اذکارِ مسنونہ

سوال: آج آپ کی خدمت میں ایک خلش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ توقع ہے کہ میری پوری مدد فرمائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک بریلوی خاندان کا فرد ہوں۔ بچپن میں غیر شعوری حالت میں والد بزرگوار نے حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ کے سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔

حضرت سلطان باہوؒ ضلع جھنگ کے ایک مشہور باخدا بزرگ ہیں جو حضرت اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں گزرے ہیں۔ حضرت نے تبلیغ و اشاعت دین میں پوری ہمت دکھائی اور جہاد میں بھی شرکت فرمائی۔

سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم فرائض کے پابند، کبائر سے مجتنب خدا یاد آدمی تھے۔ دربار پر جاتے تو مسنون طریقے سے دعائے مغفرت کرتے۔ لوگوں نے دربار کا طواف شروع کر دیا تو موصوف نے دربار کے اندر ایک ایسی دیوار بنوا دی جس سے طواف ناممکن ہوگیا۔ ان کے ان اعمال اور خدا یاد ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے بے حد عقیدت تھی۔ مگر افسوس کہ اکتساب سے قبل میری کم عمری میں انتقال فرما گئے۔ پھر ایک اور بزرگ سے کچھ اوراد حاصل کیے جنہیں باقاعدگی سے پڑھتا تھا ۴۳ء میں جماعت کی رکنیت سے سرفراز ہوا۔

اس کے بعد میرے اندر ایک زبردست کشمکش ہوئی۔ وہ یہ کہ سکونِ قلب کے لیے رکنیت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا کافی محسوس ہوتا رہا۔ مگر ساتھ ہی اپنی توجہات کو سمیٹ کر ایک مرکز پر مجتمع رکھنے کے لیے اوراد و وظائف کی تشنگی محسوس ہوتی۔ اس مقصد کے لیے جب مختلف حضرات کی طرف نظر دوڑاتا تو اقامت دین کے بنیادی تقاضوں سے ان کی غفلت ان کی ساری وقعت گھٹا دیتی۔ اس کشمکش میں مدت ہوئی مبتلا ہوں۔ بعض دوستوں سے اپنی حالت کا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ بالآخر طبیعت کا رجحان اس طرف ہوا کہ اس معاملہ میں بھی آپ ہی کی طرف رجوع کروں۔

میری درخواست ہے کہ اذکار و اوراد مسنونہ میں سے کچھ ایسی چیز یا چیزیں میرے لیے تجویز فرمائیں جو:

۱۔ میری طبیعت سے مناسبت رکھتی ہوں اور…

۲۔ جن سے پندرہ بیس پچیس منٹ صَرف کرکے اپنی توجہات کو سمیٹنے میں مدد لیا کرو۔ مجھے پوری توقع ہے کہ آپ اس معاملہ میں بھی رہنمائی فرمائیں گے۔

جواب: ذکر کے معاملے میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ ذکر بتکلف نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ دلی رغبت اور شوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ذکر کا انتخاب اپنے دلی ذوق کی بناء پر کرنا چاہیے۔ ذکر وہ کیجیے جس سے خود اپنی روح کی مناسبت آپ کو محسوس ہو، اور اس وقت کیجیے جب پوری توجہ اور رغبت کے ساتھ آپ کر سکیں۔ ان دو باتوں کو ذہن میں رکھ کر آپ مشکوٰۃ میں سے تین مقامات کو بغور پڑھیں۔ کتاب الصلوٰۃ میں سے باب الذکر بعد الصلوٰۃ اور باب صلوٰۃ اللیل، باب القصد فی العمل اور کتاب الدعوات پوری۔ ان حصوں میں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ نبیﷺ ذکر و دعا کس طرح فرماتے تھے اور دوسروں کو آپ نے کیا کیا چیزیں اس سلسلہ میں بتائی ہیں۔ ان میں سے جو چیزیں بھی آپ کے دل کو لگیں ان کا انتخاب کر لیجیے۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان ۱۳۷۶ھ۔ جون ۱۹۵۷ء)