کیا اقامت دین فرض عین ہے؟

سوال: خاکسار کچھ سوالات کرکے جناب کو جواب دینے کی زحمت دینا چاہتا ہے اگرچہ جناب کی مصروفیتوں کے پیش نظر یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا، تاہم میں جناب ہی سے ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتاہوں کیونکہ ان میں سے بعض اہم سوالات اس نصب العین اور اس تنظیم سے متعلق ہیں جن کا شہود اور جس کا وجود اس دور میں آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔میں ۹ سال سے اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس عرصہ میں میں نے اس کی تقریباً تمام کتابیں پورے غوروخوص کے ساتھ پڑھیں اور ایک قلبی احساس فرض کے تحت بلکہ ایک اندرونی دباؤ کے تحت اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔میں نے قرآن و سنت کے دلائل سے مطمئن ہوکر اس جماعت کے نظم سے منسلک ہونا اپنے ایمان واصلاح کا تقاضا سمجھا۔ میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ پورے عقل و ہوش کے ساتھ یہ خیالات رکھتا ہوں کہ جس شخص پر اس جماعت کا حق ہونا واضح نہ ہوا ہواس کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں لائق عفوودرگزر ہے لیکن جس شخص کے دل ودماغ نے پکار کر یہ کہہ دیا ہو کہ اس برصغیر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو اس دور میں حق کا کام صحیح طریق پر کررہی ہے اور اس جماعت کے علاوہ اس سرزمین میں اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کا دامن فکر کردار من حیث الجماعت اس طرح ہر آمیزش سے پاک ہو، تو اس پر عند اللہ یہ فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس جماعت سے منسلک ہو اور اگر وہ اس وقت کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر یا کسی نفسانیت کی بنا پر اس جماعت سے اپنا تعلق منقطع کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سے مواخذہ ہوگا۔اللہ جانتا ہے کہ میں نے ان سطور میں کسی گروہی عصبیت یا مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے بلکہ اس ناچیز نے جو کچھ سمجھا ہے وہ ظاہر کردیا ہے۔ اگر اس میں غلط فہمی کام کررہی ہے تو اسے رفع فرمایئے۔

یہاں میں سات آٹھ ماہ سے مقیم ہوں اور میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت کے باقاعدہ متفق بھی ہیں۔اس کے باوجود ان کا خیال یہ ہے کہ فریضہ اقامت دین جس کے لیے یہ جماعت کام کررہی ہے وہ فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔ اس لیے جب اس میں کچھ لوگ حصہ لے رہتے ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ہر ایک شخص حصہ لے۔ اگر کسی شخص کی دنیوی مصلحتیں اسے اس کام سے روکتی ہیں اور وہ ان کی وجہ سے اس جماعت سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیتا ہے اور اقامت دین کے لیے ذاتی طور پر بھی علیحدہ سے کوئی کام نہیں کرتا تو وہ کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا اور اس سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہاں کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اس کی مثال تو بس نماز جنازہ کی سی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس وقت اور فرصت ہے اور اس کی طبیعت چاہتی ہے تو وہ اس میں شرکت کرے اور اگر وقت و فرصت نہیں ہے اور طبیعت نہیں چاہتی تو اسے پورا اختیار ہے کہ اس میں حصہ نہ لے۔

یہ بات تو وہ فریضہ اقامت دین کے بارے میں کہتے ہیں۔ اب رہی جماعت کی تنظیم، اس سے منسلک ہونا، اس کے امیر کی اطاعت، اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر اور اس نصب العین کے لیے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیاں، تو ان امور کو وہ بالکل نوافل کا درجہ دیتے ہیں۔چناچہ وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ امور تو ایسے ہیں جیسے نماز تہجد جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مراتب عالیہ کے حصول کے لیے تو ضروری ہیں لیکن محض بخشش ونجات کے لیے ضروی نہیں ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے اس راہ پر اپنی جانیں نثار کردیں اور اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی مستقبل کی زندگیوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تو کیا انہوں نے یہ سب کچھ محض ایک نفل کام کے لیے کیا؟تو وہ اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ان کی وہ ساری قربانیاں محض بلند مراتب کے حصول کے لیے تھیں ورنہ ایسا کرنا ان پر فرض نہیں تھا۔ انہوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب ان کے سامنے اخوان کی مثال پیش کی گئی۔ ان کا انداز استدلال اس قسم کا ہے کہ اگر اس کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اخوان اور ایسے ہی دوسرے اہل حق جنہوں نے اللہ کے لیے اپنی جانیں نثار کردیں وہ لائق ستائش ٹھہرنے کے بجائے الٹے لائق ملامت ٹھہریں گے کیونکہ محض نفل کام کے لیے اپنی جان دینا اور اپنے پسماندگان کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ جانا غلو فی الدین نہیں تو اور کیا ہے اور اس کا مرتکب اللہ کے نزدیک مستحق عذاب ہی ہوسکتا ہے۔

نظم جماعت کی پابندی اور اطاعت امیر کا جب ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ایسی مختلف تنظیمیں جو مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں دین کا کام کرنے کے لیے قائم ہوں، ان کے نظم کی پابندی اور ان کے اول الامر کی اطاعت فرض نہیں ہے۔اطاعت تو رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کی فرض تھی نہ کہ ایسی جماعتوں کے امراء کی جو وقتاً فوقتاً مختلف ملکوں میں دین کا کام کرنے کے لیے تشکیل پاتی رہیں۔ گویا کہ اب کوئی اور کام کرنے کا رہا نہیں ہے حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر اس دور میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوجائے تو اس کے امیر کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہوگی جیسے خلفائے راشدین کے دور میں تھی۔

ایک عالم دین کی زبان سے یہ باتیں سن کر میں سکتے میں رہ جاتا ہوں میں نے اپنے ناقص علم کی حد تک انہیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا اول اور آخر جملہ یہی ہے کہ یہ باتیں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ یا نفل کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ وہ انداز فکر ہے جو تحریک اسلامی کے نشونما کے لیے سم قاتل ہے۔ اس کا کسی ایسے نوجوان کے کانوں میں پڑجانا جس نے ابھی اس راہ میں قدم ہی رکھا ہو اس کے قوائے عمل کو مفلوج کر دینے کے لیے کافی ہے۔پس اس لیے نہیں کہ ان صاحب کو مطمئن کرنا ہے بلکہ اس لیے کہ اس کے اثرات دوسروں پر متعدی ہوسکتے ہیں، ان غلط خیالات کی تردید بہت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یوں تو جماعت کا تمام لٹریچر ان کا جواب پیش کرتا ہے لیکن غالباً کسی ایک جگہ اس کا مختصر اور مدلل جواب نہیں ہے۔

ان صاحب کا ذہن فقہی اصطلاحات میں اس طرح الجھا ہوا ہے کہ جماعت کے لٹریچر کے سارے دلائل انہیں بے وزن معلوم ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جماعت کی کتابوں میں دلائل نہیں ہوتے۔ پہلے تو میں ان کے اس جملہ کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ جماعت کے لٹریچر کا دلائل سے مسلح ہونا ہی تو وہ وصف ہے جس کا لوہا مخالفین بھی مانتے ہیں۔ اس لیے جب ان سے وضاحت چاہی گئی تو کہنے لگے کہ اس میں فقہ حنفی یا دیگر مکاتب فقہ کی کتابوں کا حوالہ نہیں ہوتا۔ قرآن و سنت سے محض اپنے ہی نقطۂ نظر سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ اگر فقہ حنفی کی کسی کتاب میں یہ دکھا دیا جائے کہ اقامت دین اور اس کے لیے ایک جماعت کا قیام اور پھر اس کے نظم سے وابستگی اور اس کے امیر کی اطاعت فرض عین ہے تب تو وہ مانیں گے، ورنہ وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر جماعت کے اجتماعات میں شرکت پر ان سے اصرار کیا جائے اور ہفتہ وار رپورٹ طلب کی جائے تو وہ ’’متفقیت‘‘ سے بھی مستعفی ہوجائیں گے۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر جواب میں فقہ حنفی کی کتابوں کا حوالہ بھی ممکن ہو تو دیا جائے شاید کہ ان کے دل کی گرہیں کھل جائیں۔

ایک سوال میں اپنی طرف سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ اکثر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرتا رہا ہے کہ ارکان کی حیثیت سے پانچ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں فریضہ اقامت دین کی جدوجہد شامل نہیں ہے حالانکہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھٹے رکن کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام محض نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود نہیں رہ سکتا تھا بلکہ اس کے وہ تقاضے بھی ہر مسلمان کے سامنے ہمیشہ موجود رہتے جن کا شعور پیدا کرنے کے لیے علیحدہ سے ہر دور میں تحریکیں اٹھتی رہی ہیں۔صراحتاً تحریر فرمائیے کہ دین کے اوامر میں فریضہ اقامت دین کی کیا حیثیت ہے۔

ایک اور بزرگ ہیں جو پہلے تو جماعت سے اس حد تک تعلق رکھتے تھے کہ رکنیت کی درخواست دینے والے تھے لیکن یکایک ان کے ذہن رسا میں ایک نکتہ پیدا ہوا اور وہ اپنا دامن چھاڑ کر جماعت سے اتنی دور جاکھڑے ہوئے گویا انہیں جماعت سے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا، وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی دستور کی تشکیل کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے اور یہاں تمام مسلمان شہری ایک نظام اطاعت میں منسلک ہو چکے ہیں۔ یہ نظامِ اطاعت سب کو جامع اور سب پر فائق ہے اب سب کی اطاعتیں اس بڑے نظامِ اطاعت کے گرد جمع ہو چکی ہیں لہٰذا اس کی موجودگی میں کسی اور نظام کا قائم ہونا اور افراد سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک حکومت کے اندر ایک متوازی حکومت کا قائم کرنا۔ خلاصہ یہ کہ اب کسی جماعت، کسی تنظیم اور کسی امیر کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، حکومت اس کا تنظیمی مظہر ہے، تمام مسلمان شہری اب کسی جماعت کے نہیں بلکہ اس ریاست کی ہمہ گیر تنظیم کے رکن ہیں اوراب ان کی تمام اطاعتیں اور وفاداریاں اسی تنظیم کا حق ہیں نہ کہ کسی اور جماعت کا۔ اب اطاعت کسی کی نہیں بلکہ ریاست کے صدر کی ہونی چاہیے۔ یہ وہ طرزِ استدلال ہے کہ اس کے نتیجہ میں شہریوں کا حق انجمن سازی (Right to form associatons) ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اور نہ صرف ختم ہو جاتا ہے بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔ آپ کے پاس اس استدلال کا کیا جواب ہے؟ کیا اسلامی ریاست واقعی ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں کسی دوسری پارٹی کو جنم لینے اور جینے کاموقع نہیں ملے گا؟ اگر ملے گا توایک نظامِ اطاعت کے لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ کیا اب کسی مسلمان کا یہ استدلال درست ہے کہ اب اسے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جماعت میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ایک اسلامی ریاست کا ایک شہری ہے علمی حیثیت سے یہ سوالات خاص اہمیت رکھتے ہیں اوران کا جواب علمی طریق پر ہی دیا جانا چاہیے۔

ایک سوال یہ ہے کہ شریعت میں نماز باجماعت کی کیا حیثیت ہے؟ یہ واجب ہے یا سنت موکدہ ہے یا واجب بالکفایہ یا سنت موکدہ بالکفایہ ہے؟ کن حالات یا عذرات میں اس کے وجوب یاتاکید کی سختی کم ہو جاتی ہے؟ یہاں مسجدیں کم اور دور دور ہیں لہٰذا اکثر لوگ گھروں میں نماز پڑھتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ چاہیں تو تھوڑی سی زحمت گوارا کرکے مسجد میں پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن کوئی تو قافلے کاعذر کرتا ہے، کوئی اندھیری رات کا، کوئی پانی اور کیچڑ اور راستے کی خرابی کا۔ کیا یہ عذر معقول ہیں؟ بعض لوگ ہیں جو اپنی دکان پر ہی نماز پڑھتے ہیں اور تنہا ہونے کا عذر پیش کرتے ہیں۔ ان میں جماعت کے ارکان اور متفقین بھی ہیں۔ یہ لوگ اجتماع کرتے رہتے ہیں اور جماعت کا وقت نکل جاتا ہے۔ بعد میں فرداً فرداً ادا فرماتے ہیں۔ تحریر فرمایئے کہ یہ سب باتیں کہاں تک درست ہیں؟

کبائر میں جھوٹ کا کیا درجہ ہے؟ کتاب و سنت میں اس کی جس قدر مذمت آئی ہے اور اس کے مرتکب کے لیے جتنی وعیدیں آئی ہیں بیان فرمایئے۔ کیا بعض حالات ایسے بھی ہیں جن میں جھوٹ بولنا مباح ہو جائے۔

اگر کسی شخص کے پاس 52½ تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ قیمت کا سونا لیکن 7½ سولہ سے کم ہے اور چاندی بالکل نہیں ہے اور نہ روپیہ پس انداز ہو سکتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی یا نہیں؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ سونے کا نصاب 7½ تولے ہے۔

اکثر لوگ وتر کی تیسری رکعت میں بالالتزام سورہ اخلاص پڑھتے ہیں اور یہ بات خاص طور سے رمضان میں نظر آتی ہے جب تراویح کے بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ کیا یہ التزام کسی دلیل پر مبنی ہے یا محض رواج پر؟ کیا یہ التزام درست ہے؟

فطرہ کی مقدار کے بارے میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے کوئی سوا سیر گیہوں دیتا ہے تو کوئی پونے دو سیر اور کوئی سوا دو سیر۔ صحیح مقدار کیا ہے اور اس سلسلہ میں آپ کا عمل کیا ہے؟ فطرہ کے سلسلہ میں دوسری بات یہ دریافت کرنی ہے کہ اگر کوئی شخص خود صاحب نصاب نہیں ہے بلکہ اس کی بیوی صاحب نصاب ہے تو فطرہ محض بیوی پر واجب ہوگا یا شوہر پر بھی اور یہ کہ اولاد کی طرف سے بھی فطرہ دیا جائے گا یا نہیں؟

جواب: جماعت کے متعلق آپ نے اپنا جو نقطہ نظر بیان کیا ہے قریب قریب وہی نقطہ نظر تشکیل جماعت کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا اور اس کے بعد برابر میں یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرتا رہا ہوں کہ حق واضح ہو جانے اور یہ بات سمجھ لینے کے بعد کہ یہ جماعت برسرحق ہے اس کا ساتھ نہ دینا اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل مواخذہ ہے۔ البتہ وہ لوگ معافی کے مستحق ہو سکتے ہیں جو جماعت کے موقف کے بارے میں کوئی شک رکھتے ہوں، یا اخلاص و دیانت کے ساتھ اس سے مطمئن نہ ہوں۔

آپ نے جن عالم دین کا ذکر کیا ہے ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ اقامتِ دین کی سعی ہر حال میں صرف فرضِ کفایہ ہے۔ حالانکہ یہ فرض کفایہ صرف اسی حالت میں ہے جب کہ آدمی کے اپنے ملک یا علاقے میں دین قائم ہو چکا ہو، اور کفار کی طرف سے اس دارالاسلام پر کوئی ہجوم نہ ہو، اور پیشِ نظر یہ کام ہو کہ آس پاس کے علاقوں میں بھی اقامت دین کی سعی کی جائے۔ اس حالت میں اگر کوئی گروہ اس فریضے کو انجام دے رہا ہو، تو باقی لوگوں پر یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے اور معاملہ کی نوعیت نماز جنازہ کی سی ہوتی ہے۔ لیکن اگر دین خود اپنے ہی ملک میں مغلوب ہو، اور خدا کی شریعت متروک و منسوخ کر کے رکھ دی گئی ہو اور علانیہ منکرات اور فواحش کا ظہور ہو رہا ہو اور حدوداللہ پامال کی جارہی ہوں، یا اپنا ملک دارالاسلام تو بن چکا ہو مگر اس پر کفار کے غلبے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہو، تو ایسی حالتوں میں یہ فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص قابل مواخذہ ہوگا جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت دین اور حفاظت دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا۔ اس معاملے میں کتب فقیہ کی ورق گردانی کرنے سے پہلے صاحب موصوف کو قرآن مجید پڑھنا چاہیے جس میں جہاد سے جی چرانے والوں کو سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں حتیٰ کہ انہیں منافق تک ٹھہرایا گیا ہے۔ حالانکہ وہ نماز روزے کے پابند تھے۔ قرآن اس طرح کے حالات میں جہاد ہی کو ایمان کی کسوٹی قرار دیتا ہے اور اس سے دانستہ گریز بلکہ تساہل برتنے والوں کی کسی اطاعت کو بھی لائق اعتنا نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد اگر کسی توثیق کی ضرورت صاحب موصوف کو محسوس ہو تو وہ فقہ کی کتابوں میں جہاد کی بحث نکال کر دیکھ لیں کہ دارالاسلام پرہجوم عدد کی صورت میں جہاد فرض کفایہ ہے یا فرض عین جس زمانے میں فقہ کی یہ کتابیں لکھی گئی تھیں اس وقت ممالک اسلامیہ میں سے کسی جگہ بھی اسلامی قانون منسوخ نہیں ہوا تھا اور نہ حدود شرعیہ معطل ہوئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے صرف ہجوم عدد ہی کی حالت کا حکم بیان کیا ہے۔ لیکن جب کہ مسلمانوں کے اپنے وطن میں کفر کا قانون نافذ اور اسلام کا قانون منسوخ اور اختیار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو حدود اللہ کی اقامت کو وحشیانہ فعل قرار دیتے ہیں تو معاملہ ہجوم عدد کی بہ نسبت کئی گناہ زیادہ سخت ہو جاتا ہے، اور اس صورت میں کوئی شخص جو دین کا کچھ فہم بھی رکھتا ہو، اقامتِ دین کی سعی کو محض فرضِ کفایہ نہیں کہہ سکتا۔

رہا نظم جماعت تو اس کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ احکام کفر کے مقابلہ میں احکام الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال منظم اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو اس کا التزام ضروری ہے اس مضمون پر کثیرالتعداد احادیث دلالت کرتی ہیں۔ البتہ جہاں تمام اہل ایمان کی ایک جماعت موجود نہ ہو اور اس مقصد عظیم کے لیے اجتماعی قوت پیدا کرنے کی مختلف کوششیں ہو رہی ہوں، تو التزام جماعت کے ان احکام کا اطلاق تو نہ ہوگا جو الجماعت کی موجودگی میں شارع نے دیے ہیں، لیکن کوئی ایسا شخص جو اقامت دین کے معاملے کی شرعی اہمیت سے واقف ہو اور اس معاملہ میں ایک مومن کے فرض کا احساس رکھتا ہو، ان کوششوں کے ساتھ بے پروائی کا رویہ اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان کا جائزہ لے اور جس کوشش کے بھی صحیح و برحق ہونے پر مطمئن ہو جائے اس میں خود بھی حصہ لے۔ پھر حصہ لینے کی صورت میں (یعنی جب کہ آدمی ایک جماعت کو برحق جان کر اس سے وابستہ ہو چکا ہو) نظام و اطاعت کا التزام نہ کرنا سراسر ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ یہ اطاعت محض نفل نہیں بلکہ فرض ہے کیونکہ اس کے بغیر فریضہ اقامت دین عملاً ادا نہیں ہو سکتا۔ احادیث میں اطاعت امر کے جو احکام آئے ہیں اور خود قرآن میں اطاعت اولوالامر کا جو فرمان خداوندی آیا ہے ان کے متعلق یہ سمجھنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ احکام صرف رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد کے لیے تھے۔ اگر یہ بات ہو تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اب نہ کوئی اسلامی حکومت چل سکتی ہے اور نہ کبھی جہاد فی سبیل اللہ ہو سکتا ہے کیونکہ نظام کی پابندی اور سمع و طاعت کے بغیر ان چیزوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میں سخت حیران ہوں کہ کوئی شخص جس کو علم دین کی ہوا بھی لگی ہو، ایسی بے سروپا باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔

دوسرے جن صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کی عقل نے وہ نکتہ پیدا کیا ہے جو ابھی تک موجود ’’امراء المومنین‘‘ کو بھی نہیں سُوجھا ہے۔ اگر یہ بات انہیں سُوجھ جائے تو ملک کی تمام جماعتوں کا بیک جنبش قلم ختم کر کے ہمیشہ کے لیے ہر اس شخص کا منہ بند کر دیں جو یہاں احکامِ اسلامی کے اجراء کا نام لے اور پھر یہاں صرف رقص و سرود اور فسق و فجور ہی ہوتا رہے۔ اس کے بعد تو یہاں اطمینان کے ساتھ انگریزی دور کے قوانین چلتے رہیں گے۔ اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے دنیا ہی میں نہیں آخرت میں بھی سیہ رو اور مستحق عذاب ٹھہریں گے، کیونکہ شرعاً نفاذ شرعت کی سعی کرنے کے مجاز ہی نہ ہوں گے۔ مجھے تو یہ سُن کر بڑی خوشی ہوئی کہ جن صاحب کی عقل و خرد کا یہ حال تھا وہ جماعت کو چھوڑ کر دور چلے گئے۔

اب آپ کے سوالات کا مختصر جواب عرض ہے:

۱۔ فریضہ اقامتِ دین کی حیثیت سمجھنے میں آپ کو الجھن اس لیے پیدا آئی ہے کہ آپ ارکان اسلام اور فرائض اہلِ ایمان میں فرق نہیں کر رہے ہیں۔ ارکان اسلام وہ ہیں جن پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے اور فرائض اہلِ ایمان وہ مقتضیات ایمان ہیں جنہیں اسلامی زندگی کی تعمیر کے بعد پورا کیا جانا چاہیے۔ ارکان اسلام قائم نہ ہوں تو سرے سے اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہی نہ ہوگی۔ لیکن اس عمارت کے کھڑے ہو جانے کے بعد اگر مقتضیات ایمان پورے نہ کیے جائیں تو یہ ایسا ہوگا جیسے جنگل میں ایک بے مصرف اور ویران عمارت کھڑی ہے۔ فریضہ اقامتِ دین اسلام کا ستون نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی عمارت تعمیر کرنے کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے اور مزید برآں اسی پر اس عمارت کے استحکام اور اس کی آبادی اور اس کی توسیع کا انحصار ہے۔ اگر اس فرض کو مہمل چھوڑ دیا جائے تو اسلام کی عمارت بتدریج بوسیدہ ہو جائے گی، اور اس میں فسق و کفر کو قدم جمانے کا موقع مل جائے گا، اور اس کے وسیع ہو کر جمیع خلائق کے لیے پناہ گاہ بننے کا تو کوئی امکان ہی نہ ہوگا۔ اس لیے اس کام کو اسلام میں مسلمان کی زندگی کے مقصد کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔
جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ(البقرہ 143:2)
اور كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ(آل عمران 110:2)

۲۔ اسلامی ریاست کی ایک حالت وہ ہوتی ہے جس میں ریاست صرف نظریئے کے اعتبار ہی سے اسلامی نہ ہو بلکہ عملاً حکومت بھی اسلامی ہو۔ صالح و متقی اہل ایمان اس کو چلا رہے ہوں، شوریٰ کا نظام اپنی حقیقی اسلامی روح کے ساتھ قائم ہو اور پورا نظام حکومت ان مقاصد کے لیے کام کر رہا ہو جس کی خاطر اسلام اپنی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں ریاست کا صدر ہی تمام اہل ایمان کا لیڈر ہوگا اور اس کی قیادت میں تمام اہل ایمان ایک جماعت ہوں گے۔ اس وقت جماعت کے اندر جماعت بنانے کی ہر کوشش غلط ہوگی اور ایک امام کے سوا کسی دوسرے کی بیعت یا اطاعت کا کوئی جواز نہ ہو گا۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں ریاست صرف نظریئے کے اعتبا سے اسلامی ہو۔ باقی خصوصیات اس میں نہ پائی جاتی ہوں۔ اس حالت کے مختلف مدارج ہیں اور ہر درجے کے احکام الگ ہیں۔ بہرحال ایسی حالت میں اصلاح کے لیے منظم اجتماعی کوشش کرنا ناجائز تو کسی طرح نہیں ہے اور بعض صورتوں میں ایسا کرنا فرض بھی ہو جاتا ہے۔ اسے ناجائز قرار دینے کا خیال اسلامی ریاست کے فاسق حکمران کریں تو کریں، لیکن یہ عجیب بات ہوگی کہ اس کے صالح شہری بھی اسے ناجائز مان لیں، درآنحالیکہ اس کے عدم جواز کی کوئی شرعی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر یہ چیز ناجائز ہو تو آخر ان ائمہ مجتہدین کا کیا مقام پائے گا۔ جنہوں نے بنی امیہ کے خلاف اٹھنے والوں کی خفیہ اور اعلانیہ تائید کی؟

نماز کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہو وہاں کے لوگوں کو مسجد میں حاضر ہونا چاہیے۔ اِلّا یہ کہ کوئی عذر شرعی مانع ہو۔ عذر شرعی یہ ہے کہ آدمی بیمار ہو، یا اسے کوئی خطرہ لاحق ہو، یاکوئی ایسی چیز مانع ہو جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہو۔ بارش اور کیچڑ پانی ایسے ہی موانع میں سے ہے۔ چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس حالت میں اذان کے ساتھ الاصلوا فی رحالکم کی آواز لگا دیتے تھے تاکہ لوگ اذان سن کر اپنی اپنی جگہ ہی نماز پڑھ لیں۔ جماعت کے لوگ اگر اجتماع کرتے رہیں اور نماز باجماعت پڑھنے کے بجائے بعد میں فرداً فرداً نماز پڑھ لیا کریں تو یہ چیز سخت قابل اعتراض ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔

کبائر میں جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔ حتیٰ کہ اسے نبیﷺ نے علامت نفاق میں شمار کیا ہے اس کے جواز کی گنجائش صرف اسی صورت میں نکلتی ہے جب کہ جھوٹ سے بڑی کسی برائی کو رفع کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہو۔ مثلاً کسی مظلوم کو ظالم کے چنگل سے چھڑانا، یا میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی کو روکنا وغیرہ۔

اگر کسی کے پاس مقدار نصاب سے کم سونا ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے خواہ اس کی قیمت چاندی کے نصاب کی قیمت سے کتنی ہی زیادہ ہو۔

کسی نماز میں کسی خاص سورت کا التزام کر لینا درست نہیں ہے۔ عادۃً پڑھنے میں مضائقہ نہیں مگر کبھی کبھی اس کے خلاف بھی کر لینا چاہیے۔ تاکہ بدعت کی سی صورت نہ پیدا ہو۔

فطرے کی مقدار میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں جو اوزان اور پیمانے اس وقت رائج تھے ان کو موجودہ زمانے کے اوزان اور پیمانوں کے مطابق بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ مختلف اہل علم نے اپنی تحقیق سے جو کچھ اوزان بیان کیے ہیں۔ عام لوگ ان میں سے جس کے مطابق بھی فطرہ دیں گے، سبکدوش ہو جائیں گے۔ اس معاملہ میں زیادہ تشدد کی ضرورت نہیں ہے۔ فطرہ ہر اس شخص کو دینا چاہیے جو عید کے روز اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد فطرہ نکالنے کی استطاعت رکھتا ہو اور بیوی مستطیع ہو تو وہ بیوی ہی پر واجب ہوگا، کیونکہ اس کے شوہر کا نفقہ اس کے ذمہ نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں اسے اولاد کا فطرہ نکالنا چاہیے۔

(ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۶ھ۔ جولائی ۱۹۵۷ء)