آڑھت کے بعض ناجائز طریقے

سوال: آڑھت کی شرعی پوزیشن کیا ہے؟ آڑھتی کے پاس دو قسم کے بیوپاری آتے ہیں۔ پہلی قسم کے بیوپاری اپنے سرمایہ سے کوئی جنس خرید کر لاتے ہیں اور آڑھتی کی وساطت سے فروخت کرتے ہیں۔دوسری قسم کے بیوپاری وہ ہوتے ہیں جو کچھ معمولی سا سرمایہ اپنا لگاتے ہیں اور بقیہ آڑھتی سے اس شرط پر قرض لیتے ہیں کہ اپنا خریدا ہوا مال اسی آڑھتی کے ہاتھ فروخت کریں گے اور بوقت فروخت مال آڑھتی کا روپیہ بھی ادا کردیں گے۔ آڑھتی پہلی قسم کے بیوپاریوں سے اگر ایک پیسہ فی روپیہ کمیشن لیتا ہے تو اس دوسری قسم کے بیوپاریوں سے دو پیسہ فی روپیہ لے گا۔ یہ صورت حرام ہے یا جائز؟

جواب: یہ فرق جو آڑھتی اپنے کمیشن میں رکھتا ہے، غلط ہے۔ قرض لینے والے سے دو پیسہ اور قرض نہ لینے والے سے ایک پیسہ فی روپیہ آڑھت لینا تو سود کی تعریف میں آجاتا ہے۔ چاہیے یہ کہ قرض کا معاملہ الگ رہے۔ البتہ یہ پابندی جائز ہوسکتی ہے کہ مارکیٹ ریٹ پر بیوپاری اپنا مال خاص اسی آڑھتی کے ہاتھ لا کر فروخت کیا کرے جس کے روپے سے وہ کاروبار چلا رہا ہے۔

سوال: آڑھتی بائع اور خریدار سے کمیشن لینے کے علاوہ ایک حرکت یہ بھی کرتا ہے کہ مال کا سودا ہوجانے کے بعد اس میں کچھ مقدار ’’چونگی‘‘ کے نام سے لے لیتا ہے۔ مثلاً پھل ہوں تو ان میں سے چند دانے لے لے گا اور سبزی ہو تو اس میں اپنا حصہ لگائے گا۔ اس چونگی کی حیثیت کیا ہے؟

جواب: یہ چونگی لینا آڑھتی کی زیادتی ہے۔ وہ جب اپنا طے شدہ کمیشن لے چکا تو اب اسے اور کچھ لینے کا حق نہیں۔ حقیقت میں یہ ’’دست درازی‘‘ ہے جس کا ایک معصوم نام ’’چنگی‘‘ رکھ لیا گیا ہے۔

(ترجمان القرآن۔ رمضان 65 ھ ۔ اگست 46ء)