پر امن انقلاب کا راستہ

سوال: ذیل میں دو شبہات پیش کرتا ہوں۔ براہ کرم صحیح نظریات کی توضیح فرماکر انہیں صاف کردیجیے۔

(۱) ترجمان القران کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے میں ایک سائل کا سوال شائع ہوا ہے کہ نبیﷺ کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا اور انہوں نے جب ریاست کو اقتدار کلی منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اسے بڑھ کر قبول کر لیا اور یہ طریق کار اختیار نہیں کیا کہ پہلے مومنین صالحین کی ایک جماعت تیار کریں۔ کیا آج بھی جبکہ اسٹیٹ اس دور سے کئی گنا زیادہ ہمہ گیر ہوچکا ہے۔ اس قسم کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھے پورا پورا اطمینان نہیں ہوا۔ مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم کو حضرت یوسف علیہ السلام کا اتباع کرنا ہی کیوں چاہیے؟ ہمارے لیے تو نبیﷺ کا اسوہ واجب الاتباع ہے۔ آپﷺ نے اہل مکہ کی بادشاہت کی پیشکش کو رد کرکے اپنے ہی خطوط پر جداگانہ ریاست کی تعمیر و تشکیل کا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہمارے لیے بھی طریق کار اب یہی ہے۔ واضح فرمائیے کہ میری یہ رائے کس حد تک صحیح یا غلط ہے۔

(۲) آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ کسی مرحلہ پر اگر ایسے آثار پیدا ہوجائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں سے نظام باطل کو اپنے اصول پر ڈھالا جاسکے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں تامل نہ ہوگا۔ اس جملہ سے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی بھی ایک حد تک اسمبلیوں میں آنے کے لیے تیار ہے اور الیکشن کو جائز سمجھتی ہے۔اس معاملہ میں جماعتی مسلک میں توضیح فرمائیے۔

جواب: ہمارے لیے سارے انبیاء علیہم السلام واجب الاتباع ہیں۔ خود نبیﷺ کو بھی یہی ہدایت تھی کہ اسی طریق پر چلیں جو تمام انبیاء کا طریق تھا۔ جب قرآن کے ذریعہ سے ہمیں معلوم ہوجائے کہ کسی معاملہ میں کسی نبی نے کوئی خاص طرز عمل اختیار کیا تھا اور قرآن نے اس طریق کار کو منسوخ بھی نہ قرار دیا ہو تو وہ ویسا ہی دینی طریق کار ہے جیسے کہ وہ خود نبیﷺ سے مسنون ہو۔

نبی کریمﷺ کو جو بادشاہی پیش کی گئی تھی وہ اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ آپ اس دین کو اور اس کی تبلیغ کو چھوڑ دیں تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا بادشاہ بنالیں گے۔ یہ بات اگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بھی پیش کی جاتی تو وہ بھی اسی طرح اس پر لعنت بھیجتے جس طرح نبی کریمﷺ نے اس پر لعنت بھیجی اور ہم بھی اسی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کو جو اختیارات پیش کیے گئے تھے وہ غیر مشروط اور غیرمحدود تھے اور ان کے قبول کر لینے سے حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ اقتدار حاصل ہو رہا تھا کہ ملک کے نظام کو اس ڈھنگ پر چلائیں جو دین حق کے مطابق ہو۔ یہ چیز اگر نبی کریمﷺ کے سامنے پیش کی جاتی تو آپﷺ بھی اسے قبول کر لیتے اور خواہ مخواہ لڑ کر ہی وہ چیز حاصل کرنے پر اصرار نہ کرتے جو بغیر لڑے پیش کی جارہی ہو۔ اسی طرح کبھی ہم کو اگر یہ توقع ہو کہ ہم رائے عام کی تائید سے نظام حکومت پر اس طرح قابض ہوسکیں گے کہ اس کو خالص اسلامی دستور پر چلاسکیں تو ہمیں بھی اس کے قبول کر لینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔

(۲) الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیر اسلامی دستور کے تحت ایک لادینی (Secular) جمہوری (Democratic) ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدہ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔ لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ ومسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہو کہ عظیم الشان اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستور حکومت تبدیل کرسکیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس طریقہ سے کام نہ لیں۔ جو چیز لڑے بغیر سیدھے طریقہ سے حاصل ہوسکتی ہو اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیاہے۔ مگر یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کو ہم یہ طریق کار صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جبکہ۔

اولاً ملک میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہوں کہ محض رائے عام کا کسی نظام کے لیے ہموار ہوجانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہوسکتا ہو۔

ثانیاً ہم اپنی دعوت و تبلیغ سے باشندگان ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہوں اور غیر اسلامی نظام کے بجائے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہوچکا ہو۔

ثالثاً انتخابات غیر اسلامی دستور کے تحت نہ ہوں بلکہ بنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آئندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے۔

(ترجمان القرآن محرم 65 ھ ۔ دسمبر 45 ء)