چند جدید ملحدانہ نظریات کا علمی جائزہ

سوال: میرے ایک عزیز جو ایک اونچے سرکاری منصب پر فائز ہیں، کسی زمانے میں پکے دیندار اور پابند صوم و صلوٰۃ ہوا کرتے تھے لیکن اب کچھ کتابیں پڑھ کر لامذہب ہوگئے ہیں۔ ان کے نظریات یکسر بدل چکے ہیں۔ ان نظریات کی تبلیغ سے بھی وہ باز نہیں آتے میں ان کے مقابلے میں اسلامی احکام و تعلیمات کی مدافعت کی پوری کوشش کر رہا ہوں لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے گزارش ہے کہ میری مدد فرمائیں۔ ان کے موٹے موٹے نظریات درج ذیل ہیں:

۱۔ خدا کو وہ قادرِ مطلق اور اس جہاں کا پیدا کرنے والا تو مانتے ہیں مگر ان کے نزدیک جہاں کو خدا نے بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ اور اب یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے آپ سے آپ (Automatic) ہو رہا ہے۔

۲۔ رسولﷺ کو وہ ایک مصلح (ریفارمر) سے زیادہ درجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ انہیں وہ نیک اور غیر معمولی قابلیت کا انسان بھی سمجھتے ہیں۔

۳۔ قرآن شریف کو وہ (معاذ اللہ) رسولﷺ خدا کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ ان کی بہت سی باتوں کو اس وجہ سے ناقابل عمل سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اس وقت کے لیے تھیں، جب قرآن نازل ہوا۔

۴۔ عبادات، نماز، روزہ وغیرہ کو صرف برائی سے بچنے کا بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ سمجھتے ہیں۔

۵۔ نظریۂ شیطان ان کے خیال میں خدا کے واسطے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ خدا تو نیکی کی توفیق دیتا ہے اور شیطان برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ اور بظاہر تو عام طور پر شیطان کی جیت ہوتی ہے۔

۶۔ چار شادیوں، غلام رکھنے اور قربانی کو لغو قرار دیتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کچھ وقت نکال کر ان باتوں کا مختصر جواب دیں گے اور ان کتابوں کے نام جہاں سے میں ان کی تسلی کر سکوں درج فرما کر ممنون کریں گے۔

جواب: مجھے آپ کے عزیز عہدے دار کے خیالات معلوم کر کے بڑا افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، اور آپ کو ان کے اثر سے محفوظ رکھے۔ اگر آپ نے میری کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو آپ ان کی سب باتوں کا جواب بڑی اچھی طرح دے سکتے تھے۔ اب بھی میں آپ کو مطالعہ کر کے تیار رہنے کا مشورہ دوں گا۔ کیونکہ خط و کتابت میں اتنے بڑے بڑے مسائل کو سمجھانا بڑا مشکل ہے۔

مختصراً میں ان باتوں کا جواب دیتا ہوں جو آپ نے پوچھی ہیں۔

۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص کی قوت فکر ماؤف نہ ہو وہ کبھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی قانون اور نظم (Law and Order) کسی نافذ کرنے والے اقتدار (Authortity) کے بغیر بھی نافذ ہو سکتا ہے اور جاری رہ سکتا ہے۔ کائنات میں قانون اور نظم موجود ہے۔ اس کا انکار تو کسی طرح کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اب کیاعقل یہ باور کر سکتی ہے کہ اتنے بڑے لامحدود پیمانے پر لامحدود مدت تک یہ قانون اور نظم کسی اقتدار کے بغیر ہی چل رہا ہے کوئی غیر متعصب عقل تو اسے باور نہیں کرسکتی۔ مگر دو باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے اچھے خاصے ہوش مند انسان اس نادانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی فکر و نظر کا ظرف بہت تنگ ہے جس کے باعث وہ اس عظیم الشان اقتدار کا تصور کرنے سے عاجز رہ گئے ہیں جو اتنی بڑی کائنات میں نظم اور قانون کو ازل سے ابد تک چلا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس کو ماننا چاہتے ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ اس کو مان لینے کے بعد ان کے لیے دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی باقی نہیں رہتی۔

یہ تو خدا کے متعلق ان کے تصور کی غلطی ہے۔ لیکن جو حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ان سے عرض کیجیے کہ اتنے بڑے بڑے مسائل پر سوچنے اور اظہارِ رائے کرنے والے آدمیوں کو کم ازکم ایماندار (Honest) تو ہونا چاہیے۔ آپ لوگ تو اس صفت سے بھی خالی ہیں۔ آپ خدا اور رسول اور قرآن کے متعلق جو باتیں کرتے ہیں وہ اسلام کے بالکل خلاف ہیں، مگر اس کے باوجود آپ مسلمان بنے پھرتے ہیں اور مسلم معاشرے کو دھوکا دینے میں آپ کوئی تامل نہیں کرتے۔ اگر آپ ایماندار ہوتے تو جس وقت آپ نے یہ آراء قائم کی تھیں اسی وقت اسلام سے اپنی علیحدگی کااعلان کر دیتے اوراپنے نام بھی تبدیل کر لیتے تاکہ مسلم معاشرہ آپ سے دھوکا کھا کرآپ کے ساتھ وہ معاملات جاری نہ رکھتا جو وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ رکھنا پسند نہیں کرتا۔ اس صریح جعلسازی اور فریب کے بعد آپ کی کسی رائے کو وہ وقعت دینا جو صرف ایماندار اور مخلص آدمیوں کی آراء ہی کو دی جاسکتی ہے، ہمارے لیے سخت مشکل ہے۔

۲۔ رسولﷺ کے بارے میں ان کے خیالات متضاد ہیں۔ ایک طرف وہ رسول اللہﷺ کو نیک آدمی کہتے ہیں، جس سے لازم آتا ہے کہ وہ اس کو سچا آدمی بھی مانیں (الا یہ کہ ان کے نزدیک کوئی جھوٹا آدمی بھی نیک ہو سکتا ہو) اور دوسری طرف وہ رسول اللہﷺ کے اس دعوے کو جھوٹ بھی قرار دیتے ہیں کہ وہ محض ریفارمر نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ایک صحیح العقل آدمی ان دونوں باتوں کو جمع نہیں کر سکتا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد رسول اللہﷺ نے ۲۳ سال تک اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے مخالفین کے مقابلہ میں ایک ایسی جدوجہد (Struggle) کرتے ہوئے گزارا ہے جس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ آپﷺ اپنی رسالت کے مدعی تھے اور آپ کے مخالفین اسی بات کو نہ ماننا چاہتے تھے۔ اب ایک شخص کے لیے محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں دو ہی رویے اختیار کرنا معقول ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر وہ ان کو سچا آدمی سمجھتا ہے تو ان کو رسولﷺ مانے۔ دوسرے یہ کہ وہ اگر ان کو رسولﷺ نہیں مانتا تو معاذاللہ انہیں بدترین جھوٹ اور فریب کا مرتکب خیال کرے۔ ان دونوں باتوں کے درمیان ایک تیسری راہ اختیار کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سچے آدمی بھی تھے اور رسول بھی نہ تھے، سراسر غیر معقول بات ہے۔

اس کے جواب میں ایسے لوگوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ دو باتیں کہی جاسکتی ہے۔ ایک یہ کہ محمد رسول اللہﷺ نے محض اصلاح کی خاطر رسالت کا دعویٰ کر دیا تاکہ وہ خدا کے نام سے وہ احکام تسلیم کراسکیں جو وہ اپنے نام سے پیش کر کے نہ منوا سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے اس دعوے میں مخلص تو تھے مگر حقیقت میں رسولﷺ نہ تھے۔ بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ رسول ہیں۔

ان میں سے پہلی بات جو شخص کہتا ہے وہ میرے نزدیک اخلاقی حیثیت سے بڑا خطرناک آدمی ہے جس سے ہر شریف انسان کو ہوشیار ہونا چاہیے اس لیے کہ اگر ہم اس کے اس خیال کا تجزیہ کریں تو صریحاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے نزدیک نیک مقصد کے لیے برا طریق کار اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ قابل وقعت (Respectable) بھی ہے اسی وجہ سے وہ ایسے آدمی کو مصلح اور نیک آدمی سمجھتا ہے جس نے اس کے خیال میں محض اصلاح کرنے کے لیے (نعوذ باللہ) دعوائے رسالت جیسا عظیم الشان فریب گھڑ لیا تھا۔ اس طرح کے گھٹیا نظریات رکھنے والے آدمی سے کچھ بعید نہیں ہے کہ کل وہ کسی اچھے مقصد کے لیے (جس کو وہ اچھا سمجھتا ہو) کسی کے ہاں چوری کر ڈالے، یا کوئی جعلی دستاویز بنالے، یا اور کسی گھناؤ نے اخلاقی جرم کا مرتکب ہو جائے۔ کیونکہ جب اس کے نزدیک ایک فریبی اسی بناء پر نیک اور مصلح ہو سکتا ہے کہ اس نے اصلاح کے لیے فریب کاری کی ہے، تو آخر وہ خود اچھے مقاصد کے لیے جرائم کرنے سے کب باز رہ سکتا ہے۔

دوسری بات جو شخص کہتا ہے وہ عقلی حیثیت سے اتنا ہی پست ہے جتنا اوپر والی بات کہنے والا اخلاقی حیثیت سے پست ہے۔ زیادہ سے زیادہ رعایت (Allowance) دیتے ہوئے ایسے شخص کے متعلق جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ شخص بہت بڑے مسائل پر بہت کم سوچ کر اظہار رائے کر دینے کامریض ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ اس کم عقلی میں مبتلا نہ ہوتا تو کبھی اس بات کو ممکن خیال نہ کرتا کہ ایک شخص اتنا عقیل و فہیم بھی ہو کہ اسے تاریخ انسانی کے بلند ترین اور کامیاب ترین لیڈروں میں شمار کرنے سے اس کے مخالفین بھی انکار نہ کرسکیں، اور دوسری طرف وہ اپنے بارے میں ۲۳ سال تک مسلسل اتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور اپنا سارا کام اسی غلط فہمی کی بنیاد پر چلاتا رہے، بلکہ آئے دن قرآن کی پوری پوری سورتیں خود تصنیف کر کر کے دنیا کو سناتا رہے اور پھر بھی وہ اس غلط فہمی میں پڑا ہوا ہو کہ یہ سورتیں میرے اوپر خدا کی طرف سے نازل ہو رہی ہیں۔ میرے نزدیک تو اس بات کو ممکن اور معقول سمجھنے والے آدمی کی اپنی عقل ہی مشتبہ ہے۔ اس کی عقل درست ہوتی تو وہ خود جان لیتا کہ اس طرح کی غلط فہمی صرف مجنون آدمیوں کو لاحق ہوا کرتی ہے، اور کسی مجنون آدمی سے وہ کمال درجہ کے مدبرانہ اور حکیمانہ کارنامے صادر نہیں ہو سکتے جو محمد رسول اللہﷺ سے صادر ہوئے ہیں۔

۳۔ قرآن کے متعلق ان کے جو خیالات آپ نے نقل کیے ہیں ان کے بارے میں بھی میری وہی رائے ہے جو میں نے اوپر عرض کی ہے کہ وہ کسی چیز سے پوری واقفیت بہم پہنچائے بغیر اور اس پر کافی غور کیے بغیر رائے قائم کرنے کے خوگر ہیں۔ ان سے پوچھیے کہ آپ نے ساری عمر میں کتنی دفعہ قرآن کا گہرا تحقیقی مطالعہ فرمایا ہے، جس کے بعد آپ اس کے بارے میں یہ فیصلہ دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ اگر وہ ایمانداری کے ساتھ تسلیم فرمالیں کہ انہوں نے اس طرح کا تحقیقی مطالعہ نہیں کیا ہے، تو ان سے گزارش کیجیے کہ تحقیق کے بغیر ایسے اہم مسائل میں فیصلے صادر کرنا کسی ذی ہوش اور تعلیم یافتہ آدمی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اور اگر ان کا دعویٰ یہ ہو کہ انہوں نے خوب تحقیق کر کے یہ رائے قائم کی ہے تو ان سے دریافت کیجیے کہ قرآن کے اندر انہوں نے وہ کون سی شہادت پائی ہے جسے دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہﷺ کا اپنا کلام ہے۔ نیز یہ بھی دریافت کیجیے کہ قرآن کی کن کن باتوں کو انہوں نے ناقابل عمل، یا زمانہ نزول قرآن تک کے لیے قابل پایا ہے۔ ان امور کی تعین ان سے کرا لیجیے اور پھر مجھے لکھیے تاکہ میں بھی کچھ ان کے نتائج تحقیق سے استفادہ کر سکوں۔

۴۔ عبادات کے بارے میں ان کے جو نظریات آپ نے بیان کیے ہیں وہ بھی سخت ژولیدہ فکری (Confused Thinking) بلکہ بے فکری کا نمونہ ہیں۔ شاید انہوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ نماز روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں برائی سے بچنے کا بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہو سکتے ہیں جب کہ انہیں خلوص کے ساتھ کیا جائے، اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کاربند ہو سکتا ہے جب وہ ایمانداری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اللہﷺ واقعی اللہ کے رسولﷺ تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلاف واقعہ سمجھتا ہو، اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اللہﷺ نے محض اصلاح کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادات برائی سے بچانے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکیں گے۔ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف ان فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں، بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پاؤڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔

۵۔ شیطان کے مسئلے پر ان کا اعتراض دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری عمر میں کبھی ایک مرتبہ بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں فرمائی کہ قرآن مجید انسان اور شیطان کے معاملے کی کیا حقیقت بیان کرتا ہے۔ اس کو جانے بغیر انہوں نے محض کچھ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اس مسئلے کا سطحی سا تصور قائم کر لیا اور اس پر اعتراض جڑ دیا۔ یہ اعتراض درحقیقت ان کے اپنے ہی تصور پر وارد ہوتا ہے۔ اس تصور پر اس کی کوئی زَد نہیں پڑتی جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ قرآن کا پیش کردہ تصور یہ ہے کہ خدا نے انسان کو ایک محدود نوعیت کی آزادی و خود مختاری دے کر اس دنیا میں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور شیطان کو خود اس کے مطالبے پر یہ آزادی عطا کی ہے کہ وہ اس امتحان میں انسان کو ناکام کرنے کے لیے جو کوشش کرنا چاہے کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ صرف ترغیب و تحریص کی حد تک ہو۔ زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جانے کے اختیارات اسے نہیں دیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خود بھی انسان کو جبراً راہ راست پر چلانے سے احتراز فرمایا ہے، اور صرف اس بات پر اکتفا فرمائی ہے کہ انسان کے سامنے انبیاء اور کتابوں کے ذریعہ سے راہ رست کو پوری طرح واضح کر دیا جائے۔ اس کے بعد خدا کی طرف سے آدمی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو خدا کی پیش کردہ راہ کو اپنے لیے چُن لے اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرے اور چاہے تو شیطان کی ترغیبات قبول کر لے اور اس راہ میں اپنی کوششیں اور محنتیں صَرف کرنے پر آمادہ ہو جائے جو شیطان اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ان دونوں راہوں میں سے جس کو بھی انسان خود اپنے لیے انتخاب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسی پر چلنے کے مواقع اسے دے دیتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر امتحان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ اس پوزیشن کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد بتائے کہ شیطان کا چیلنج دراصل کس کے لیے ہے؟ خدا کے لیے یا انسان کے لیے؟ اور انسانوں میں سے جو لوگ شیطان کی راہ پر جاتے ہیں ان کے معاملہ میں شیطان کی جیت خدا پر ہوتی ہے یا انسان پر؟ خدا نے تو آدمی اور شیطان کو آزادانہ کشتی لڑنے کا موقع دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ آدمی جیتے گا تو جنت میں جائے گا اور شیطان جیتے گا تو ہارنے والا آدمی اور اس کو غلط راہ پر لے جانے والا شیطان دونوں جہنم میں جائیں گے۔ اب کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا اس کے مقابلے میں مداخلت کر کے زبردستی انسان کو کامیاب کرائے؟

۶۔ چار شادیوں اور غلامی اور قربانی کے بارے میں مختصر طریقے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں ان جملہ مسائل پر متعدد مرتبہ تفصیلاً اظہارِ خیال کر چکا ہوں تعداد ازدواج کے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے آپ میری تفسیر تفہیم القرآن حصہ اول کے متعلق مقامات انڈکس کی مدد سے نکاح، قانون اسلامی اور ازدواجی زندگی کے تحت مطالعہ کریں۔ علاوہ ازیں حکومت کے مقرر کردہ میرج کمیشن کے سوالنامے کا جو جواب میں نے دیا تھا اس میں بھی اس مسئلے پر بحث موجود ہے۔

غلامی کے مسئلے پر آپ میرے درج ذیل مضامین مطالعہ فرمائیں۔

۱۔ رسائل و مسائل حصہ اول مضمون ’’میدان جنگ میں قحبہ گری‘‘۔

۲۔ رسائل و مسائل حصہ دوم ’’اسلام میں غلامی کو ممنوع کیوں نہ کر دیا گیا؟‘‘۔

۳۔ تفہیمات حصہ دوم، مضمون ’’غلام کا مسئلہ‘‘ نیز ’’غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق چند سوالات‘‘۔

۴۔ تفہیم القرآن حصہ اول ودوم۔ انڈکس میں غلامی کے زیر عنوان صفحات کا حوالہ موجود ہے۔

۵۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ شمارہ جون ۵۶ء ’’کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل۔ تعداد ازواج اور لونڈیاں‘‘۔

قربانی کے متعلق آپ میری کتاب تفہیمات حصہ دوم میں قربانی کے متعلق مضامین، نیز میرا رسالہ ’’مسئلہ قربانی‘‘ مطالعہ فرمائیں۔

ان ساری تحریروں سے انشاء اللہ آپ کو افہام و تفہیم میں مزید مدد ملے گی۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۸، عدد ۳۔ جون ۱۹۶۲ء)