تصویر سے اظہارِ برأت

سوال: ماہِ جولائی ۱۹۶۲ء کے ترجمان (تفہیم القرآن) میں تصویر کے مسئلے کو جس خوبی سے آپ نے کتاب و سنت کی روشنی میں حل کیا ہے، ایمان کی بات ہے کہ ذہن مسلمان ہو تو حق بات دل میں اتر کر رہتی ہے۔ اگر واقعی تصویر حرام ہے تو پھر آپ کی تصویر اخبار میں دیکھی جائے تو بڑا رنج ہوتا ہے۔ عموماً علمائے کرام تصویر کو ناجائز بتاتے ہیں مگر ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔

جواب: آپ شاید اس خیال میں ہیں کہ آجکل بھی کسی شخص کی تصویر اسی وقت اتر سکتی ہے جب وہ خود کھنچوائے، حالانکہ اس زمانے میں آدمی کی تصویر بالکل اسی طرح اتاری جاتی ہے جیسے کسی شخص کو اچانک گولی مار دی جائے۔ اخبارات میں میری جو تصویریں شائع ہوئی ہیں ان میں میری مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ تصویر کے بارے میں، میں نے اپنا مسلک شروع سے واضح کر رکھا ہے۔ اگر اس کے باوجود بھی لوگ تصویر لینے سے باز نہیں آتے تو اس کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے اور آپ کو مجھ سے پوچھنے کے بجائے ان سے پوچھنا چاہیے۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۸، عدد۶۔ ستمبر ۱۹۶۲ء)