پاکستان میں مسیحیت کی ترقی کے اصل وجوہ

سوال: اس ملک کے اندر مختلف قسم کے فتنے اٹھ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ عیسائیت ہے۔ اس لیے کہ بین المملکتی معاملات کے علاوہ عام مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی کی وجہ سے اس فتنہ سے جو خطرہ لاحق ہے وہ ہر گز کسی دوسرے فتنہ سے نہیں۔

اندریں حالات جب کہ اس عظیم فتنے کے سدباب کے لیے تمام تر صلاحیت سے کام لینا ازحد ضروری تھا۔ ابھی تک جناب کی طرف سے کوئی موثر کارروائی دکھائی نہیں دیتی بلکہ آپ اس فتنہ سے مکمل طور پر صَرف نظر کر چکے ہیں۔ ابھی تک اس طویل خاموشی سے میں یہ نتیجہ اخذ کر چکا ہوں کہ آپ کے نزدیک مسیحی مشن کی موجودہ سرگرمی مذہبی اعتبار سے قابل گرفت نہیں اور اس فتنے کو اس ملک میں تبلیغی سرگرمی جاری رکھنے کا حق حاصل ہے، خواہ مسلمانوں کے ارتداد سے حادثہ عظمیٰ کیونکر ہی پیش نہ ہو۔ مہربانی فرما کر بندہ کی اس خلش کو دور کریں۔

جواب: جن فتنوں کے پھیلنے کا انحصار نشرو تبلیغ پر ہو۔ ان کا مقابلہ تو بیشک نشرو تبلیغ سے کیا جاسکتا ہے اور اس کام میں دانستہ کوتاہی میں نے کبھی نہیں کی ہے لیکن جن فتنوں کو پھیلانے میں اختیارات کی طاقت کارفرما ہو ان کے علاج کی کوئی صورت اس طاقت کی اصلاح یا تبدیلی کے سوا نہیں ہے۔ ان کو محض نشرو تبلیغ سے نہیں روکا جاسکتا۔

عیسائیت کے معاملہ میں یہی صورت پیش آرہی ہے، جیسا کہ آپ نے خود بھی اپنے خط میں اعتراف کیا ہے جو لوگ اس ملک میں عیسائیت قبول کر رہے ہیں یا پہلے جنہوں نے قبول کی ہے، ان میں سے بہت ہی کم ایسے ہوں گے جنوں نے دلیل کی بناء پر یہ مان لیا ہو کہ خدا تین ہیں، یا حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے تھے۔ یا ایک شخص کا سولی پر چڑھ جانا دوسروں کے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے عقائد کو صحیح مان کر اور اسلام کے معقول عقائد کو غلط سمجھ کر مسلمانوں سے عیسائی بن جانے والے آخر کتنے ہو سکتے ہیں۔ دراصل جو چیز لوگوں کو عیسائیت کی آغوش میں کھینچے لیے جارہی ہے وہ مسیحی مشنریوں کی تبلیغ نہیں بلکہ مشن اسپتالوں اور اسکولوں کی کارگزاری ہے جسے فروغ دینے میں ہماری اپنی حکومت کی بالواسطہ اور بلاواسطہ امداد کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس پر مزید وہ غیر معمولی اثر و رسوخ ہے جو عیسائی پادریوں کو ہمارے حکام عالی مقام کی بارگاہوں میں حاصل ہے۔ یہ عیسائیت کے پھیلنے میں مددگار ہو رہا ہے۔ ان اسباب کی جب تک روک تھام نہ ہو، میری، آپ کی، یا تمام علماء کی مجموعی تبلیغ سے بھی کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔

عیسائی اسپتالوں میں ہر شخص جاکر خود دیکھ سکتا ہے کہ وہ نہ بے غرض خدمت خلق کے ادارے ہیں اور نہ علاج کے تجارتی ادارے بلکہ ان میں کھلم کھلا ایمان خریدنے کا کاروبار ہو رہا ہے۔ ان اداروں میں مسلمانوں سے علاج کی خوب فیسیں لی جاتی ہیں اور عیسائیوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دین مسیحی کی تبلیغ بھی مریضوں پر کی جاتی ہے۔ اس حالت میں ایک غریب آدمی کے لیے جو اپنا یا اپنے کسی عزیز کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس امر کی بہت بڑی تحریص موجود ہے کہ اپنا دین تبدیل کر کے علاج کی سہولتیں حاصل کر لے۔

مسیحی مدرسوں اور کالجوں میں بھی یہی صورت ہے کہ ان میں مسلمانوں سے خوب فیسیں لی جاتی ہیں اور عیسائیوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے، بلکہ ان کے لیے بیرون ممالک میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں فراہم کر دی جاتی ہیں یہاں پھر غریبوں کے لیے یہ تحریص موجود ہے کہ جو تعلیم وہ اپنے بچوں کو خود نہیں دلا سکتے، اس کا انتظام محض مذہب تبدیل کرنے سے ہو سکتا ہے اور دنیوی ترقی کے دروازے ان کے لیے کھل سکتے ہیں۔

یہ دونوں قسم کے ادارے ہمارے ملک میں ایک طرف تو بیرونی روپے سے چل رہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اپنی حکومت ہر طرح ان کی امداد کر رہی ہے۔ ان کو گرانٹ دی جاتی ہے۔ ان کو زمینیں دی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ وہ رعایتیں کی جاتی ہیں جو خود مسلمانوں کے مذہبی اداروں کے ساتھ کبھی نہیں کی گئیں اور ان کے معاملہ میں اس سوال سے بالکل آنکھیں بند کر لی گئی ہیں کہ باہر سے آنے والا یہ روپیہ جو ان اداروں پر خرچ ہو رہا ہے، اور غیر ممالک کے مشنری ہمارے شہروں اور دیہات میں پھیل کر اس روپے سے جو کام لے رہے ہیں، اس کے پیچھے خالص دینی تبلیغ کے علاوہ اور کیا اغراض کار فرما ہیں اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہمارے اپنے ہی حکمران مذہبی رواداری کے تمام معقول حدود سے تجاوز کر کے اس بات پر نہ صرف راضی ہیں بلکہ اس میں خود مددگار بن رہے ہیں کہ دوسرے لوگ روپے کے زور سے مسلمانوں کے ایمان خرید لیں۔

مسیحی پادریوں کے اثر و رسوخ کا یہ حال ہے کہ آج ہمارے دیہاتی علاقوں میں غیر مسیحی عوام کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لیے کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہر جگہ مسیحی برادری کا پشت پناہ ایک پادری موجود ہے جو تھانے سے لے کر سیکریٹریٹ تک ہر درجے اور مرتبے کے حکام سے مسیحیوں کو نہ صرف انصاف دلواتا ہے بلکہ ان کے لیے بے جا رعایتیں تک حاصل کر لیتا ہے۔ مسلمانوں کے کسی عالم کو ان حاکموں کی بارگاہوں میں وہ رسائی حاصل نہیں ہے جو عیسائی پادریوں کو حاصل ہے۔ مسلمان علماء ان تمام حکام کی نگاہوں میں ویسے ہی ذلیل و خوار ہیں جیسے انگریز حاکموں کی نگاہ میں کبھی تھے۔ مگر مسیحی پادری ان کا بھی اسی طرح ’’فادر‘‘ ہے جس طرح انگریز حاکموں کا تھا۔ یہ ایک اور سبب ہے جس کی بناء پر دیہات کے بے سہارا لوگ اپنے آپ کو پولیس اور زمینداروں اور بااثر غنڈوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مسیحیت میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

یہ تو غریبوں میں مسیحیت کے پھیلنے کے اسباب ہیں۔ رہے کھاتے پیتے طبقے، تو ہماری حکومت ہی کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ خوشحال لوگ اپنی اولاد کو اردو زبان اور اپنی قومی تہذیب اور اپنے دین کی تعلیم و تربیت دینا لاحاصل سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی تعلیم و تربیت دلوانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ زبان اور اطوار و عادات کے اعتبار سے پورے انگریز یا امریکی بن جائیں۔ اس غرض کے لیے وہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو مسیحی اداروں میں بھیجتے ہیں جہاں کا پورا ماحول ان کو اسلام اور اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی تعلیمات سے محض ناواقف ہی نہیں بلکہ منحرف اور باغی بنا دیتا ہے۔ اس کے بعد اگر یہ نوجوان عیسائی نہ بھی بنیں تو بہرحال مسلمان تو نہیں رہتے۔ بلکہ مسلمانوں کی بہ نسبت عیسائیوں سے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ یہی لوگ تعلیم سے فارغ ہو کر ہمارے بڑے بڑے افسر بنتے ہیں اور اونچے عہدے انہی کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں۔ ان سے کون یہ امید کر سکتا ہے کہ ان کی ہمدردیاں مسیحیت کے مقابلے میں کبھی اسلام کے ساتھ ہو سکیں گی اور مسیحیت کے فروغ کو روکنے کا کوئی جذبہ ان میں پیدا ہو سکے گا۔

ان حالات میں آپ خود بتایئے کہ محض مسیحی عقائد کی تردید میں مضامین لکھنے یا گاؤں گاؤں تبلیغ کے لیے دورے کرنے سے مسیحیت کے اس سیلاب کو کہاں تک روکا جاسکتا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۸، عدد۳۔ جون ۱۹۶۲ء)