انسانیت کے مورثِ اعلیٰ، حضرت آدمؑ

سوال:(۱) قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر جس انداز سے کیا ہے وہ اس حقیقت کا آئندہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔ اس سلسلہ میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے نا آشنا ہیں۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سوائے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلہ ارتقاء کو تقویت پہنچاتی ہے مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملہ میں رہنمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟

(ب) حضرت آدمؑ تاریخ کے کس دور میں پیدا ہوئے؟ اس ضمن میں مذہب جو معلومات ہمیں فراہم کرتا ہے نفسیاتی اور ارضیاتی حقائق ان کی تائید نہیں کرتے۔ کیا آدم اور حوا کا یہ قصہ ایک تمثیل اور مجازی چیز نہیں؟

جواب:(۱) میں حضرت آدمؑ کو نوع انسانی کا پہلا فرد سمجھتا ہوں اور میرا یہ بھی خیال ہے کہ پہلے فرد کی براہ راست تخلیق (Direct Creation) کی گئی تھی اور یہ کہ اس فرد کو پیدا کرکے یونہی چھوڑ نہیں دیا گیا کہ خود ہاتھ پاؤں مار کر فکری اور عملی تہذیب کی جانب پیش قدمی کرے، بلکہ اسے خداوند تعالیٰ کی رہنمائی و نگرانی میں وہ ابتدائی تربیت بھی دی گئی جو تہذیبِ انسانی کی داغ بیل ڈالنے کے لیے لازماً درکار تھی۔ آپ غور کریں تو خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہر نوع کے افراد کو زندگی کا آغاز کرنے کے لیے کچھ بنیادی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ حیوانات کے افراد کو یہ رہنمائی بہت کم اور محدود پیمانے پر درکار ہوتی ہے اور وہ ہر بچہ حیوان کو بالعموم اس کے ماں باپ یا دوسرے افراد نوع سے ملتی ہے۔ انسان کا بچہ اس سے بہت زیادہ اور بڑے پیمانے پر نگہبانی و رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے جو اگر نہ ملے تو وہ یا تو زندہ ہی نہیں رہ سکتا یا بچہ انسان کی حیثیت سے نشوونما نہیں پاسکتا۔ یہ ابتدائی اور ضروری رہنمائی میرے نزدیک ہر نوع کے پہلے فرد کو اور اسی طرح نوع انسانی کے بھی اولین فرد کو اس کی ضرورت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔

یہ بات کہ انسان کبھی تہذیب سے بالکل عاری اور اپنی حالت میں پوری طرح حیوانات کی سطح پر تھا، محض ایک مفروضہ ہے جو اس دوسرے مفروضے پر قائم کیا گیا ہے کہ انسان حیوانات میں سے ترقی کرتا ہوا حالت انسانی کو پہنچا ہے۔ اس وقت تک کے مشاہدات میں کوئی چیز ان دونوں مفروضات کی تائید کرنے والی، تائید اس معنی میں کہ انہیں ثابت کردے، نہیں ملی ہے۔ اس کے برعکس قدیم ترین آثار میں بھی جہاں کہیں انسان (نہ کوئی خیالی مفقود حلقہ (Missing Link) ملا ہے، وہیں تہذیب کے بھی نشانات ملے ہیں چاہے وہ کیسے ہی ابتدائی مرحلے کے ہوں۔ خالص غیر مہذب وغیر متمدن انسان مثل حیوان، اب تک کہیں نہیں پایا گیا ہے۔ جن کو آپ غیر متمدن (Savage) کہتے ہیں ان میں اور حیوانی زندگی کی برتر صورتوں میں اگر واقعی تقابل کیا جائے تو ایسے بنیادی فرق پائے جائیں گے کہ حیوان کی کسی اونچی سے اونچی قسم کو انسان کی کسی ادنیٰ وحشیانہ حالت سے بھی کوئی نسبت نہ ہوگی۔ یہ دراصل ارتقاء خولیا ہے جس کی وجہ سے کچھ سطحی تشابہات کو انسان و حیوان میں مماثلت کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ بالکل ابتدائی حالت میں بھی چند چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور انسان اور حیوان میں فرق کر دیتی ہیں۔ مثلاً حیا جس کا اظہار اعضائے جنسی کو چھپانے اور مباشرت میں اخفاء سے کام لینے کی صورت میں ہوتا ہے۔ الفاظ اور اشارات کی شکل میں اظہارِ خیال جو حیوانات کی آوازوں سے بالکل بنیادی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ قوت ایجاد جو حیوانات کی جبلت کے تحت لگی بندھی صنعتوں سے کلیتاً اپنی نوعیت میں بالکل ایک مختلف چیز ہے۔ ارادی اور غیر ارادی افعال میں فرق کرنا اور ارادی افعال پر اخلاقی احکام لگانا جو حیوانات کی کسی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ شکل میں بھی موجود نہیں ہے۔ مذہبی حس جو حیوانات میں مقصود ہے مگر انسانوں کا کوئی گروہ انتہائی وحشت کی حالت میں بھی اس سے خالی نہیں پایا گیا ہے۔

(ب) آدم کا زمانہ وجود متحقق کرنے کا ابھی تک کوئی ذریعہ نہیں ملا ہے۔ کوئی علم اس معاملہ میں یقینی یا قریب بہ یقین معلومات فراہم نہیں کرتا۔ یہ علم صرف انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے۔ البتہ علم تناسل اور قیاس عقلی کی مدد سے دو نظریے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ یا تو یہ کہ موجودہ انسانی نسل متعدد انسانی مورثوںکے نطفے سے نکلی ہو۔ یا پھر یہ کہ اس کا ایک ہی مورث ہو اور اس سے حیاتِ انسانی ان بے شمار افراد تک منتقل ہوئی ہو۔ آپ خود دیکھ لیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ زیادہ قریب عقل ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۳، عدد۲۔ نومبر ۱۹۵۹ء)