اسلام اور جمہوریت

سوال: جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پرمبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائض ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انہیں کس طرح دور کر سکتا ہے وہ نقائض درج ذیل ہیں:

۱۔ دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہو کر جنگ زرگری کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور (Plutocracy) یا (Obgrachy) کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟

۲۔ عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟

۳۔ عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خود غرض عناصر انہیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔

۴۔ عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمائندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اور ان کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔

آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا۔

جواب: آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری رائے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اولین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی مرضی سے سربراہ کار مقرر کیے جائیں اور وہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہ کار رہیں؟ یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی و رائے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی بر انصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہو جانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے؟

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں، ان کی تفصیلات سے قطع نظر کر کے اگر انہیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

اول یہ کہ ’’جمہور‘‘ کو مختلف مطلق اور حاکم مطلق (Sovereign) فرض کر لیا گیا اور اس بناء پر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جب بجائے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہو سکتا ہے۔ اسی بناء پر مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخر کار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کر دیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (Sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بناء پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔

دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساس ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

سوم یہ کہ جمہوریت کی کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط رائے عام پر ہے اور اس طرح کی رائے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور برے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں ابھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہو جائیں تو جمہوریت پر عملدرآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کر کے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقاء کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۶۰، عدد۳۔ جون ۱۹۶۳ء)