فتنہ پردازی کا مرضِ لاعلاج

سوال: رسائل و مسائل اوّل میں صفحہ۵۳ پر آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ کانا دجال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے‘‘۔ ان الفاظ سے متباور یہی ہوتا ہے کہ آپ سرے سے دجال ہی کی نفی کر رہے ہیں۔ اگرچہ اسی کتاب کے دوسرے ہی صفحہ پر آپ نے توضیح کر دی ہے کہ جس چیز کو آپ نے افسانہ قرار دیا ہے وہ بجائے خود دجال کے ظہور کی خبر نہیں بلکہ یہ خیال ہے کہ وہ آج کہیں مقید ہے، لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ آپ مقدم الذکر عبارت ہی میں ترمیم کر دیں، کیونکہ اس کے الفاظ ایسے ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

جواب: جس عبارت کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے وہ کوئی مستقل مضمون نہیں ہے بلکہ ایک سوال کا جواب ہے اور ہر صاحبِ عقل آدمی جانتا ہے کہ جب کوئی بات کسی سوال کے جواب میں کہی جائے تو سوال سے قطع نظر کر کے محض جواب سے ایک مطلب نکال لینا صحیح نہیں ہو سکتا۔ سائل کا سوال یہ تھا کہ کانا دجال کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں مقید ہے؟ تو آخر وہ کون سی جگہ ہے؟ آج تو دنیا کا کونہ کونہ انسان نے چھان مارا ہے، پھر کیوں کانے دجال کا پتا نہیں چلتا؟ (رسائل و مسائل حصہ اوّل صفحہ۵۱) اس کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا اس کا تعلق لازماً اسی بات سے تھا جو سوال میں پیش کی گئی تھی، یعنی یہ کہ دجال آج کہیں مقید ہے اور بعد میں دوسرے ہی صفحہ پر خود میں نے اپنی مراد کی صراحت بھی کر دی تھی۔ مگر اس پر بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں کو فتنہ پردازی پر اصرار ہے، وہ خدا کے خوف اور خلق کی شرم سے بے نیاز ہو کر اس عبارت کو غلط معنی پہنائے چلے جارہے ہیں۔ اب کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آج میں اس عبارت میں ترمیم کر دوں تو یہ لوگ اپنی روش سے باز آجائیں گے؟ آپ کے مشورے کی میں قدر کرتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ رسائل و مسائل کے آئندہ ایڈیشن میں یہ عبارت بدل دی جائے گی۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ مریض القلب لوگ اس ترمیم کا کوئی نوٹس نہ لیں گے اور سابق عبارت ہی سے مطلب براری کرتے رہیں گے۔

(ترجمان القرآن۔ ربیع الاوّل ۱۳۷۵ھ۔ نومبر ۱۹۵۵ء)