سائنسی دور میں اسلامی جہاد کی کیفیت

سوال: مسلمانوں کے جذبہ ’’جہاد‘‘ کو زندہ رکھنے کے لیے آج بیسویں صدی میں کیا طریق کار اختیار کیا جائے گا۔ جبکہ آج کی جنگ شمشیر وسناں سے یا میدان جنگ میں صف آراء ہو کر دست بدست نبرد آزمائی سے نہیں ہوتی بلکہ سائنسی ہتھیاروں، جنگی چالوں Strategy اور جاسوسی Secretservice سے لڑی جاتی ہے؟ آپ ایٹم بم، راکٹ، میزائل اور مشینی ایجادات وغیرہ کا سہارا لے کر اس سائنسی و ایٹمی دور میں ’’جہاد‘‘ کی تشریح کس طرح کریں گے؟ کیا چاند، مریخ و مشتری پر اترنے اور سٹیلائٹ چھوڑنے یا فضا میں راکٹ سے پرواز کرنے اور نت نئی ایجادات کرنے والے مجاہدین کے زمرے میں آسکتے ہیں؟ انتظامی امور اور مملکتی نظام (Civil Administration) میں فوج کو کیا مقام دیا جاسکتا ہے؟ موجودہ دور کے فوجی انقلابات سے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت اور افادیت بہت حد تک ثابت ہو چکی ہے۔ کیوں نہ فوج کو دور امن میں بٹھا کر کھلانے کے بجائے ہر میدان میں قوم کی خدمت سپرد ہو؟

جواب: جہاد کے متعلق اولین بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جہاد اور لڑاکا پن میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح قومی اغراض کے لیے جہاد اور چیز ہے اور جہاد فی سبیل اللہ اور چیز۔ مسلمانوں میں جس جذبہ جہاد کے پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک ان کے اندر ایمان ترقی کرتے ہوئے اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ خدا کی زمین سے برائیوں کو مٹانے اور اس زمین میں خدا کا حکم بلند کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جائیں۔ سردست تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اس جذبے کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تعلیم وہ دی جارہی ہے جو ایمان کے بجائے شک اور انکار پیدا کرے تربیت وہ دی جارہی ہے جس سے افراد میں اور سوسائٹی میں وہ برائیاں پھیلیں جنہیں ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہ برائیاں ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال لاحاصل ہے کہ مسلمانوں میں جذبہ جہاد کیسے پیدا ہوگا۔ موجودہ حالت میں یا تو مسلمان کرائے کا سپاہی (Mercenary) بنے گا یا حد سے حد قومی اغراض کے لیے لڑے گا۔ رہے سائنسی ہتھیار اور جنگی چالیں (Strategy) تو یہ وہ اسباب ہیں جو جائز اغراض اور ناجائز اغراض سب کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں اگر مسلمان میں سچا ایمان موجود ہو اور اسلام کا نصب العین اس کا اپنا نصب العین بن جائے تو وہ پورے جذبہ کے ساتھ تمام وہ قابلیتیں اپنے اندر پیدا کرے گا جو اس زمانے میں لڑنے کے لیے درکار ہیں اور تمام وہ ذرائع اور وسائل فراہم کرے گا جو آج یا آئندہ جنگ کے لیے درکار ہوں۔

چاند اور مریخ اور مشتری پر اترنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کولمبس کے امریکا پر اترنے اور واسکوڈی گاما کے جزائر شرق الہند پر اترنے سے زیادہ مختلف نہیں، اگر یہ لوگ مجاہد فی سبیل اللہ مانے جاسکتے ہیں تو چاند اور مریخ پر اترنے والے بھی مجاہدین بن جائیں گے۔

انتظامی امور اور مملکتی نظام (Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔ فوج بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔ اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں خواہ وہ سیاست کار (Politician) ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم (Civil Administration) ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔ فوج کا اس میدان میں اترنا لامحالہ فوج کو غیر ہر دلعزیز (Unpopular) بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقع پر ملک کا ہر فرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔ دنیا میں زمانہ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کو مفید ثابت نہیں کیا ہے بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے برے نتائج ظاہر کر دیے ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۶۲ء)