مزید تصریحات

سوال:آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہل کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوؤں میں اچھوتوں کی۔

آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہندوؤں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا۔‘‘ مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوؤں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں؟ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصہ دار ہوسکتا ہے؟ خواہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔‘‘ براہ کرم اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اصولوں پر ایمان لا کر چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟

پھر آپ نے فرمایا ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کر سکتے ہیں مگر آپ نے ساتھ ہی یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اہل کتاب بھی مسلم عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کیا آپ اس احساس برتری (Superiority Complex) کے بارے میں مزید روشنی ڈالیں گے؟ اگر آپ اس کے اثبات (Justification) میں اسلام پر ایمان کی اوٹ لیں تو کیا آپ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ موجودہ نام نہاد مسلمان آپ کے قول کے مطابق ان اسلامی قواعد اور کیرکٹر کے اصولوں پر پورے اتریں گے؟ آج کے مسلمان کی بات تو الگ رہی کیا آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ خلافت راشدہ کے عہد میں اکثروبیشتر جو لوگ اسلام لائے وہ زیادہ تر سیاسی اقتدار کے خواہاں تھے؟ اگر آپ یہ تسلیم کرنے سی قاصر ہیں توفرمائیے کہ پھر وہ اسلامی حکومت کیوں صرف تیس بتیس سال چل کر رہ گئی؟ پھر کیوں حضرت علیؓ جیسے مدبر اور مجاہد کی اس قدر مخالفت ہوئی اور مخالفین میں حضرت عائشہؓ صاحبہ تک تھیں؟

آپ حکومت الہٰیہ کے خواہاں ہوتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنی حکومت الہٰیہ ملکی حدود کے بغیر ہی نافذ کرسکیں گے؟ یقیناً نہیں، تو پھر آپ کی حکومت الہٰیہ کے لیے ملکی حدود بہرحال وہی موزوں ہوسکتی ہے جہاں مسٹر جناح اور ان کے ساتھی پاکستان کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آپ پاکستان کی حدود کے علاوہ کیوں سارے ہندوستان میں حکومت الہٰیہ نافذ کریں گے؟ نیز یہ گرہ بھی کھولیے کہ آپ موجودہ ماحول میں اس طرز حکومت کو چلانے کے لیے ایسے بلنداخلاق اور بہترین کیرکٹر کی شخصیتیں کہاں سے پیدا کریں گے؟جبکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ غنی جیسے عدیم المثال بزرگ اسے چند سالوں سے زیادہ نہ چلاسکے۔ چودہ سو سال کے بعد ایسے کون سے موافق حالات آپ کے پیش نظر ہیں جن کی بنا پر آپ کی دور رس نگاہیں حکومت الہٰیہ کو عملی صورت میں دیکھ رہی ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ آپ کا پیغام ہر خیال کے مسلمانوں میں زور و شور سے پھیل رہا ہے اور مجھے جس قدر بھی مسلمانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے وہ سب اسی خیال کے حامی ہیں کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ عین اسلام ہے۔ مگر ہر شخص کا اعتراض یہی ہے جو میں نے گزشتہ سطور میں پیش کیا ہے، یعنی آپ کے پاس عہد خلافت راشدہ کی اصولی حکومت چلانے کے لیے فی زمانہ کیرکٹر کے آدمی کہاں ہیں؟ پھر جبکہ وہ بہترین نمونہ کی ہستیاں اس نظام کو نصف صدی تک بھی کامیابی سے نہ چلا سکیں تو اس دور میں اس طرز کی حکومت کا خیال خوش فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟

علاوہ بریں ایک چیز اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ مدت پہلے میرا یہ خیال تھا کہ صرف ہم ہندوؤں میں ہی ایک مشترکہ نصب العین نہیں ہے۔ بخلاف اس کے مسلمانوں میں اجتماعی زندگی ہے اور ان کے سامنے واحد نصب العین ہے۔ لیکن اب اسلامی سیاست کا بغور مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں کا حال ہم سے بھی دگرگوں ہے۔ آپ سے چھپاؤں نہیں میں نے تقریباً مختلف مراکز فکر کے مسلم رہنماؤں سے ان کے نصب العین اور طریقہ کار کے بارے میں ایک متلاشی حق کی حیثیت سے چند ایک امور جو میرے لیے تحقیق طلب تھے دریافت کیے۔ ان کے جوابات موصول ہونے پر میرا پہلا خیال غلط نکلا اور معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں بھی طریقہ کار اور نصب العین کے بارے میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے۔

(اس موقع پر مستفسر نے جماعت اسلامی سے اختلاف رکھنے والے بعض اصحاب کی تحریروں سے چند سطور نقل کی ہیں۔ انہیں حذف کیا جاتا ہے۔)

ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ آپ کے مشترک العقیدہ رہنما کس شدید اختلاف آرا میں مبتلا ہیں۔ ان ٹھوس حقائق اور واقعات کو نظر انداز کرکے محض کتابوں کے صفحات پر ایک چیز کو نظریہ کی شکل میں پیش کردینا اور بات ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا قطعاً مختلف ہے۔ سیاست ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کیا آپ میرے اس سارے التماس کو سامنے رکھ کر اپنے طریقہ کار اور راہ عمل سے بہ تفصیل مطلع فرمائیں گے؟

جواب: آپ کے سوالات کا سرا حقیقت میں ابھی تک میں نہیں پاسکا ہوں اس وجہ سے جو جوابات میں دیتا ہوں ان میں سے کچھ اور ایسے سوالات نکل آتے ہیں جن کے نکلنے کی مجھے توقع نہیں ہوتی۔ اگر آپ پہلے بنیادی امور سے بات شروع کریں اور پھر بتدریج فروعی معاملات اور وقتی سیاسیات (Current Politics) کی طرف آئیں تو چاہے آپ مجھ سے متفق نہ ہوں لیکن کم از کم مجھے اچھی طرح سمجھ ضرور لیں گے۔ سردست تو میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میری پوزیشن آپ کے سامنے پوری طرح واضح نہیں ہے۔

آپ نے اپنے عنایت نامے میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’جس اسلامی حکومت کا میں خواب دیکھ رہا ہوں اس میں ذمی اور اہل کتاب کی حیثیت وہی ہوگی جو ہندوؤں میں اچھوتوں کی ہے۔‘‘ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ یا تو آپ ذمیوں کی حیثیت میرے صاف صاف بیان کر دینے کے باوجود نہیں سمجھے ہیں یا ہندوؤں میں اچھوتوں کی حیثیت سے واقف نہیں ہیں۔ اول تو اچھوتوں کی جو حیثیت منو کے دھرم شاستر سے معلوم ہوتی ہے اس کو ان حقوق و مراعات سے کوئی نسبت نہیں ہے جو اسلامی فقہ میں ذمیوں کو دیے گئے ہیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اچھوت پن کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہے اور ذمیت کی بنیاد محض عقیدہ پر۔ اگر ذمی اسلام قبول کرلے تو وہ ہمارا امیر و امام تک بن سکتا ہے۔ مگر کیا ایک شودر کسی عقیدہ و مسلک کو قبول کر لینے کے بعد ورن آشرم کی پابندیوں سے بری ہو سکتا ہے؟

آپ کا یہ سوال بہت ہی عجیب ہے کہ ’’کیا ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی آپ کی حکومت کے اصولوں پر ایمان لا کر اسے چلانے میں شریک ہو سکتا ہے؟ شاید آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے اصولوں پر ایمان لے آنے کے بعد ہندو ہندو کب رہے گا، وہ تو مسلم ہوجائے گا۔آج جو کروڑوں ’’ہندو زادے‘‘ اس ملک میں مسلمان ہیں وہ اسلام کے اصولوں پر ایمان لا کر ہی تو مسلمان ہوئے ہیں۔ اسی طرح آئندہ جو ہندو زادے اسے مان لیں گے وہ بھی مسلم ہوجائیں گے۔ اور جب وہ مسلم ہوجائیں گے تو یقیناً اسلامی حکومت کو چلانے میں وہ ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہوں گے۔

آپ کا یہ سوال کہ آیا ہندوؤں کو اسلامی ریاست میں تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں، جتنا مختصر ہے اس کا جواب اتنا مختصر نہیں ہے۔ تبلیغ کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ خود اپنی آئندہ نسلوں کو اور اپنے عوام کو اپنے مذہب کی تعلیم دے۔ اس کا حق تمام ذمی گروہوں کو حاصل ہوگا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ تحریر یا تقریر کے ذریعے سے اپنے مذہب کو دوسروں کے سامنے پیش کرے اور اسلام سمیت دوسرے مسلکوں سے اپنے وجہ اختلاف کو علمی حیثیت سے بیان کرے۔ اس کی اجازت بھی ذمیوں کو ہوگی۔ مگر ہم کسی مسلمان کو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنیاد پر ایک منظم تحریک ایسی اٹھائے جس کی غرض یا جس کا حال یہ ہو کہ ملک کا نظام تبدیل ہو کر اسلامی اصولوں کے بجائے اس کے اصولوں پر قائم ہو جائے۔ ایسی تبلیغ کی اجازت ہم اپنے حدود اقتدار میں کسی کو نہیں دیں گے۔ اس مسئلے پر میرا مفصل مضمون ’’اسلام میں قتل مرتد کا حکم‘‘ملاحظہ فرمائیں۔

اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان کا نکاح جائز اور مسلمان عورتوں سے اہل کتاب کا نکاح ناجائز ہونے کی بنیاد کسی احساس برتری پر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت پر مبنی ہے۔مرد بالعلوم متاثر کم ہوتا ہے اور اثر زیادہ ڈالتا ہے۔عورت بالعلوم متاثر زیادہ ہوتی ہے اوراثر کم ڈالتی ہے۔ایک غیر مسلمہ اگر کسی مسلمان کے نکاح میں آئے تو اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ اس مسلمان کو غیر مسلم بنا لے گی اور اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ مسلمان ہو جائے گی ۔ لیکن ایک مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کے نکاح میں چلی جائے تو اس کے غیر مسلمہ ہو جانے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے اور اس بات کی توقع بہت کم ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنی اولاد کو مسلمان بنا سکے گی۔ اسی لیے مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کا نکاح غیر مسلموں سے کریں۔ البتہ اگر اہل کتاب میں سے کوئی شخص خود اپنی بیٹی مسلمان کو دینے پر راضی ہو تو مسلمان اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ لیکن قرآن میں جہاں اس چیز کی اجازت دی گئی ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم بیوی کی محبت میں مبتلا ہو کر تم نے ایمان کھودیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہوجائے گا اور آخرت میں تم خسارے میں رہو گے۔نیز یہ اجازت ایسی ہے جس سے خاص ضرورتوں کے مواقع پر ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے جسے قبول عام حاصل ہو، بلکہ بعض حالات میں تو اس سے منع کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں غیر مسلم عناصر کے داخل ہونے سے کسی نا مناسب اخلاقی اور اعتقادی حالت کا نشونما نہ ہو سکے۔

آپ کا یہ سوال کہ اسلامی حکومت صرف تیس پینتیس سال چل کر کیوں رہ گئی ایک اہم تاریخی مسئلے سے متعلق ہے۔ اگر آپ اسلامی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو اس کے اسباب سمجھنا آپ کے لیے کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ کسی خاص اصول کی علمبردار جماعت جو نظام زندگی قائم کرتی ہے اس کا اپنی پوری شان کے ساتھ چلنا اور قائم رہنا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ لیڈر شپ ایک ایسے چیدہ گروہ کے ہاتھ میں رہے جو اس اصول کا سچا اور سرگرم پیرو ہے۔ اور لیڈر شپ ایسے گروہ کے ہاتھ میں صرف اسی حالت میں رہ سکتی ہے جب کہ عام باشندوں پر اس گروہ کی گرفت قائم رہے اور ان کی عظیم اکثریت کم از کم اس حد تک تعلیم و تربیت پائے ہوئے ہو کہ اسے اس خاص اصول کے ساتھ گہری وابستگی بھی ہو اور وہ ان لوگوں کی بات سننے کے لیے تیار بھی نہ ہو جو اس اصول سے ہٹ کر کسی دوسرے طریقہ کی طرف بلانے والے ہوں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینے کے بعد اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیے۔

نبیﷺ کے زمانے میں جو تمدنی انقلاب رونما ہوا اور جو نیا نظام زندگی قائم ہوا اس کی بنیاد یہ تھی کہ عرب کی آبادی میں ایک طرح کا اخلاقی انقلاب (Moral Revolution) واقع ہوچکا تھا اور آنحضرتﷺ کی قیادت میں صالح انسانوں کا جو مختصر گروہ تیار ہوا تھا اس کی قیادت تمام اہل عرب نے تسلیم کرلی تھی۔لیکن آگے چل کر عہد خلافت راشدہ میں جب ملک پر ملک فتح ہونے شروع ہوئے تو اسلام کی مملکت میں توسیع بہت تیزی کے ساتھ ہونے لگی اور استحکام اتنی تیزی کے ساتھ نہ ہو سکا۔ چونکہ اس زمانہ میں نشرو اشاعت اور تعلیم و تبلیغ کے ذرائع اتنے نہ تھے جتنے آج ہیں اور نہ وسائل حمل و نقل موجودہ زمانے کے مانند تھے، اس لیے جو فوج در فوج انسان اس نئی مسلم سوسائٹی میں داخل ہونے شروع ہوئے ان کو اخلاقی، ذہنی اور عملی حیثیت سے اسلامی تحریک میں مکمل طور پر جذب کرنے کا انتظام نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی عام آبادی میں صحیح قسم کے مسلمانوں کا تناسب بہت کم رہ گیا اور خام قسم کے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ لیکن اصولاً ان مسلمانوں کے حقوق اور اختیارات اور سوسائٹی میں ان کی حیثیت صحیح قسم کے مسلمانوں کی بہ نسبت کچھ بھی مختلف نہ ہو سکتی تھی۔اسی وجہ سے جب حضرت علیؓ کے زمانہ میں احتجاجی تحریکیں (Reactionary Movements) رونما ہوئیں تو مسلمان پبلک کا ایک بہت بڑا حصہ ان سے متاثر ہوگیا اور لیڈر شپ ان لوگوں کے ہاتھ سے نکل گئی جو ٹھیٹھ اسلامی طرز پر کام کرنے والے تھے۔ اس تاریخی حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں یہ واقعہ ذرہ برابر بھی دل شکستہ نہیں کرتا کہ خالص اسلامی حکومت تیس بتیس سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔

آج اگر ہم ایک صالح گروہ اس ذہنیت، اس اخلاق اور اس سیرت کے انسانوں کا منظم کر سکیں جو اسلام کے منشا کے مطابق ہو تو ہم امید رکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے ذرائع و وسائل سے فائدہ اٹھاکر نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہم ایک اخلاقی و تمدنی انقلاب برپا کر سکیں گے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ایسے گروہ کے منظم ہوجانے کے بعد عام انسانوں کی قیادت اس گروہ کے سوا کسی دوسری پارٹی کے ہاتھ میں نہیں جاسکتی۔ آپ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر جو رائے قائم کر رہے ہیں وہ اس حالت پر چسپاں نہیں ہوسکتی جو ہمارے پیش نظر ہے۔

اگر صحیح اخلاق کے حامل انسان میدان عمل میں آجائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان عوام ہی نہیں بلکہ ہندو، عیسائی، پارسی اور سکھ سب ان کے گرویدہ ہو جائیں گے اور خود اپنے ہم مذہب لیڈروں کو چھوڑ کر ان پر اعتماد کرنے لگیں گے۔ ایسے ہی ایک گروہ کو تربیت اور تعلیم اور تنظیم کے ذریعہ سے تیار کرنا اس وقت میرے پیش نظر ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس کام میں وہ میری مدد کرے۔

’’حکومت الہٰیہ‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ کے فرق کے متعلق جو سوال آپ نے کیا ہے اس کا جواب آپ میری کتابوں میں پاسکتے تھے۔ مگر وہ شاید آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔ پاکستان کے مطالبہ کی بنیاد قومیت کے اصول پر ہے، یعنی مسلمان قوم کے افراد جہاں اکثریت میں ہوں وہاں انہیں اپنی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل ہو۔ بخلاف اس کے تحریک حکومت الہٰیہ کی بنیاد اسلام کا اصول ہے۔ پاکستان صرف ان لوگوں کو اپیل کرسکتا ہے جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن حکومت الہٰیہ کی دعوت تمام انسانوں کو اپیل کرسکتی ہے، خواہ وہ پیدائشی مسلمان ہوں یا پیدائشی ہندو یا کوئی اور…… پاکستان صرف وہیں قائم ہوسکتا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہوگی، کیونکہ خالص اسلامی حکومت کا قیام بھی اخلاقی انقلاب پر منحصر ہے وہ پاکستان کی تحریک سے رونما نہیں ہوسکتا۔لیکن حکومت الہٰیہ اس کی محتاج نہیں ہے کہ کسی جگہ مسلمان قوم کی اکثریت پہلے سے موجود ہو۔ وہ تو ایک اخلاقی اور ذہنی اور تمدنی انقلاب کی دعوت ہے اور سارے انسانوں کے لیے خود انہی کی فلاح کے چند اصول پیش کرتی ہے۔اس دعوت کو اگر پنجاب یا سندھ سب سے پہلے آگے بڑھ کر قبول کرلیں تو حکومت الہٰیہ یہاں قائم ہوسکتی ہے اور اگر مدراس یا بمبئی یا کوئی دوسرا علاقہ پیش قدمی کرکے اسے قبول کرلے تو حکومت الہٰیہ وہاں قائم ہوسکتی ہے۔ ہم اس دعوت کو مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی ہر ایک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ مسلمانوں کی کوئی قومی جائیداد نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں کی فلاح کے چند اصول ہیں، ہوسکتا ہے کہ پیدائشی مسلمان اس دعوت کو قبول کرنے میں کوتاہی دکھائیں اور پیدائشی ہندو آگے بڑھ اسے قبول کرلیں۔

آپ کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک مشترکہ مقصد اور نصب العین کا فقدان ہندوؤں سے بھی کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ در حقیقت یہ سب کچھ نتیجہ ہے اسلام سے بے نیاز ہو کر دینوی معاملات کو خواہشات نفس اور غیر مسلم طور طریقوں کی تقلید سے حل کرنے کی کوشش کا۔ اگر مسلمان خالص اسلامی اصول پر اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تو آپ ان کو ایک ہی مقصد اور ایک ہی نصب العین کے پیچھے اپنی ساری قوتیں صرف کرتے ہوئے پاتے۔آپ نے مسلمانوں کے اندر خیالات اور اعمال کا جو انتشار محسوس کیا ہے اسے میں بھی ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور ہماری اسلامی تحریک کے ساتھ مسلمانوں کے مختلف طبقوں کا جو رویہ ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے۔ مگر ان چیزوں سے میرے اندر کوئی بد دلی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان باتوں کی تہ میں جو اصلی خرابی ہے اسے میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ صرف یہی نہیں کہ میں بد دل نہیں ہوں بلکہ ایک بڑی حد تک پر امید ہوں۔ جیسا کہ آپ نے خود بھی تحریر فرمایا ہے، مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ بڑی تیزی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرتا جا رہا ہے کہ جو چیز میں پیش کر رہا ہوں، یہی اصلی اور خالص اسلام ہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کے موجودہ مختلف گروہ جس طرز پر کام کررہے ہیں اس سے ان کا فلاح کی منزل تک پہنچنا تقریباً محال ہے۔ لہٰذا اس امر کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں مسلمان نوجوان ان مختلف گروہوں سے اور ان کی سیاست سے مایوس ہوجائیں گے اور ان کے لیے خالص اسلام کے اصولوں پر کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہندوؤں میں بھی جب قوم پرستی سیاسی آزادی کی منزل پر پہنچ جائے گی تو انہیں سیاست اور معاشرت اور تمدن کی مشینری کو چلانے کے لیے کچھ اصول درکار ہوں گے اور وہ گاندھی جی کے فلسفے میں، یا کانگریس کی وطن پرستی اور ہندو مہاسبھا کی قوم پرستی میں نہ مل سکیں گے۔ اس وقت ان کے لیے صرف دو ہی راستے ہوں گے۔ یا اشتراکیت کے اصولوں کو اختیار کریں، یا پھر اسلام کے اصولوں کو قبول کرلیں۔ اس موقع کے پیش آنے تک اگر ہم اصول اسلام کے بے لاگ داعیوں کا ایک صالح گروہ منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مجھے۸۰ فیصدی امید ہے کہ ہم اپنے ہندو اور سکھ بھائیوں کو اشتراکیت سے بچانے کے لیے اور اسلام کے اصولوں کی طرح کھینچ لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ہمارے اس مقصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں اور ہندوؤں کی موجودہ قومی کشمکش ہے۔ مگر ہم امید کرتے ہیں کہ جس طریقے پر ہم اس وقت کام کر رہے ہیں اس سے ہم ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری غیر مسلم قوموں کے اس تعصب کو جو وہ اسلام کے خلاف رکھتے ہیں بالاخر دور کردیں گے اور انہیں اس بات پر آمادہ کر لیں گے کہ وہ اسلام کو خالص اصولی حیثیت سے دیکھیں نہ کہ اس قوم کے مذہب کی حیثیت سے جس کے ساتھ دینوی اغراض کے لیے ان کی مدتوں سے کشمکش برپا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ، ذی الحجہ۔ 63ھ نومبر، دسمبر 44ء)