجود نہ تھے، کیا موجود حضرات نے غیر موجود حضرات سے اس مسئلے کی تصدیق یا تکذیب کسی نے نہ کرائی؟ اگر واقعی صحابہ کا کتاب اللہ کے ساتھ یہی تساہل و تغافل رہا ہے اور کتاب اللہ میں کمی بیشی ہوتی رہی تو روا فض بالکل حق بجانب ہیں۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب و سنت سے مدلل بیان فرما دیں۔ حضورؐ کی قسم اور عمر ؓ کا تشدیدی خطبہ، حدیث بخاری کے مقابل کوئی قوی دلیل چاہیے۔ کسی مفسر و مجتہد کا قول مشکل سے مقابل ہو سکے گا۔

۱۲۔ ترجمان القرآن، ربیع الثانی ۷۵ھ میں جناب نے حضرت صدیق ؓ کی بندش کفالت مسطح کو غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا تھا۔ کیا صدیق ؓ کا نبوت سے صرف بیٹی ہی کا تعلق تھا؟ بالفرض اگر حضرت کے کسی دوسرے حرم پر یہ بہتان ہوتا تو کیا حضرت صدیقؓ کو غیرت نہ آتی؟ کیا وہاں اَلْحُبُّ للہ وَالْبُغْضُ فِی اللہ کا جذبہ کارفرما نہ تھا؟ لایَاتِلِ اَولُوا الْفَضْلِ سے استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیوں کہ یہاں صرف کفالت کا کھولنا نہایت نرم لہجے میں مقصود تھا۔ چنانچہ لفظ ِاُولْوا الْفَضْلِ وَالسَّعَۃ اور پھر ْالا تُحِبُّون اَن یَّغْفِرَ اللہ لَکُم سے ان کے پاکیزہ جذبات سے معافی کی اپیل ہے۔ اس میں عتاب کی بو بھی نہیں۔ اس کو وعید تصور کرنا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں کفالت کی طرف تعرض کیا گیا ہے۔ بندش کفالت کے اصل محرکات کو نہیں چھیڑا گیا، جس کو آپ نے غیر اسلامی حمیت سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر یہ محرکات غیر اسلامی ہوتے تو اَنْ یُّوْتُوَا اُولِی الْقُرْبٰی کے بجائے انہی محرکات کا آپریشن ہوتا، واللہ لا یستحی من الحق۔ منبع فساد کو چھوڑ کر شاخوں کا انسداد قرآن مجید کی حکیمانہ شان سے بعید ہے۔ کفالت تو ان الفاظ سے کھل گئی، لیکن یہ منبع فساد، غیر اسلامی حمیت تو ان کے دل میں ویسے ہی مستحکم رہی۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ کے متعلق اسی ترجمان ربیع الاول ۷۵ھ میں جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ غالباً یہی شخصی عظمت کا تخیل تھا جس نے اضطراری طور پر حضرت عمر ؓ کو تھوڑی دیر کے لیے مغلوب کردیا۔ کیا نبی کی شخصیت اور اس کی عظمت کا تخیل اسلام میں ممنوع ہے؟ ِواللہ لَا ئُومِنْ اَحَدْ کُمْ حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیہ … الحدیث کا کیا معنی؟ باقی رہا قانون ربانی کے مقابلے میں نبوت پرستی یا شخصیت پرستی تو محبوب دو عالم ﷺ کی زندگی میں تو عمرؓ شخصیت پرست نہ تھے۔ بعد از انتقال یہ شخصیت پرستی کہاں سے ان کے دل میں گھس گئی؟ اساریٰ بدر، صلح حدیبیہ، مسئلہ حجاب، رئیس المنافقین کا جنازہ وغیرہ لا تعداد واقعات موجود ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین مہدیین کے متعلق ہمیں کس حد تک سوء ظن جائز ہے؟۔ کیا ان حضرات کے افعال کی ان توجیہات کے علاوہ اور توجیہ نا ممکن تھی؟ اللہ اللہ فِیْ اَصْحَابِیِ لَا تَتُخِذُ وِھُمْ غَرَضًا مِن بعدی فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّی اَحَبَّھُمْ وَمَنْ اَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَہُمْ اور اَصْحَابِی کَالنَجُومِ بایھم اقتدیتم کا کیا مقصد ہوگا؟

۱۳۔ کیا آپ معصوم عن الخطا ہیں؟ اگر نہیں تو کیا آپ کے اجتہادات پر تنقید جائز ہے؟ اگر آپ تنقید سے بالاتر نہیں نو تنقید کرنے والے علما پر کیوں طعن کیا جاتا ہے؟ اگر اسلام کی تعلیمات کی تعبیر کا حق صرف جماعت کے علما کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو اسلامی علوم کو ترقی کے بجائے رکاوٹ نہ ہو گی؟ آمرانہ رجحانات ترقی پذیر نہ ہوں گے۔ کیا موجودہ اختلاف جب کہ دیانت داری پر مبنی ہو، اختلاف امتی رحمۃ نہ ہو گا؟ انہی اختلافات میں مختلف ذہنی صلاحیتوں کے جواہر منظر عام پر نہ آجائیں گے جن سے امت کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور رہے گا؟

۱۴۔ کیا صحابہ کرامؓ پر تنقید جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو حدیث اللہ اللہ فی اصحابی اور اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کا کیا جواب ہوگا؟

جواب: آپ کے سوالات کا جواب دینے سے پہلے یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری تحریروں کے متعلق جو شکوک اور شبہات بعض لوگ جان بوجھ کر دلوں میں ڈال رہے ہیں، ان کو صاف کرنے کے لیے میری طرف رجوع کرنا بلا شبہ ایک درست طریقہ ہے ، مگر تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ پہلے خود بھی تحقیق کی کوشش کر لیا کریں، تاکہ جس الجھن کو وہ تھوڑا سا وقت صرف کر کے خود رفع کر سکتے ہوں، اس کے لیے خواہ مخواہ خط و کتابت کی زحمت میں نہ پڑیں۔ اصحاب فتنہ کے لیے تو اب کوئی کام کرنے کا اس کے سوا باقی نہیں رہا ہے کہ وہ میری تحریروں میں کیڑے چنتے پھریں اور جگہ جگہ انہیں پھیلا کر لوگوں کے دماغوں میں الجھنیں پیدا کریں، مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر بس ان الجھنوں کو صاف کرنے میں لگا رہوں جو ان حضرات نے پیدا کی ہیں۔ آپ براہ کرم خود غور کریں کہ ان حضرات کی انگیخت سے ۱۴ سوالات تو تنہا آپ نے فرمائے ہیں اور ایسے سوالات کرنے والے آپ اکیلے نہیں ہیں، پاکستان اور ہندوستان کے ہر گوشے سے اس طرح کے سوالات آئے دن میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ سارے برعظیم میں فتنہ پردازوں کا ایک پورا طائفہ ان سوالات کی فصل بونے میں لگا ہوا ہے۔ اب کیا آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح یہ حضرات اپنی عمر عزیز اس فضول کام میں ضائع کر رہے ہیں، اسی طرح میں بھی ان کے پیدا کردہ سوالات کی جواب دہی میں اپنی عمرعزیز ضائع کردوں؟

اب آپ کے سوالات کا جواب سلسلہ وار حاضر ہے:

فرضیت حج کی تاریخ

۱۔ اس عبارت کا منشا سمجھنے میں آپ کو کسی قسم کی دقت پیش نہ آتی، اگر معترضین نے آپ کے دل کو شک و شبہ کی بیماری نہ لگا دی ہوتی، اور آپ خود بھی کچھ عقل سے کام لیتے۔ عبارت یہ ہے کہ ’’فتح مکہ کے بعد پہلا حج ۸ ہجری میں قدیم طریقے پر ہوا‘‘۔ اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے یہ حج قدیم طریقے پر کیا؟ پھر وہ سوالات جو اس عبارت پر آپ نے کیے ہیں، آخر کہاں سے پیدا ہوگئے؟ آپ سیرت پاکؐ کے موضوع پر کوئی کتاب اٹھا کر بھی دیکھ لیتے تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ مکہ معظمہ رمضان ۸ ہجری میں فتح ہوا۔ دوسرے ہی مہینے حنین اور طائف کے معرکے پیش آئے جن سے ذی القعدہ ۸ ہجری کے وسط میں حضور پاک ؐ فارغ ہوئے اور عمرہ کرکے حج کیے بغیر اپنے اصحاب کے ساتھ مدینے واپس تشریف لے گئے۔ اس وقت یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حج کے قدیم طریقے کو جو صدیوں سے زمانہ جاہلیت میں رواج پا چکا تھا، اور جس کے مطابق حج کرنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں مشرکین مکہ میں جمع ہوچکے تھے یا عنقریب جمع ہونے والے تھے، یک لخت بدل ڈالا جاتا۔ اگر اس وقت ایسا کیا جاتا تو حنین کے معرکے سے کئی گنا زیادہ شدید معرکہ مسجد الحرام کی حدود میں پیش آجاتا۔ اس لیے اس سال جاہلیت کے طریقوں سے کوئی تعرض نہ کیا گیا اور حج جس طرح پہلے ہوتا تھا، اسی طرح ہونے دیا گیا۔

دوسرے سال ۹ ہجری میں آپ ؐ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ کو حج کے موقع پر بھیجا اور اعلان کردیا کہ:

لَایَحُجَّنَّ بعد عامِنا ھذا مُشْرِکُ لا یُطْوفَنَّ بالبیتِ عُرْیانٌ۔

’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرنے پائے اور نہ کوئی شخص برہنہ طواف کرے‘‘۔

یہ اعلان قرآن مجید کے اس حکم کی بنیاد پر تھا کہ:
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا۔(التوبہ:
۲۸)

’’مشرکین تو نجس ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں‘‘۔

تیسرے سال ۱۰ ہجری میں اس حکم کی تعمیل کی گئی اور نبی ﷺ نے خود تشریف لے جا کر حج کے خالص اسلامی طریقے کو ہمیشہ کے لیے قائم فرما دیا۔

آپ کا یہ سوال کہ حج کس سال فرض ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محققین کے نزدیک وہ ۹ ہجری یا ۱۰ ہجری کے آغاز میں فرض ہوا ہے، اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ صحیحین میں بنی عبد القیس کے وفد کی حاضری کا جو قصہ آیا ہے، اس میں نبی ؐ نے ارکان اسلام بیان کرتے ہوئے صرف چار ارکان کا ذکر فرمایا ہے، حج کا ذکر نہیں فرمایا۔ یہ وفد بالاتفاق ۹ ہجری میں غزوہ تبوک کے بعد حاضر ہوا تھا (زاد المعاد، جلد اوّل صفحہ۲۴۶، جلد دوم صفحہ ۳۹۔۳۴ ) لیکن چوں کہ اس سال جاہلیت کے رواج نسی کی وجہ سے حج ذی القعدہ میں پڑتا تھا، اور مشرکین کے ساتھ حج کرنا بھی نبیﷺ کے شایان شان نہ تھا۔ اس لیے آپ ؐ خود حج کے لیے تشریف نہ لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ کو بھیجا تاکہ جاہلیت کے طریقوں کی تنسیخ کا اعلان فرمادیں۔ حج کے اسلامی احکام کی تشریح و توضیح اور عملی تعلیم ۱۰ ہجری میں حجتہ الوداع کے موقع پر ہی ہوئی ہے۔

فریضہ رسالت اور حضرت یونس علیہ السلام

۲۔ اس اعتراض کا جواب خود دینے کے بجائے میں قرآن ہی سے دلوانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ قرآن مجید میں چار مقامات پر حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ آیا ہے۔ براہ کرم ان سب کو پڑھ لیجیے۔ سورہ یونس میں ہے:

فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّآ آمَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْيِ فِي الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (یونس10، 98)

’’پس کیوں نہ ہوئی کوئی ایسی بستی جو (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نافع ہواہو؟ سوائے یونس کی قوم کے کہ جب وہ لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوائی کا عذاب ہٹادیا اور ان کو ایک وقت خاص تک سامان زندگی دیا‘‘۔

سورہ انبیا میں ہے:
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (انبیاء21، 87)

’’اور یاد کرو مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو جب کہ وہ خفا ہو کر چل دیا اور سمجھا کہ (ان کے چلے جانے پر) ہم گرفت نہ کریں گے۔ پس وہ پکار اٹھا تاریکیوں میں کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں، تو بے عیب ہے۔ بے شک میں قصوروار ہوں‘‘۔

سورہ صافات میں ہے:

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (139) إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (140) فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنْ الْمُدْحَضِينَ (141) فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ (142) فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ (143) (صافات37، 139-144)

’’اور بے شک یونس رسولوں میں سے تھا۔ جس وقت بھاگ گیا وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف ، تو قرعہ ڈالنے میں (اہل کشتی کے ساتھ) شریک ہوا اور وہی ملزم ٹھہرا۔ پھر نگل لیا اس کو مچھلی نے اور وہ ملامت میں پڑا ہوا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تسبیح کرنے والوں میں سے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہ جاتا‘‘۔

سورہ قلم میں ہے:
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ ( 48 ) لَوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاء وَهُوَ مَذْمُومٌ ( 49 ) (القلم68، 48-49)

’’پس اے محمدؐ! صبر کے ساتھ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرو اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جاؤ جب کہ اس نے پکارا اور وہ غم سے گھٹ رہا تھا۔ اگر اس کے رب کے احسان نے اس کی دست گیری نہ کی ہوتی تو پھینک دیا جاتا چٹیل میدان میں اور وہ رہتا ملامت زدہ‘‘۔

یہ آیات صاف بتا رہی ہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام سے کوئی نہ کوئی قصور ضرور سرزد ہوا تھا، جس پر انہیں مچھلی کے پیٹ میں پہنچا دیا گیا اور وہ قصور بے صبری کی نوعیت کا تھا۔ نیز ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم سے ناراض ہو کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر رسالت چھوڑ کر گئے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وہ خاص رعایت فرمائی جو کبھی کسی قوم کے ساتھ نہ فرمائی گئی تھی، یعنی یہ کہ عذاب دیکھ لینے کے بعد جب وہ ایمان لے آئی تو اسے معاف کر دیا گیا۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت ہے کہ عذاب آتے دیکھ کر ایمان لانا کسی کے لیے نافع نہیں ہوتا، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ہی بیان ہے۔ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی میں نے اپنی طرف سے نہیں کی ہے۔ اب اس پر آپ کو یا اور کسی کو اعتراض ہو تو یہ اعتراض مجھ پر نہیں، قرآن اور اس کے بھیجنے والے خدا پر ہے، اور اس کا جواب اسی کے ذمہ ہے۔ آپ کا یہ ارشاد کہ ’’کیا یہ مضمون موہم ہتک انبیا نہیں ہے‘‘، اس مفروضہ پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کی عزت کا خیال آپ کو ان کے بھیجنے والے خدا سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو جو مضمون اللہ نے خود اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے، اس کو موجب ہتک یا موہم ہتک قرار دینے کی اور کیا توجیہ آپ کرسکتے ہیں؟۔

منسوخ احکام پر عمل:

۳۔ اس مضمون کا حوالہ آپ نے غلط دیا ہے۔ اول تو اکتوبر، نومبر ۵۵ھ کا کوئی یکجائی نمبر شائع نہیں ہوا تھا۔ دوسرے یہ مضمون نہ اکتوبر کے پرچے میں ہے، نہ نومبر کے پرچے میں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص سے آپ نے یہ اعتراض سن کر اپنی فہرست میں درج فرمالیا ہے، اسے خود صحیح حوالہ معلوم نہ ہو گا۔ دراصل یہ مضمون رسائل و مسائل حصہ دوم میں صفحہ ۱۱۵ پر درج ہے۔ وہاں اس شبہ کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو نسخ کا مسئلہ سن کر ایک عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جن آیات کا حکم منسوخ ہوچکا ہے، ان کی قرآن میں اب کیا ضرورت ہے؟ کیوں نہ ان کی تلاوت بھی منسوخ ہوگئی؟ اس کو رفع کرنے کے لیے میں نے قرآن مجید میں ان احکام کے باقی رہنے کی حکمت یہ بتائی ہے کہ اگر معاشرے میں کبھی ہم کو پھر ان حالات سے سابقہ پیش آجائے جن میں وہ احکام دیے گئے تھے تو ہم ان پر عمل کرسکتے ہیں۔ مثلاً کسی ملک میں مسلمان اس طرح کے حالات سے دو چار ہوں جو مکی زندگی میں نبیؐ اور آپ کے اصحاب کو پیش آئے تھے، تو مکی دور کی تعلیم صبرو تحمل پر عمل کیا جائے نہ کہ مدنی دور کی تعلیم جہاد و قتال پر، حالاں کہ بیشتر مفسرین نے احکام قتال سے مکی دور کی ان آیات کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس حالت میں مسلمان ان بہت سے احکام و قوانین کی پابندی سے معاف رکھے جائیں گے جو مدنی دور میں نازل ہوئے اور جن پر عمل درآمد اسلامی حکومت کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ آپ کا یہ سوال کہ منسوخ شدہ احکام کو پھر سے مشروع کون سا شارع کرے گا، تنہا میری طرف راجع نہیں ہوتا بلکہ ان تمام علما کی طرف راجع ہوتا ہے جو ابھی چند سال پہلے تک انگریزی دور میں مکی آیات سے قومی طرز عمل کے لیے رہنمائی حاصل کرتے تھے اور مدنی دور کے احکام جنگ اور حدود اللہ کے اجرا کو ملتوی قرار دیتے تھے۔

جنت کا محل وقوع:

۴۔ آپ کے اس اعتراض کا جواب ترجمان القرآن کے اسی پرچے میں موجود ہے، جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔ اگر آپ نے ربیع الاول ۷۵ھ کا ترجمان خود ملاحظہ فرمایا تھا جیسا کہ آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے تو ضرور وہ جواب آپ کی نظر سے گزرا ہوگا۔ اس کے بعد یہ اعتراض دور کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ گئی۔
اس سلسلے میں جو سوالات آپ نے کیے ہیں، اگرچہ ان سب کے جوابات ممکن ہیں۔ لیکن میں اس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہوں، اس لیے قصداً انہیں نظر انداز کرتا ہوں۔ آدم علیہ السلام جس جنت میں رکھے گئے، اس کی جائے وقوع کا مسئلہ اسلام میں کوئی بنیادی تو درکنار فروعی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص محض قرآن کو سمجھنے کی کوشش میں اس کے متعلق کسی خیال کا اظہار کرے تو زیادہ سے زیادہ اس سے اتنا ہی تعرض کیا جاسکتا ہے کہ اس کی رائے کو آپ پسند کریں تو قبول کرلیں، نہ پسند کریں تو رد کردیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر مسئلہ پہلے ردو کد اور بحث و مناظرے کا موضوع بنتا ہے اور پھر یہی ردو کد اس کو ایک اعتقادی مسئلہ بنا کر رکھ دیتی ہے، جس پر دو فریق ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آراء ہوجاتے ہیں، اور جب تک فریقین کے نکاح نہ ٹوٹ جائیں، معاملہ ختم نہیں ہوتا، اس مصیبت سے نجات پانے کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ پہلے ہی مرحلے پر سوال و جواب کا سلسلہ توڑ دیا جائے، آپ کا اطمینان جس بات پر نہیں ہوتا، اسے آپ قطعاً نہ مانیے، مگر بے فائدہ بحث کی آخر کیا ضرورت ہے۔

عصمت انبیا:

۵۔ انبیا علیہم السلام کی عصمت بلا شبہ ایک بنیادی چیز ہے اور ہم، آپ، سب سے بڑھ کر ان کے بھیجنے والے خدا نے اس امر کا اہتمام فرمایا ہے کہ ان کا اعتماد قائم ہو۔ لیکن اسی خدا نے اپنی کتاب پاک میں متعدد انبیا کی ایسی لغزشوں کا بھی ذکر کیا ہے جن پر گرفت یا تنبیہ کی گئی اور اس کے ساتھ وہی خدا اپنی کتاب میں ہم کو یہ اطمینان بھی دلاتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کو کبھی چھوٹی سے چھوٹی لغزش پر بھی قائم نہیں رہنے دیا گیا، بلکہ بروقت اس کی اصلاح کردی گئی۔ یہ حقیقت اگر آپ کے پیش نظر ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان لغزشوں کے ذکر سے حضرات انبیا کے اعتماد میں ذرہ برابر بھی خلل واقع نہیں ہوتا، البتہ اس سے خدا اور بندے کا فرق اچھی طرح کھل جاتا ہے اور اس خطرے کا امکان باقی نہیں رہتا کہ ان برگزیدہ شخصیتوں کی طرف کوئی شخص الوہیت کی صفات منسوب کرنے لگے۔

اس اعتراض کا جواب دسمبر ۵۵ء کے ترجمان القرآن میں صفحہ ۲۸۰ پر دیا جا چکا ہے۔

اقامت حدود میں احوال کا لحاظ:

۷۔ اس بحث کو اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں تو علامہ ابن قیمؒ کی کتاب اعلام الموقعین میں ِفَصْلَ فِیْ تَغَیِرِّ الْفَتْویٰ وَاِخْتِلَافِھا بِحَسْبِ تَغَیّرِ الْاَزْمِنَۃِ وَالْاَمْکِنَۃِ وَالْاَحْوَالِ وَالنِّیَّاتِ الْعَوائِد کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں انہوں نے احادیث و آثار سے بکثرت مثالیں اس امر کے ثبوت میں جمع کی ہیں کہ واقعات و حوادث پر اسلامی احکام کو آنکھیں بند کرکے چسپاں نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے زمانے اور مقام اور اشخاص متعلقہ کے انفرادی حالات اور دوسری بہت سی چیزوں کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ آپ نے میری پیش کردہ جن مثالوں پر گرفت فرمائی ہے، ان سب پر اور ان کے علاوہ متعدد دوسری مثالوں پر بھی علامہ موصوف نے مفصل بحث کی ہے۔

حضرت حوا کی پیدائش:

۸۔ قرآن مجید میں کسی بھی جگہ یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اس خیال کی تائید میں جو چیز پیش کی جاسکتی ہے، وہ قرآن مجید کا یہ ارشاد ہے:
خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (النساء4:1)
اور جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (الزمر6:39)

لیکن ان دونوں آیتوں میں منھا کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ’’اسی نفس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ اور یہ بھی کہ ’’اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘۔ ان دونوں میں سے کسی معنی کو بھی ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل قرآن مجید کی ان آیتوں میں نہیں ہے۔ بلکہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیتیں تو دوسرے معنی کی تائید کرتی ہیں۔ مثلاً سورہ روم میں فرمایا:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا (21:30)

یہی مضمون سورہ نحل آیت ۷۲ میں بھی آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں آیتوں میں من أَنفُسِكُمْ کے معنی من جِنْسِکُم ہی لیے جائیں گے، نہ یہ کہ تمام انسانوں کی بیویاں ان کی پسلیوں سے پیدا ہوئی ہیں۔ اب اگر پہلے معنی کو ترجیح دینے کے لیے کوئی بنیاد مل سکتی ہے تو وہ حضرت ابوہریرہؓ کی وہ روایات ہیں جو بخاری و مسلم نے نقل کی ہیں۔ مگر ان کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں وہ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ان الفاظ میں نقل فرماتے ہیں کہ:

اَلَمَرْأَۃُ کَالضِّلْعِ اِنْ اَقَمْتَھَا کَسَرْتَھَا وَاِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِھا اِسْتَمْتَعْتَ بِھَاَ وفِیْھَا عِوَجٌ۔

’’عورت پسلی کی مانند ہے اگر تو اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس سے فائدہ اٹھائے گا تو اس کے اندر کجی باقی رہتے ہوئے ہی فائدہ اٹھاسکے گا۔ اور دوسری روایت میں انہوں نے حضور ؐ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:

اِسْتَوْصُوْا بِالنِّساءِ خَیرًا فَاِنَّھُنَّ خُلِقْنَ مِن ضِلَعٍ وان اَعْوَجَ شئیٌ الضِّلَعِ اَعْلَاہٗ ذَھَبْتَ تُقِیْمَہ کَسَرْتَہٗ وَاِنْ تَرَکْتَہ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجَ فَاسْتَوصُوْا بِالنساءِ خَیْرًا۔

’’عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی نصیحت قبول کرو، کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، لہٰذا عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی نصیحت قبول کرو‘‘۔

ان دونوں حدیثوں میں سے پہلی حدیث تو عورت کو پسلی سے محض تشبیہ دے رہی ہے۔ اس میں سرے سے یہ ذکر ہی نہیں ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ البتہ دوسری حدیث میں پسلی سے پیدائش کی تصریح ہے۔ لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ اس میں حضرت حوا یا پہلی عورت یا ایک عورت کی نہیں بلکہ تمام عورتوں کی پیدائش پسلی سے بیان کی گئی ہے۔1؎ کیا فی الواقع دنیا کی تمام عورتیں پسلیوں ہی سے پیدا ہوا کرتی ہیں؟ اگر یہ بات نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہاں خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ کے الفاظ اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی یا بنائی گئی ہیں، بلکہ اس معنی میں ہیں کہ ان کی ساخت میں پسلی کی سی کجی ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید کی یہ آیت ہے کہ خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ اس کے معنی بھی یہ نہیں ہیں کہ انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، بلکہ یہ ہیں کہ انسان کی سرشت میں جلد بازی ہے۔

1 یہ الفاظ بخاری، کتاب النکاح والی روایت کے ہیں۔ دوسری روایت جو امام بخاری نے کتاب احادیث الانبیاء میں نقل کی ہے، اس کے الفاظ ہیں: “فان المراۃ خلقت من ضلع” کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے”۔ اس صورت میں المرأۃ سے مراد ہر عورت، اور عورتوں کی پوری صنف ہوگی نہ کہ وہ ایک خاص عورت جو دنیا میں سب سے پہلے پیدا کی گئی۔ اس سلسلے میں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ سائل نے بخاری کے حوالے سے خلقت من ضلع آدم کے الفاظ نقل کیے ہیں حالاں کہ بخاری میں کسی جگہ بھی یہ الفاظ نہیں آئے ہیں۔

اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پسلی سے حضرت حوا کی پیدائش کا خیال قرآن ہی میں نہیں، حدیث میں بھی کسی مضبوط دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ بنی اسرائیل سے یہ روایت نقل ہو کر مسلمانوں میں شائع ہوئی اور بڑے بڑے لوگوں نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اپنی کتابوں میں بھی ثبت کر دیا۔ مگر کیا یہ صحیح ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کی سند کے بغیر محض بڑے لوگوں کے اقوال کی بنا پر اسے ایک اسلامی عقیدہ ٹھہرا دیا جائے اور جو کوئی اس پر ایمان نہ لائے، اسے گمراہ قرار دیا جائے۔

رفع طور کی مزید تشریح:

۹۔ رفع طور کے بارے میں جو کچھ میں نے تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۸۳ پر اور جلد دوم میں صفحہ ۹۵ پر ترجمہ و تشریح میں لکھا ہے، اس کو پھر غور سے پڑھیے۔ اس میں کہیں بھی پہاڑ کے اٹھائے جانے سے انکار نہیں ہے۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ اسے اٹھائے جانے کی تفصیلی کیفیت متعین کرنا مشکل ہے۔ پہاڑ کے اٹھائے جانے کی صورت یہ ہے کہ پورا پہاڑ زمین سے نکال کر اوپر اٹھا لیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پہاڑ کی جڑ اکھاڑ کر اسے ایک جانب اس طرح جھکا دیا جائے کہ وہ اپنے دامن میں کھڑے ہو کر لوگوں پر چھا جائے اور انہیں یوں محسوس ہو کہ گویا اب وہ ان پر اوندھ جائے گا۔ سورہ بقرہ کے الفاظ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ سے پہلا مفہوم ذہن میں متبادر ہوتا ہے اور سورہ اعراف کے الفاظ وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّواْ أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ 171:7 دوسرے مفہوم کی طرف ذہن کو لے جاتے ہیں۔ نتق کے معنی کسی کو اکھاڑنے اور جھڑجھڑانے کے ہیں۔ قاموس میں ہے: نتقہ، زعزعہ، ونفصہ۔ مفردات امام راغب میں ہے: نتق الشی جذبہ و نزعہ حتٰی یسترخی۔ اساس البلاغہ میں ہے: نتق البعیر الرحل، زعزعہٗ و نتق اللہ الجبل رفعہٗ مزعزعًا فوقھم۔ اسی بنا پر میرا خیال یہ ہے کہ واقعہ کی ان دونوں ممکن صورتوں میں سے کسی ایک کی تعیین جزم کے ساتھ نہیں کی جاسکتی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان دونوں صورتوں کو یکساں ممکن تسلیم کرتا ہو اور کسی ایک کی تعیین میں توقف کرے تو وہ آخر کس جرم کا مرتکب ہے جس پر اتنی لے دے کی جائے؟ اس پر مزید قابل افسوس بات یہ ہے کہ لوگ جس چیز پر لے دے کرتے ہیں، اس کو میری اصل کتاب میں نکال کر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں اٹھاتے اور محض سنی سنائی روایات پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ آپ کا یہ فقرہ کہ ’’کیا وجہ ہے کہ ایک متفق علیہ مسئلے کو مجمل کہہ کر مشتبہ بنایا جاوے۔ پھر الفاظ بھی ایسے موکد کہ قرآن مجید کی روح سے زیادہ مطابقت‘‘ صاف غمازی کر رہا ہے کہ آپ نے تفہیم القرآن کی وہ عبارت خود نکال کر نہیں پڑھی جس پر آپ نے اس قدر شدت کے ساتھ گرفت فرمائی ہے۔ کیوں کہ اس میں کہیں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ یہ مجمل مفہوم جو میں بیان کر رہا ہوں، یہ قرآن مجید کی روح سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ اس غیر محتاط طریق گرفت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ آپ اپنی تفسیر رفع کے حق میں بے تکلف بائبل کا حوالہ دے رہے ہیں حالاں کہ اس واقعہ کے متعلق بائبل کی عبارت میں نے تفہیم القرآن جلد دوم میں صفحہ ۹۵ پر لفظ بہ لفظ نقل کردی ہے اور وہ آپ کے بیان کے بالکل خلاف ہے۔ رہی تلمود، تو اگر وہ آپ کی نظر سے گزری ہو تو براہ کرم اس کی عبارت کا حوالہ مجھے ضرور بھیج دیں۔

کیا خبر واحد و غیر متواتر مدار کفرو ایمان ہے؟

۱۰۔ آپ نے اس سوال میں بھی میری پوری بات نقل نہیں کی ہے بلکہ اس میں سے صرف ایک ٹکڑا نکال لیا ہے۔ براہ کرم میری عبارت جو رسائل و مسائل جلد اول میں صفحہ ۶۶ سے ۶۸ تک ہے، بغور پڑھیے اور اس کے بعد فقہ حنفی کے نامور امام شمس الائمہ سرخسی کی حسب ذیل عبارات ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اصول السرخسی میں اسی موضوع کے متعلق لکھی ہیں۔ شاید کہ اس کے بعد آپ کو اطمینان ہو جائے کہ جو اصولی بات میں نے لکھی ہے، وہ میری اپنی گھڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ سلف سے مسلم چلی آ رہی ہے۔ امام موصوف خبر واحد کے متعلق لکھتے ہیں:

’’خبر واحد علم یقین کی موجب نہیں ہوتی، کیوں کہ اس میں راوی کی غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ البتہ وہ راوی کے ساتھ حسن ظن کی بنا پر اور اس بنا پر کہ اس کی عدالت کا حال معلوم ہونے کی وجہ سے اس کے صدق کا پہلو راجح ہوجاتا ہے، ایک ایسی دلیل ضرور قرار پاتی ہے جس کے مطابق عمل کرنا واجب ہوتا ہے، پس اس قسم کی خبر کا حکم اس کی دلیل کی طاقت کے لحاظ سے ثابت ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کے انکار کرنے والے کی تکفیر نہیں کی جا سکتی کیوں کہ اس کی دلیل موجب علم یقین نہیں ہے، اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی دلیل موجب عمل ہے اور اس کا منکر اگر تاویل کی بنا پر انکار نہیں کرتا بلکہ بجائے خود خبر واحد ہی کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو اسے گمراہ قرار دیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ خبر واحد کے مطابق عمل کرنے کو واجب مانتے ہوئے تاویل کی بنا پر کسی خبر کو رد کر دے تو اسے گمراہ نہیں قرار دیا جا سکتا‘‘۔ (جلد اول، صفحہ ۱۱۲)

پھر وہ خبر متواتر کے متعلق فرماتے ہیں:

’’اس کی تعریف یہ ہے کہ اسے اتنے کثیر التعداد لوگوں نے نقل کیا ہو کہ اتنے بہت سے آدمیوں اور مختلف علاقوں کے رہنے والے آدمیوں کے کسی جھوٹی بات پر متفق ہو جانے کا تصور نہ کیا جا سکتا ہو اور ان کی یہ کثرت ہمارے زمانے سے لے کر رسولؐ اللہ تک متصلاً ہر دور میں پائی جاتی ہو۔ نمازوں کی تعداد اور نماز کی رکعات کی تعداد اور زکوٰۃ اور خون بہا کی مقداریں، اور ایسی ہی دوسری خبریں اسکی مثالیں ہیں … پس جب مختلف علاقوں کے رہنے والے راویوں کی کثرت تعداد کو دیکھتے ہوئے تہمت اختراع کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی ہو تو اس طرح کی خبر گویا ایسی ہی ہے جیسے ہم خود رسول اللہ ﷺ سے اس کو سن رہے ہیں، اور یہ چیز جمہور فقہا کے نزدیک موجب علم یقین ہے‘‘۔ (جلد اول، صفحہ ۲۸۲ تا ۲۸۳)

اس کے بعد وہ اس خبر کو لیتے ہیں جو اپنی اصل کے اعتبار سے تو اخبار آحاد کی قسم میں داخل ہو، لیکن بہت سی روایتوں میں ایک مشترک معنی پائے جانے کی وجہ سے وہ مشترک معنی تواتر کے درجے میں آگیا ہو۔ اصطلاح میں ایسی خبر کو خبر مشہور کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں علما کے اختلافات کا ذکر کرنے کے بعد امام سرخسی جس قول کو ترجیح دیتے ہیں، وہ یہ ہے:

’’عیسیٰ بن ابانؒ نے بیان کیا ہے کہ اس قسم کی خبریں تین اقسام پر منقسم ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس کا انکار کرنے والے کو گمراہ کہا جا سکتا ہے، مگر کافر نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً وہ خبر جس کی رو سے زانی محصن کی سزا رجم ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کے منکر کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا البتہ خطا کار کہا جا سکتا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ وہ گناہ گار ہو، مثلاً مسح علی الخفین کی خبر، اور ایک ہی جنس کے دست بدست لین دین میں تفاضل کے حرام ہونے کی خبر۔ اور تیسری قسم وہ ہے جس کے منکر کے گناہ گار ہونے کا خطرہ تو نہیں ہے مگر اس کی رائے کو غلط ٹھہرایا جاسکتا ہے اور اس قسم میں باب احکام کی وہ بہت سی خبریں شامل ہیں جن کے قبول اور رد کرنے میں فقہا کے درمیان اختلافات ہیں‘‘۔ (جلد اول، صفحہ ۲۹۳)

اس بحث کو آپ غور سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مدار کفر و ایمان اگر ہو سکتے ہیں تو صرف وہ امور ہوسکتے ہیں جو کسی یقینی ذریعہ علم سے ہم کو نبی ﷺ سے پہنچے ہوں اور وہ ذریعہ یا تو قرآن ہے یا پھر نقل متواتر، جس کی شرائط امام سرخسی نے واضح طور پر بیان کردی ہیں۔ باقی جو چیزیں اخبار آحاد یا روایات مشہورہ سے نقل کی ہوئی ہوں، وہ اپنی اپنی دلیل کی قوت کے مطابق اہمیت رکھتی ہیں، مگر ان میں سے کسی کی بھی یہ اہمیت نہیں ہے کہ اسے ایمانیات میں داخل کر دیا جائے اور اس کے نہ ماننے والے کو کافر ٹھہرایا جائے۔ مہدی علیہ السلام کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں، ان کو اگر محدثانہ طریق پر جانچا جائے تو ان کا وہ مرتبہ نہیں ٹھہرتا جو مسح علی الخفین اور ربو الفضل کی روایات کا ہے۔

آیت رجم پر مزید بحث:

۱۱۔آپ کا یہ اعتراض میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ترجمان القرآن ماہ نومبر ۵۵ء میں میری وہ بحث پوری طرح پڑھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی جس پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں۔ بخاری کی جس حدیث کا آپ ذکر کر رہے ہیں، اس کی تاویل میں نے پوری وضاحت کے ساتھ اپنے فقرہ نمبر ۶ میں کی ہے جو مذکورہ بالا رسالے میں صفحہ ۵۸، ۵۹ پر درج ہے۔ اس کو پڑھ کر دیکھئے۔ پھر بتائیے کہ اس اعتراض کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے جو آپ نے کیا ہے؟ رہا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تقریر کا معاملہ، تو اس پر میں نے خود اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہے۔ ہدایہ کے مشہور شارح علامہ ابن ہمام کی جو عبارت مشہور مفسر قرآن علامہ آلوسی نے ’’روح المعانی‘‘ میں نقل کی تھی، اس کا صرف ترجمہ کر دیا ہے لیکن آپ کے نزدیک قصوروار پھر بھی میں ہی رہا۔ ان دونوں بزرگوں کو خطاب کر کے آپ نے کچھ نہ فرمایا۔ اس سلسلے میں آپ کے مزید اطمینان کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اسی خطبے میں حضرت عمر ؓ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ :

وَالرَّجُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ حَقٌ عَلٰی مَنْ زَنٰی اِذَا اَحْصَنَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ اِذَا قَامَتِ الْبِیِنَّۃُ اَوْکَانَ الْحَمْلُ اَوِالْاعْتِرافُ۔

’’کتاب اللہ میں رجم حق ہے، اس مرد و عورت پر جو احصان کے بعد زنا کرے جب کہ اس پر یا تو شہادت قائم ہوجائے یا حمل پایا جائے یا وہ خود اعتراف کرے‘‘۔

اس خطبے کا یہ ٹکڑا کہ حمل بجائے خود سزائے رجم کے لیے کافی ثبوت ہے، جمہور فقہا نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ علامہ شوکانی ’’نیل الاوطار‘‘ میں اس کے متعلق لکھتے ہیں:

’’جمہور اس طرف گئے ہیں کہ مجرد حمل سے حد ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے یا تو شہادت زنا ہونا ضروری ہے یا پھر اعتراف، اور اس رائے کے حق میں وہ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو شبہات میں حد جاری کرنے سے منع کرتی ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یہ حضرت عمر ؓ کا قول ہے اور اس کی دلیل پر اتنا بڑا حکم ثابت نہیں ہو سکتا جو ہلاکت نفوس تک نوبت پہنچاتا ہو۔ رہی یہ بات کہ حضرت عمرؓ نے یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے مجمع میں بیان کیا تھا اور اس پر کسی نے انکار نہ کیا، تو یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیوں کہ سامعین کے انکار نہ کرنے سے اجماع لازم نہیں آتا‘‘۔ (جلد ۷، صفحہ ۸۸)

صریح بہتان کا ایک نمونہ:

۱۲۔ آپ کا یہ اعتراض دراصل اعتراض نہیں ہے بلکہ صریح بہتان ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات آپ نے میری اصل تحریر پڑھے بغیر محض سنی سنائی تہمتوں پر یقین کر کے اپنے اعتراض نامے میں درج کر دی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بندش کفالت مسطح کا قصہ ربیع الثانی ۷۵ھ کے ترجمان القرآن، جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، سرے سے درج ہی نہیں ہے۔ اس کا ذکر جمادی الاولیٰ ۷۵ھ کے ترجمان میں آیا ہے اور اس کے اندر میں نے کہیں اشارۃً و کنایۃً بھی یہ بات نہیں لکھی ہے کہ حضرت صدیق ؓ کا یہ فعل غیر اسلامی حمیت پر مبنی تھا۔ آپ مذکورہ بالا رسالے میں صفحہ ۳۰۷ کی پوری عبارت پڑھ کر بتائیں کہ یہ بات کہاں لکھی گئی ہے؟ پھر اس میں یہ کہاں لکھا گیا ہے کہ اس فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عتاب نازل ہوا اور وعید فرمائی گئی؟

اسی اعتراض کے سلسلے میں آپ ربیع الاول ۷۵ھ کے ترجمان کا حوالہ دے کر ایک اور عبارت کا ذکر فرماتے ہیں جو حضرت عمر ؓ سے متعلق ہے، مگر ربیع الاول کا ترجمان اس قسم کے ہر لفظ سے خالی ہے۔ براہ کرم آپ پھر پڑھ کر بتائیے کہ یہ عبارت میری کس تحریر میں آپ کو ملی ہے۔ آپ تو صحابہ کرام ؓ کی محبت کا ذکر فرماتے ہیں، مگر میرا خیال یہ ہے کہ سب سے پہلے آدمی کے دل میں خدا کا خوف ہونا چاہیے۔

ناروا تعصب:

۱۳۔ میں نے کبھی نہ اپنے آپ کو معصوم عن الخطا سمجھا نہ کہا۔ میں نہ صرف اپنے اوپر اور اپنی ہر بات پر تنقید کو جائز سمجھتا ہوں بلکہ خود اس کی دعوت دیتا ہوں اور اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ آپ میری ہی نہیں، جماعت اسلامی کے کسی شخص کی بھی کسی عبارت کا ایک لفظ اس الزام کے ثبوت میں پیش نہیں کر سکتے کہ ہم اسلام کی تعبیر کا حق صرف اپنے لیے مخصوص کرتے ہیں، یا اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ برا نہ مانیں تو میں صاف کہوں کہ آپ نے اس نمبر میں جو کچھ لکھا ہے وہ سراسر تعصب کی بنا پر لکھا ہے۔ جو حضرات میرے اوپر طرح طرح کے بہتان لگاتے ہیں میری عبارتوں کو توڑ مروڑ کر ان کو غلط معنی پہناتے ہیں اور بدترین قسم کے جھوٹے الزامات لگا کر نہ صرف تضلیل و تکفیر کے فتوے جڑتے ہیں، بلکہ جگہ جگہ تقریروں اور اشتہاروں کے ذریعے سے میرے خلاف عوام کو بھڑکاتے بھی پھرتے ہیں، وہ تو آپ کے نزدیک صرف ’’تنقید‘‘ کرنے والے ہیں اور ان کا یہ فعل کسی درجے میں بھی آپ کو قابل اعتراض یا قابل شکایت نظر نہیں آتا۔ البتہ ہزاروں زیادتیوں پر صبر کرنے کے بعد اگر کبھی جماعت اسلامی کے کسی شخص کی زبان و قلم سے کوئی ایک لفظ بھی ان کی تردید میں نکل جاتا ہے تو وہ آپ کو طعن نظر آتا ہے اور اس کی آپ شکایت فرماتے ہیں۔

۱۴۔ تنقید کا لفظ جس معنی میں آپ نے اپنے اعتراض نمبر ۱۳ میں استعمال فرمایا ہے، اس کے معنی میں تو صحابہ کرام ؓ کجا، کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے انسان پر بھی تنقید کرنا میرے نزدیک سخت گناہ ہے۔ البتہ تنقید کے جو معنی اہل علم میں معلوم و معروف ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ اور انبیا علیہم السلام کے سوا کسی انسان کو بھی میں تنقید سے بالا تر نہیں مانتا۔ کسی صحابی کا قول یا فعل بھی محض اپنے قائل و فاعل کی شخصیت کی بنا پر حجت نہیں ہے بلکہ اس کی دلیل دیکھ کر رائے قائم کی جائے گی کہ آیا اسے قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ دلیل کے لحاظ سے کسی بات کو جانچنے کا نام ہی تنقید ہے اور یہ تنقید مجھے نہیں معلوم کہ کس زمانے میں ناجائز رہی ہے۔ فقہ کے بکثرت مسائل میں مختلف صحابہ کے مختلف قولی اور عملی آثار پائے جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین نے دلیل کی بنا پر ان میں سے کسی کو قبول اور کسی کو رد کیا ہے۔ آپ فقہ کی مبسوط کتابوں میں سے جس کو چاہیں اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو اس تنقید کی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی۔ کیا وہ سب لوگ آپ کے نزدیک گناہ گار تھے جنہوں نے صحابہ کے مختلف اقوال و افعال میں اس طرح تنقیدی محاکمہ کیا؟ ’’اصحابی کالنجوم‘‘ والی حدیث کا اگر آ پ نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہر صحابی کا ہر قول و فعل واجب الاتباع ہے تو سلف و خلف میں کوئی صاحب علم بھی مجھ کو اس کا قائل نہیں ملا۔ آپ کو ملا ہو تو اس کا نام مجھے بھی بتائیں۔ البتہ ساری امت اپنے دین کے ہر مسئلے میں بہر حال کسی نہ کسی صحابی کے ذریعے ہی سے رہنمائی حاصل کرتی رہی ہے اور یہی اس حدیث کا منشا ہو سکتا ہے۔

(ترجمان القرآن، رمضان ۱۳۷۵ھ۔ مئی ۱۹۵۶ء)