حجر اسود اور خانۂ کعبہ کے متعلق غیر مسلموں کی غلط فہمیاں

سوال: یہاں (اسلامک کلچر سینٹر لندن میں) چند انگریز لڑکیاں جمعہ کے روز آئی ہوئی تھیں۔ بڑے غور سے نماز کو دیکھتی رہیں۔ بعد میں انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ آپ لوگ جنوب مشرق کی طرف منہ کر کے کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ کسی اور طرف کیوں نہیں کرتے؟ وہ بھی تو ایک پتھر ہے جیسے دوسرے پتھر۔ اس طرح تو یہ بھی ہندوؤں ہی کی طرح بت پرستی ہوگئی، وہ سامنے بت رکھ کر پوجتے ہیں اور مسلمان اس کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہیں۔ ہم انہیں تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ براہِ کرم ہمیں اس کے متعلق کچھ بتائیں تاکہ پھر ایسا کوئی موقع ہو تو ہم معترضین کو سمجھا سکیں۔

جواب: قریب قریب اسی مضمون کے متعدد سوالات، ہندوستان کے مختلف حصوں سے بھی حال میں ہمارے پاس آئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوا کہ آج کل جگہ جگہ یہ سوال مسلمانوں کے سامنے چھیڑا جارہا ہے۔ ان معترضین میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی نہ کسی طرح اسلام پر اعتراض جڑنا ہوتا ہے اور دنیا میں کوئی جواب بھی ان کے لیے تسلی بخش نہیں ہوسکتا۔ البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں حقیقت حال سے ناواقفیت کی بناء پر نیک نیتی کے ساتھ شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ آپ انہیں معقولیت کے ساتھ حقیقت سے آگاہ کر دیں۔

بت پرستی کی حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے مختلف گروہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بعض دوسری ہستیوں کو بھی خدائی کی صفات اور اختیارات کا حامل سمجھتے ہیں، یا یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر حلول کیا ہے اور اس غلط عقیدے کی بناء پر وہ ان ہستیوں کے مجسمے اور آستانے بنا کر ان کے آگے عبادت کے مراسم ادا کرتے ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ کا بت آج تک کسی مشرک قوم نے نہیں بنایا ہے اور نہ اس کی پرستش کے لیے کبھی یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی خیالی شکل تیار کر کے اس کے آگے سربسجود ہوں۔ دنیا کی تمام مشرکین قریب قریب صاف طور پر یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شکل و صورت سے منزہ ہے۔ اس کا اور دوسرے معبودوں کا فرق ان کے عقائد اور مذہبی مراسم میں نمایاں طریقہ سے تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے بت صرف دوسرے معبودوں ہی کے بنائے گئے ہیں۔ اللہ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔

بت پرستی کی اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وہ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ مسلمانوں کا نماز میں خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرنا، یا حج میں کعبے کا طواف کرنا اور حجر اسود کو چومنا بت پرستی سے کوئی ادنیٰ سی وجہ مماثلت بھی رکھتا ہے۔ اسلام خاص توحیدی مذہب ہے جو اللہ کے سوا سرے سے کسی کو معبود ہی نہیں مانتا اور نہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ نے کسی کے اندر حلول کیا ہے، یا وہ کسی مادی مخلوق کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ خانہ کعبہ کو اگر غیر مسلموں نے نہیں دیکھا ہے تو اس کی تصویریں تو بہرحال انہوں نے دیکھی ہی ہیں۔ کیا وہ راست بازی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بت ہے جس کی ہم پرستش کر رہے ہیں؟ کیا کوئی شخص بدرستی ہوش و حواس یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ چوکور عمارت اللہ رب العالمین کی شکل پر بنائی گئی ہے؟ رہا حجر اسود تو وہ ایک چھوٹا سا پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی چار دیواری کے ایک کونے میں قد آدم کے برابر بلندی پر لگا ہوا ہے۔ مسلمان اس کی طرف رخ کر کے سجدہ نہیں کرتے، بلکہ خانہ کعبہ کا طواف اس مقام سے شروع کر کے اسی مقام پر ختم کرتے ہیں، اور ہر طواف پر اسے بوسہ دے کر یا اس کی طرف اشارہ کر کے شروع کرتے ہیں۔ اس کا آخر بت پرستی سے کیا تعلق ہے؟

اب رہی یہ بات کہ دنیا بھر کے مسلمان خانہ کعبہ ہی کی طرف رخ کر کے کیوں نماز پڑھتے ہیں۔ تو اس کا سیدھا سا جواب دیا ہے کہ یہ مرکزیت اور تنظیم کی خاطر ہے۔ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز اور ایک رخ متعین نہ کر دیا گیا ہوتا تو ہر نماز کے وقت عجیب افراتفری برپا ہوتی۔ انفرادی نمازیں ادا کرتے وقت ایک مسلمان کا منہ مغرب کی طرف ہوتا تو دوسرے کا مشرق کی طرف، تیسرے کا شمال کی طرف اور چوتھے کا جنوب کی طرف اور جب مسلمان نماز باجماعت کے لیے کھڑے ہوئے تو ہر مسجد میں ہر نماز سے پہلے اس بات پر ایک کانفرنس ہوتی کہ آج کس طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہر مسجد کی تعمیر کے وقت ہر محلے میں یہ جھگڑا برپا ہوتا کہ مسجد کا رخ کس طرف ہو! اللہ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کو ایک قبلہ مقرر کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ اور قبلہ اسی جگہ کو بنایا جسے فطرتاً مرکزیت حاصل ہونی چاہیے تھی، کیونکہ خدا پرستی کی یہ تحریک اسی جگہ سے شروع ہوئی تھی اور خدائے واحد کی پرستش کے لیے دنیا میں سب سے پہلا معبد وہی بنایا گیا تھا۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۶۱، عدد۲۔ نومبر ۱۹۶۳ء)