جن قوموں میں انبیاء علیہم السلام مبعوث نہیں ہوئے، ان کا معاملہ:

سوال:قرآن شریف کا مطالعہ کرتے وقت بعض ایسے قوی شبہات و شکوک طبیعت میں پیدا ہوجاتے ہیں جو ذہن کو کافی پریشان کردیتے ہیں۔ ایک تو نقص ایمان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں قرآن کی آیات پر نکتہ چینی و اعتراض کرنے سے ایمان میں خلل نہ واقع ہوجائے، لیکن آیت کا صحیح مفہوم و مطلب نہ سمجھنے میں آنے کے باعث شک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ میں ان آیات کا مطلب سمجھنے کے لیے اردو اور عربی تفاسیر کا بغور مطالعہ کرتا ہوں لیکن طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور اضطراب دور نہیں ہوتا تو پھر گاہ بگاہ جناب کی طرف رجوع کرلیتا ہوں، مگر آپ کبھی مختصر جواب دے کر ٹال دیتے ہیں۔ البتہ آپ کے مختصر جوابات بعض اوقات تسلی بخش ہوتے ہیں۔ آج صبح کو میں حسب دستور تفسیر کا مطالعہ کر رہا تھا، سورہ یٰسین زیر مطالعہ تھی کہ مندرجہ ذیل آیات پر میں ٹھہر گیا:

لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ (یٰسین36:6)

’’تاکہ تم ڈراؤ ان لوگوں کو جن کے آباؤاجداد نہیں ڈرائے گئے تھے پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔

اس کی تفسیر میں یہ الفاظ تحریر تھے:

لِاَنَّ قٰرَیْشًا لَمْ یَاتِھِمْ نَبِیٌّ قَبْلَ مُحَمَّدٍ ﷺ

’’کیوں کہ قریش کی طرف نبیؐ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا‘‘۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ قبل از بعثت محمدؐ جب کہ سر زمین عرب میں کوئی نبی و رسول مبعوث نہیں ہوا تو پھر کیا یہ لوگ اصحاب الجنہ ہوں گے یا اصحاب النار یا اصحاب اعراف میں سے ہوں گے؟ اسی مضمون کی کچھ اور آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن قوموں پر اتمام حجت نہیں ہوا، وہ بری الذمہ ہونی چاہئیں، البتہ وہ لوگ جن کے کانوں تک پیغمبر اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو، پھر وہ ایمان سے منہ موڑیں، تو یہ لوگ واقعی معتوب ہونے چاہئیں۔ ایک دوسری آیت اسی مقصد کی تائید کرتی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُول (بنی اسرائیل 17:15)

’’ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں‘‘۔

اسی طرح ایک اور الجھن بھی ہے، امید ہے کہ آپ اسے بھی حل فرما دیں گے۔ کیا دل اور عقل ایک ہی چیز ہیں یا ان دونوں کے وجود الگ الگ ہیں؟

جواب: قرآن مجید سے جو اصولی بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پکڑ اسی شخص اور گروہ کی ہوگی جسے دعوت حق پہنچی ہو۔ اب یہ چیز کہ دعوت کس کو پہنچی اور کس کو نہیں پہنچی اور کون بے خبر ہے اور کون با خبر ہے، اللہ تعالیٰ خود ہی جانتا ہے اور وہی فیصلہ کرے گا۔ یہ سوال ہم سے متعلق ہی نہیں ہے، پھر ہم کیوں اس کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں؟ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا کہ کس کو کب، کہاں اور کس شکل میں دعوت پہنچی ہے، اور اس نے اگر اس دعوت کو قبول نہیں کیا ہے تو کیوں نہیں کیا، اور کون ہے جسے دعوت کبھی کسی حد تک بھی نہیں پہنچی۔ نیز یہ بھی اللہ ہی جانتا ہے اور وہی اس کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس سے کس بات کی باز پرس کرنی ہے اور کس بات کے لیے وہ مسئول نہیں ہے۔ اس لیے ان سوالات کے حل کرنے میں ہمیں اپنے دماغ کو بلا وجہ پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں تو دراصل فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ ہم تک دعوت پہنچ چکی ہے اور ہم کو اپنی جواب دہی لازماً کرنی ہوگی۔ نیز جن لوگوں کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ ان کو دعوت نہیں پہنچی، ان کو پہنچانے کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔

قرآن مجید جسے قلب یا فؤاد کہتا ہے، وہ بالکل عقل کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ عقل اس کے مدد گاروں میں سے ایک ہے۔ اصل میں فؤاد سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے اندر کسی چیز کے اخذ و ترک کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس فیصلے میں حواس، علم، عقل، جذبات، خواہشات سب اس کے مدد گار ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ اگست ۱۹۵۹ء)