امارتِ شرعیہ بِہار کا سوالنامہ اور اس کاجواب

سوال: دارالافتا امارتِ شرعیہ بہار وارڈیسہ (ہند) کے پاس جماعت اسلامی سے متعلق سوالات آتے رہتے ہیں جن میں اس طرف زیادتی ہے۔ سوالات میں زیادہ جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت کے متعلق دریافت کیاجاتا ہے۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے براہ راست ذیل کے دفعات (جن کے متعلق سوالات آتے ہیں) سے متعلق استفسار کرایا جائے اور آپ حضرات سے ان کے جوابات طلب کر لیے جائیں تاکہ ان جوابات کی روشنی میں ہمیں جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں اور ہمدردوں کی دینی حیثیت کے متعلق رائے قائم کرنے میں اور شرعی حکم بتلانے میں سہولت ہو۔ ہمارے خیال میں اس طرح اطمینان حاصل کیے بغیر کوئی شرعی حکم لگانا احتیاط کے خلاف ہوگا۔ آپ سے عرض ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب پورے اختصار کے ساتھ حتی الامکان محض نفی و اثبات میں اس طرح تحریر فرمائیں کہ ہمیں واضح طور پر معلوم ہو جائے کہ اس مسئلہ میں جماعت اور اس کے ذمہ داروں کا مسلک اور رائے یہ ہے۔ یہ خیال رہے کہ بعض دفعہ تطویل سے بات واضح ہو جانے کے بجائے اور مشتبہ ہو جاتی ہے۔ ہمارا مقصد آپ پر کوئی اعتراض کرنا نہیں ہے بلکہ جماعت کے متعلق مندرجہ ذیل مسائل میں تشفی کرنا ہے، اور جماعت اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت بتلانے میں اپنے لیے سہولت مہیا کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمدرد کے سوالات سمجھ کر جواب تحریر فرمائیں گے۔

۱۔ آپ حضرات کے خیال میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع شرعی طور پر حجت ہے یانہیں۔

۲۔ صحابہ کرام (علیہم الرضوان) کو برا بھلا کہنے والا، ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرنے والا جو دینداروں کی شان سے بعید ہیں فاسق و گناہ گار ہے یانہیں؟

۳۔ فرائض کا تارک اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب آپ حضرات کے خیال میں مسلمان ہے یا نہیں۔

۴۔ تصوف (مروجہ نہیں) جس کی دوسری تعبیر احسان و سلوک بھی ہے، جس کی تعلیم اکابر، نقشبندیہ، چشتیہ، سہروردیہ وغیرہ نے دی ہے، جیسے حضرت شیخ شہاب الدین محمد نقشبند، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی علیہم الرحمۃ اس تصوف کو آپ حضرات دین کے لیے مفید سمجھتے ہیں یامضر؟

۵۔ کسی روایت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف انتساب کرنے میں اول درجہ صحت روایت کوہے یا درایت کو۔ وہ درایت جو حدیث کی صحت کی جانچ کے لیے مدار بنے آپ کے نزدیک اس کی تعریف کیا ہے؟

۶۔ جماعت اسلامی کے ممبروں اور ہمدردوں کے سوا ہندوستان کے عام مسلمان جو اپنے کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور جو آپ کی اصطلاح میں محض نسلی مسلمان ہیں وہ شرعی اعتبار سے دائرہ اسلام میں ہیں یا اس سے خارج؟

۷۔ آپ کے نزدیک معیار حق ہونے کا مطلب کیا ہے اور اس مطلب کے مطابق صحابہ کرام معیار حق ہیں یا نہیں؟

۸۔ ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے نفس تقلید فرض ہے یا نہیں اور تقلید کا درجہ آپ کے نزدیک کیا ہے اور آپ کے نزدیک تقلید شخصی کو واجب کہنے والے لائق تحسین ہیں یا قابل ملامت؟

۹۔ کیا آپ اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ انبیاء کرام سے لغزش کرائی ہے۔

۱۰۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد ان عبادات میں شرعاً مقصود بالذات کون سی عبادت ہے اور اولیٰ درجہ کس کو حاصل ہے، کیا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسلام میں مقصود نہیں بلکہ ان کی حیثیت ذرائع اور وسائل کی ہے، مقصود دراصل جہاد ہے؟ یہ عقیدہ آپ کا ہے یانہیں؟

۱۱۔ کلمہ شہادت پر اقرار کے چار پانچ روز یا چار پانچ گھنٹے بعد ایک شخص کی وفات ہو گئی اور باوجود استطاعت کے اس نے ایک مسلمان قرض خواہ کے قرض کو ادا نہیں کیا۔ آپ اس کو مسلمان سمجھتے ہوئے جنازہ کی نماز پڑھیں گے یانہیں؟

۱۲۔ ایسے مسلمان جو سرکاری دفاتر میں ملازم ہیں یا گورنمنٹ کی عدالتوں میں جج اور مجسٹریٹ ہیں اور ان کے ہاتھوں قانون ہند کا نفاذ ہوتا ہے یامجالس قانون ساز کے رکن ہیں اورقانون سازی میں حصہ لیتے ہیں یہ لوگ آپ کے نقطہ نظر سے دائرہ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں؟ اور آپ حضرات کے نزدیک شرعی نقطہ نظر سے ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟

جواب: یاد فرمائی کا شکریہ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دوسروں کے متعلق فتوے دینے کی ذمہ داری آپ حضرات خواہ مخواہ اپنے ذمہ لیتے ہی کیوں ہیں۔ اگر کوئی شخص آپ لوگوں کے متعلق مجھ سے دریافت کرے تومیں پہلے ہی معذرت پیش کر دوں گا اور کوئی سوالنامہ مرتب کر کے آپ کے پاس نہ بھیجوں گا۔ تاہم چونکہ آپ نے یہ سوالات بھیجنے کی تکلیف اٹھائی ہے اس لیے مختصر جوابات حاضر ہیں:

۱۔ جی ہاں! میرے نزدیک صحابہ کرام کااجتماع حجت ہے۔

۲۔ صحابہ کرام کوبُرا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں ہے، بلکہ اس کاایمان بھی مشتبہ ہے۔ من ابغضھم فببغضی ابغضھم

۳۔ ہم اسے مسلمان مانتے ہیں، مگر اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔

۴۔ ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے مطابقت رکھتی ہے وہ مفید ہے اور جو مطابقت نہیں رکھتی وہ مضر ہے۔ اسی کلیے میں تصوف بھی آجاتا ہے۔ تصوف میں بھی کتاب و سنت کے مطابق جو کچھ ہے حق ہے، اس کا مفید ہونا شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ لیکن جو آمیزش بھی کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی ہے اس سے ہم اجتناب کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔

۵۔ احادیث کی تحقیق میں دیکھنے کی پہلی چیز حدیث کی سند ہے۔ اس کے بعد درایت کا درجہ آتا ہے۔ درایت سے مراد یہ ہے کہ حدیث کے مضمون پر غور کر کے دیکھا جائے کہ وہ قرآن مجید اور سنت ثابتہ کے خلاف تو نہیں پڑتی؟ اس کی تائید کرنے والی دوسری روایات موجود ہیں یا نہیں؟ کوئی بات اگر فرمائی گئی ہے یا کوئی عمل کیا گیا ہے تو کس موقع پر کیا گیا ہے اور اس موقع سے اس کی مناسبت کیا ہے وغیرہ۔

۶۔ جماعت اسلامی میں شامل ہونا ہمارے نزدیک مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ کبھی تھا نہ اب ہے، نہ ہم اس حماقت میں انشاء اللہ کبھی مبتلا ہو سکتے ہیں کہ جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ جماعت سے باہر کے تمام مسلمانوں کو ہم نے ’’نسلی مسلمان‘‘ نہیں کہا ہے بلکہ ان لوگوں کو کہا ہے جو دین کے علم و عمل سے بے بہرہ ہیں اور اپنے اخلاق و عادات اور اعمال میں اسلام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

۷۔ ہمارے نزدیک معیار حق سے مراد ہے وہ چیز جس سے مطابقت رکھنا حق ہو اور جس کے خلاف ہونا باطل ہو۔ اس لحاظ سے معیار حق صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔ صحابہ کرام معیار حق نہیں ہیں بلکہ کتاب و سنت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ کتاب و سنت کے معیار پر ہی جانچ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ گروہ برحق ہے۔ ان کے اجماع کو ہم اس بناء پر حجت مانتے ہیں کہ ان کا کتاب و سنت کی ادنیٰ سی خلاف ورزی پر بھی متفق ہو جانا ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔

۸۔ مسلمان کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید فرض ہے۔ رہی آئمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید تو ہم ایسے مسلمانوں کے لیے اس کو ضروری سمجھتے ہیں جو خود مسائل شرعیہ کی تحقیق کرنے کے اہل نہ ہوں۔ رہے تحقیق کی قابلیت رکھنے والے لوگ، تواگر وہ کسی امام مجتہد کے اقوال کی صحت پر مطمئن ہوں تو ہمارے نزدیک ان کا اتباع قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر تحقیق سے وہ کسی مسئلے میں اپنے امام کے سوا کسی دوسرے امام کے قول کو اوفق بالکتاب والسنہ سمجھتے ہوں، لیکن قصداً اپنے امام ہی کی تقلید کریں تو یہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔

۹۔ جی نہیں! میرا خیال یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں کام کرتے ہیں، اس لیے ان سے لغزش کا صدور اس بناء پر نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ کسی وقت ان سے غافل ہو گیا تھا، بلکہ اس بناء پرہوا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ لغزش ان سے صادر ہو جانے دی تاکہ دنیا پر یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ وہ بندے اور بشر ہی ہیں، خدائی صفات کے حامل نہیں ہیں۔

۱۰۔ میرے نزدیک مقصود دراصل اقامت دین ہے ان اقیموا الدین ولا تتفر قوافیہ نماز،روزہ، حج اور زکوٰۃ اس دین کے ارکان ہیں جن پر یہ دین قائم ہوتا ہے اس لیے ان کو قائم کرنا اقامتِ دین کے لیے مطلوب ہے اور جہاد چونکہ دین کواس کے پورے نظام کے ساتھ قائم کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے وہ بھی اقامت دین ہی کے لیے مطلوب ہے۔ سوال کے آخری حصہ کا جواب حضرت معاذ بن جبل والی حدیث میں موجود ہے۔ الاادلک برأس الامر و عمودہ وذروۃ سنامہ؟ قال بلی یا رسول اللّٰہ، قال راس الامر الاسلام وعمودہ الصلوٰۃ وذروۃ سنامہ الجہاد۔

۱۱۔ یقینا میں اس کی نماز جنازہ پڑھوں گا۔

۱۲۔ میرے نزدیک وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں۔ میں ان کو مسلمان سمجھتے ہوئے ہی یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تم وہ کام کر رہے ہو جو مسلمان کے کرنے کا نہیں ہے۔

(ترجمان القرآن۔ اگست ۶۱ء)