اللہ کے حقوق اور والدین کے حقوق

سوال: میں ایک سخت کشمکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ میں جماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دور رہنے پر مجبور ہوں۔ والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر تجارتی کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظرانداز کر رہے ہو۔ میں اس بارے میں ہمیشہ مشوش رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے، دوسری طرف میں محسوس کرتا ہوں کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے میرا جماعت کا کارکن بن کر رہنا ضروری ہے۔ آپ اس معاملے میں مجھے صحیح مشورہ دیں تاکہ میں افراط و تفریط سے بچ سکوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف کی ہوگی۔ لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے توپھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں۔ میرے والد صاحب میری ہر بات کو موردِ اعتراض بنا لیتے ہیں اور میری طرف سے اگر بہت ہی نرمی کے ساتھ جواب عرض کیا جائے تواسے بھی سننا گوارا نہیں فرماتے۔

جواب: والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجہ پریشانی بنا رہتا ہے جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہمدردی نہیں رکھتے۔ میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو تو والدین اس کے ہزاروں میل دور رہنے کو بھی برداشت کر لیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیں کہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انہیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انہیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیتا ہے حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے ’’حقوق‘‘ ادا کرے۔ بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، اس کی ہر بات انہیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔ یہ صورت حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور جماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورت حال ہے۔ اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے آپ جہاں کام کر رہے ہیں وہیں کرتے رہیں۔ جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو وہ بھی کرتے رہیں بلکہ اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں اور حسب ضرورت وقتاً فوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورتحال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۵ھ۔ جنوری ۱۹۵۶ء)