’’سیپ‘‘ اور ’’دلالی‘‘

سوال:ہر گاؤں میں عموماً ایک لوہار اور ایک بڑھئی ضرور ہوتا ہے۔ ان لوگوں سے زمیندار کام لیتے ہیں اور معاوضہ نقد ادا نہیں کرتے، نہ تنخواہ دیتے ہیں، بلکہ فصل کے فصل ایک مقررہ مقدار غلہ کی انہیں دے دی جاتی ہے۔ اس صورت معاملہ کو ’’سیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمیندار لوگ جب کبھی لوہے یا لکڑی کا کوئی سامان خریدنا چاہتے ہیں تو اپنے لوہاریا بڑھئی بعض کارخانوں اور دکانوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں اور وہاں سے سامان خریدواتے ہیں اور ہوتا یوں ہے کہ یہ لوگ دکان پر جاتے ہی آنکھوں کے اشاروں سے دلالی کی فیس دکاندار سے طے کر لیتے ہیں جس سے زمیندار بے خبر رہتا ہے۔ اگر دکاندار، لوہار یا بڑھئی کی دلالی کا کمیشن ادا نہ کرے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے زمیندار کو اس کی دکان پر نہ لائے گا بلکہ کسی دوسری جگہ ساز باز کرے گا۔اور جو دکاندار کا کمیشن دینے پر راضی ہو وہ خراب مال بھی اگر دکھائے تو یہ خاص قسم کے دلال اس کی تعریف کریں گے اور اسے بکوانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سازش اگر زمیندار پر آشکار ہوجائے تو وہ اپنے بڑھئی یا لوہار کو ایک دن بھی گاؤں میں نہ رہنے دے۔ یہ صورت معاملہ کیسی ہے؟

جواب: ’’سیپ‘‘ معاملہ کی ایک ایسی شکل ہے جو دیہاتی زندگی میں ’’معروف‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، اس لیے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں بیگار کا عنصر شامل نہ ہونے پائے۔ یعنی فی الواقع جن لوگوں سے جتنی خدمت لی جائے ان کو اس کا مناسب معاوضہ ادا کیا جائے۔ مقررہ خدمات سے زائد کوئی کام لینا ہو تو اس کا حق الگ اسے دینا چاہیے۔ محض زمینداری کی دھونس میں لوگوں سے بے جا خدمت لینا ظلم ہے۔

دلالی کی جو شکل آپ نے لکھی ہے اس کے ناجائز ہونے میں تو کوئی کلام نہیں ہو سکتا، مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ دراصل زمینداروں کی زیادتی کا نتیجہ ہے۔ پیشہ ور لوگ محض ان کے دباؤ سے مجبوراً اپنے کام کاج کا ہرج کرکے ان کے ساتھ مال خریدوانے جاتے ہیں اور اس کا معاوضہ دکانداروں سے گویا اس قرار داد پر وصول کرتے ہیں کہ اگر تم ہمیں کمیشن دیتے رہو گے تو ہم تمہارا برا مال بھی ان زمینداروں کے ہاتھ بکوا دیں گے۔ اس طرح یہ مال فروخت کروانے والا، اور دکاندار اور ان کے ساتھ زمیندار بھی، تینوں ایک قسم کے اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اگر زمیندار ان لوگوں سے مفت کی خدمت لینا چھوڑ دیں اور انصاف کے ساتھ ان کا حق المحنت انہیں دیا کریں تو یہ بد اخلاقی رونما نہ ہو۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان 65 ھ ۔ اگست 46ء)