الخلافت یا الحکومت

سوال: اگر بیسوی صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان و نظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت و ریاست یعنی الخلافت یا الحکومت کس سے ممکن ہے؟

جواب: اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سدراہ ہیں ان کا اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انہیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبہ نے پیدا کیا ہے۔ مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلط ہوئیں تو انہوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ہمارے نظامِ تعلیم کو معطل کر کے اپنا نظام تعلیم رائج کیا۔ تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے ان سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار تھے اور ہر ملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دی جو ان کے قائم کردہ نظام تعلیم سے فارغ ہو کر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہوگیا جنہوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کو اختیار کیا تھا۔ اس طریقہ سے انہوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کر دی جو اسلام اور اس کی تاریخ اس کی تعلیمات اور اس کی روایات ہر چیز سے عملی طور پر بھی بیگانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بیگانہ۔ یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے۔ اور یہی اس غلط فہمی کا موجب بھی ہے کہ اسلام اس وقت قابل عمل نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیر اسلامی طریقے سے دی گئی ہو وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ جس نظام زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں اسی کو وہ قابل عمل تصور کر سکتے ہیں۔ اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو ہم من الحیث القوم کافر ہو جانے پر تیار ہو جائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ یا پھر خلوص اور ایمانداری کے ساتھ (منافقانہ طریق سے نہیں) اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقہ سے تجزیہ کر کے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے قابل لوگ تیار کر سکیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی کمیشن نے اس مسئلہ کی طرف کوئی اچٹتی ہوئی توجہ بھی نہیں کی۔ یہ مسئلہ بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کے قابل ہے اور جب تک ہم اسے حل نہیں کر لیں گے اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ کبھی ہموار نہ کر سکیں گے۔

ابن خلدون کے کسی نظریہ کی طرف رجوع کرنے سے اس مسئلہ کے حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی، کیونکہ اس مسئلہ کی جو نوعیت اب پیدا ہوئی ہے وہ ابن خلدون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ مسئلہ کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ مغربی استعمار رخصت ہوتے ہوئے ہمارے ملکوں میں اس نسل کو حکمران بنا کر چھوڑ گیا ہے جس کو اس نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب کا دودھ پلا پلا کر اس طرح تیار کیا تھا کہ وہ جسمانی حیثیت سے تو ہماری قوم کا حصہ ہے لیکن علمی، ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے انگریزوں، فرانسیسیوں یاولندیزیوں کا پورا جانشین ہے۔ اس طبقہ کی حکومت جو مشکلات پیدا کرتی ہے ان کو رفع کرنے کا معاملہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے حل کرنا ابن خلدون کے نظریات کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑے سنجیدہ غور و فکر کی اور حالات کو سمجھ کر اصلاح کے لیے نئی راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۷، عدد۱، اکتوبر ۱۹۶۱ء)