صدر ریاست کو ویٹو کا حق

سوال: کچھ عرصہ سے اخبارات کے ذریعہ سے تجاویز پیش کی جارہی ہیں کہ صدر پاکستان کو خلیفۃ المسلمین یا امیر المومنین کے معزز خطاب سے آراستہ کیا جائے۔ اس تصور میں مزید جان ڈالنے کے لیے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر کو حق تنسیخ ملنا چاہئے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جلیل القدر صحابہ کے مقابلے میں ویٹو سے کام لیا اور منکرین زکوٰۃ و مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے جہاد کا حکم دے کر صحابہؓ کی رائے کو رد کر دیا۔ گویا اس دلیل سے شرعی حیثیت کے ساتھ ویٹو جیسے دھاندلی آمیز قانون کو مستحکم فرمایا جارہا ہے۔

ان حالات کی روشنی میں جناب والا کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جارہے ہیں، امید ہے کہ بصراحت جوابات سے مطمئن فرمائیں گے۔

۱۔ کیا حضرت ابوبکرؓ نے آج کے معنوں میں ویٹو استعمال فرمایا تھا؟ اور

۲۔ اگر استعمال فرمایا تھا تو ان کے پاس کوئی شرعی دلیل تھی یا نہیں۔

جواب: خلفائے راشدین کی حکومت کے نظام اور آج کل کے صدارتی نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان دونوں کو ایک چیز صرف وہی لوگ قرار دے سکتے ہیں جو اسلام کی تاریخ سے بالکل ناواقف ہیں۔ میں نے اس فرق پر مفصل بحث اپنی کتاب اسلامی ریاست میں صفحہ ۳۳۱۔ ۳۳۳ پر کی ہے۔ اسے ملاحظہ فرمالیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ جس چیز کو خلافت کے نظام میں ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات سے تعبیر کیا جارہا ہے وہ موجودہ زمانے کی دستوری اصطلاح سے بالکل مختلف چیز تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے صرف دو فیصلے ہیں جن کو اس معاملہ میں بنائے استدلال بنایا جاتا ہے۔ ایک جیش اسامہ کا معاملہ۔ دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا مسئلہ۔ ان دونوں معاملات میں حضرت ابوبکرؓ نے محض اپنی ذاتی رائے پر فیصلہ نہیں کر دیا تھا بلکہ اپنے رائے کے حق میں کتاب و سنت سے استدلال کیا تھا۔ جیش اسامہ کے معاملہ میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جس کام کا فیصلہ نبیﷺ اپنے عہد میں کر چکے تھے اسے حضورؐ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انجام دینا میرا فرض ہے۔ میں اسے بدل دینے کے اختیارات نہیں رکھتا۔ مرتدین کے معاملہ میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جو شخص یا گروہ بھی نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتا ہو اور یہ کہے کہ میں نماز تو پڑھوں گا مگر زکوٰۃ ادا نہیں کروں گا۔ وہ مرتد ہے، اسے مسلمان سمجھنا ہی غلط ہے، لہٰذا ان لوگوں کی دلیل قابل قبول نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللہ کے قائلین پر تم کیسے تلوار اٹھاؤ گے۔ یہی دلال تھے جن کی بناء پر صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ یہ اگر ’’ویٹو‘‘ ہے تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کا ویٹو ہے نہ کہ سربراہ ریاست کا۔

حقیقت میں اسے ویٹو کہنا ہی سرے سے غلط ہے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کے استدلال کو تسلیم کر لینے کے بعد اختلاف کرنے والے صحابہ کرامؓ اس کی صحت کے قائل ہو گئے تھے اور اپنی سابقہ رائے سے انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۶۱، عدد۲۔ نومبر ۱۹۶۳ء)