گائے، تناسخ اور گرنتھ صاحب

سوال: حسب ذیل امور کے متعلق اپنی معلومات کی روشنی میں حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائیے۔

(۱) گائے کی تعظیم و تقدیس جو ہندو بھائیوں میں رائج ہے، اس کی وجہ سے سینکڑوں دفعہ ہندو مسلم فسادات واقع ہوچکے ہیں۔ آخر یہ کیا مسحوریت ہے کہ ہندوؤں میں بڑے بڑے معقول عالم موجود ہیں لیکن کوئی اس مسئلہ کی نوعیت پر غور نہیں کرتا، حتٰی کہ گاندھی جی جیسے فہمیدہ اور جہاندیدہ لیڈر بھی مذہبیت کی اس کشتی پر سوار ہیں جسے عوام نے ایسے ہی چند مسائل پر جوڑ ملا کر تعمیر کیا ہے۔ آپ اس گائے کی پوجا پر روشنی ڈالیں اور واضح کریں کہ یہ کب سے شروع ہوئی اور کیسے پھیلی تو ممکن ہے کہ کچھ حق پسند ہندو مطمئن ہوجائیں اور اپنی قوم کی اصلاح کریں۔

(۲) تناسخ کا عقیدہ ہندو قوم کے ہاں بنیادی اہمیت رکھتا ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ ہندوؤں کے سوا کوئی دوسری قوم بھی اس کی قائل ہوئی ہے یا نہیں تاہم یہ عقیدہ بھی سنجیدہ تنقید کا مستحق ہے۔

(۳) سکھ قوم کی مذہبی کتاب ’’گرنتھ‘‘ صرف اخلاقی پندو نصائح کا مجموعہ ہے اور اس کو بلحاظ موضوع و مباحث گلستان، بوستان وغیرہ کتابوں کی صف میں رکھا جاسکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کے صالح اور صوفی منش بزرگوں کے ارشادات و نصائح اس میں جمع کیے گئے ہیں۔ کتاب کو مدون کرنے والے کا منشا کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس منشا کے بالکل خلاف اب یہ ایک قوم کی الہامی کتاب بن گئی ہے۔ حالانکہ اس میں نہ تو تمدنی مسائل سے بحث ہے، نہ معاشرت سے کوئی سروکار، نہ معاشیات و سیاسیات میں اس میں کوئی رہنمائی مل سکتی ہے۔ مگر میری عقل کام نہیں کرتی کہ تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ تک کیونکر اس پر مطمئن ہیں۔

جواب: آپ نے جو استفسارات کیے ہیں، ان میں سے ہر ایک مفصل بحث چاہتا ہے لیکن میرے لیے اس وقت ان چیزوں پر تفصیلی بحث کرنا مشکل ہے۔ نمبر دار تینوں مسئلوں پر مختصراً اظہار خیال کرتا ہوں۔

(۱) ہندو مذہب کے متعلق میری معلومات اتنی زیادہ وسیع نہیں ہیں کہ میں اس کے کسی مسئلے پر تحقیقی بحث کرسکوں اور بغیر کافی معلومات کے کسی چیز پر بحث و تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔ جو تھوڑی بہت واقفیت مجھے حاصل ہے اس کی بنا پر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ قدیم عہد میں جس کو ویدک عہد کہا جاتا ہے ۔گائے کی تقدیس کا عقیدہ موجودہ نہ تھا اگر تھا تو با لکل ابتدائی حالت میں تھا چنانچہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اس دور میں ہندو گائے کی قربانی کیا کرتے تھے۔علم الاقوام کی رو سے بھی یہ ثابت ہے کہ قدیم آریہ قوم خانہ بدوش گلہ بانوں کی تہذیب سے تعلق رکھتی تھی،جس میں گاؤ پرستی قطعاً مفقود تھی۔ بعد میں اس کا سابقہ اس مادری تہذیب سے ہوا جو ہندوستان کی دراوڑی قوموں اور عراق ، مغربی ایشیا اور مصر میں پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کی حامل اقوام زراعت پیشہ تھیں اور ان میں گائے کی تقدیس پائی جاتی تھی۔پس تحقیق اسی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو مصر سے گاؤ پرستی کی چھوت لگی۔اسی طرح قدیم آریوں کو بھی یہ چھوت ہندوستان آکر لگی ہے۔ جہاں تک گائے کی پوجا کا تعلق ہے وہ تو ہندوؤں کے ایک خاص طبقے میں ہی پائی جاتی ہے لیکن اس کی تقدیس پوری ہندو قوم میں پھیلی ہوئی ہے، بلکہ جو لوگ ہندوؤں سے نکل کر اسلام یا عیسائی مذہب میں داخل ہوئے ہیں ان کے بھی ایک اچھے خاصے عنصر ہیں اس کا کچھ نہ کچھ اثر محض اس لیے پایا جاتا ہے کہ ان کی تبدیلی ذہن پوری طرح نہیں ہوئی۔

خاص طور پر اس عقیدہ کی تردید کے لیے کچھ کہنا غالباً مفید نہ ہوگا، کیونکہ ایک غلط عقیدہ بہت سے دوسرے غلط عقائد کے ساتھ ہم رشتہ ہوتا ہے اور ایک ان سب کی اصل جڑ ہوا کرتی ہے۔جب تک اصل اور شاخوں کے پورے سلسلے کی اصلاح نہ کی جائے، محض کسی ایک شاخ کو درست کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس قسم کے تمام غلط عقائد کی جڑ یہ ہے کہ انسان اس کائنات کے نظام اور اس میں اپنے صحیح مقام اور مالک کائنات کے ساتھ اپنے اور دوسری موجودات کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔ اس ابتدائی اور بنیادی غلط فہمی سے نتیجہ کے طور پر بے شمار غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں اور ایک پورا نظام فکر اور نظام زندگی پیدا کردیتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بات کو سمجھ لے کہ اس ساری کائنات کا ایک ہی خالق اور ایک ہی مالک و متصرف اور ایک ہی حاکم و مدبر ہے اور انسان دنیا میں اس کے خلیفہ و نائب کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور دنیا کی ساری چیزیں انسان کے لیے خادم بنائی گئی ہیں تو ایسا شخص شرک اور مخلوق پرستی اور مادی یا روحانی یا خیالی چیزوں کی تقدیس کے ہر شائبہ سے خود بخود پاک ہوجائے گا اور اس کے دل میں ایک خدا کے سوا کسی عبودیت اور کسی کی تقدیس کے لیے جگہ باقی نہ رہے گی۔ پھر اگر کسی شخص میں صحیح قسم کا معقول پسندانہ رویہ (Ture Rationalism) موجود ہو تو وہ موروثی تعصبات اور قومی و نسلی تعصبات اور شخصی و نفسیاتی تعصبات سے خود بخود خالی ہوجائے گا اور اپنی فکر اور اپنے عمل کو پوری بے لوثی کے ساتھ اس طریقہ پر قائم کرے گا، جو سراسر معقول ہو۔

آپ کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہندوؤں میں بڑے بڑے معقول آدمی موجود ہیں جو وسیع علم اور وسیع نظر رکھتے ہیں مگر پھر بھی ان عقائد اور خیالات میں مبتلا ہیں جو سرسری نظر میں بھی جاہلیت کے عقائد اور خیالات محسوس ہوتے ہیں۔ اس قسم کا تعجب آپ نے آخری سوال کے سلسلے میں بھی ظاہر کیا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہ صورت حال محض کسی ایک قوم ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا میں بہت سے غلط فکری اور اعتقادی نظام پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے پیروؤں میں آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور نہایت ذکی و فہیم اور اپنے مسلک کی مخصوص گمراہیوں کے سوا دنیا کے تمام دوسرے معاملات میں غایت درجہ معقول ہوں گے۔ اس کے باوجود ان لوگوں کا ایسی ایسی گمراہیوں میں مبتلا ہونا جن میں سے بعض تو ان کے مخصوص مسلک کو ماننے والوں کے سوا دوسرے تمام لوگوں کو صریحاً غیر معقول محسوس ہوتی ہیں۔ بظاہر ایک حیران کن معاملہ نظر آتا ہے۔ مگر اس کی حقیقت پر غور کیا جائے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں رہتی۔ اس صورت حال کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انسانوں میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی عقل اور علم کے استعمال کو زیادہ تر اپنے دینوی کاروبار اور اپنی جسمانی زندگی کے معاملات و مسائل تک محدود رکھتے ہیں اور اس کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتے کہ جن فکری و اخلاقی بنیادوں پر انہوں نے اپنی زندگی کو تعمیر کر رکھا ہے، یا جن بنیادوں پر تعمیر شدہ زندگی انہوں نے پہلے سے پائی ہے، ان کے متعلق تحقیق کرلیں کہ وہ بجائے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں اور ان سے بہتر بنیادیں، کہیں ان کو مل سکتی ہیں یا نہیں۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسانوں میں بہت ہی کم آدمی ایسے ہیں جو نسلی، قومی، شخصی اور نفسانی تعصبات سے آزاد ہوکر خالص علمی تحقیق اور خالص معقولیت پر اپنے طرز فکر و عمل کی بِنا پر رکھنے کے لیے آمادہ ہوں، اگرچہ اس کے مدعی آپ کو بہت ملیں گے۔

(۲) تناسخ کا عقیدہ ہندوؤں کے سوا بعض دوسری قوموں میں بھی پایا گیا ہے اور اب بھی پایا جاتا ہے اور ہندوستان سے باہر بھی بعض فلسفیانہ نظاموں میں اس کا نشان ملتاہے۔ لیکن ہندوستان میں جتنی زیادہ گہری جڑیں اس نے پکڑی ہیں۔ اس کی نظیر دوسری جگہ نہیں ملتی۔ اس عقیدہ کی اصل دو سوال ہیں جن کو انسان نے ہمیشہ حل کرنے کی کوشش کی ہے اور جو اکثر اپنے آپ کو مختلف شکلوں میں آدمی کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ دنیا میں مصائب اور آفات (جن میں موت بھی شامل ہے) کیوں پائے جاتے ہیں؟ سراسر راحت، لذت، خوشی، سلامتی و عافیت اور ابدی زندگی ہی کیوں نہیں ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ انسانی اعمال کے طبعی نتائج تو اس دنیا میں ایک مقرر ضابطہ کے تحت نکلتے نظر آتے ہیں لیکن اخلاقی نتائج(جن کے ظاہر ہونے کا انسانی فطرت آپ سے آپ مطالبہ کرتی ہے) کیوں کہ ایک مقرر ضابطہ کے مطابق ظاہر نہیں ہوتے؟ اگر وہ سب یا ان کا ایک جز ظاہر ہونے کے لیے رکا ہوا ہے تو اس کے ظہور کی شکل کیا ہے؟

ان دونوں سوالات کے بہت سے مختلف جوابات مختلف فلسفیانہ نظاموں میں ملتے ہیں مگر ان سب پر اس مختصر بحث میں گفتگو نہیں کی جاسکتی۔

ہندوستان کے فلاسفہ نے، جن کے تصورات آگے چل کر مذاہب کی شکل اختیار کرگئے، ان سوالات کو کر م اور تناسخ کے عقیدہ کی شکل میں حل کیا ہے۔ وہ اس دنیا کو دارالامتحان کے بجائے ایک دارالعذاب اور ایک طرح کے جیل خانہ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، حیات جسمانی کو فی الاصل مصیبت سمجھتے ہیں اور جسم اور جسمانیات کے ساتھ انسان کے تعلق کو اس بات کی وجہ قرار دیتے ہیں کہ روح قید جسم سے چھوٹ چھوٹ کر بار بار اسی قید خانہ میں واپس آتی ہے۔ ان کے نزدیک مصائب اور آفات اور آلام اور اسی طرح خوشحالیاں اور کامیاب زندگیاں ان برے یا اچھے اعمال کا نتیجہ ہیں جو روح نے اس وقت کیے تھے جب وہ موجودہ زندگی سے پہلے قید جسم میں تھی۔ مزید برآں ان کا خیال یہ ہے کہ اعمال کے جو اخلاقی نتائج ایک زندگی میں پوری طرح یا اپنی اصلی شکل میں ظاہر نہیں ہوتے، ان کے ظہور کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انسان اسی دنیا میں بار بار آ کر ان کو وصول کرتا رہے۔

یہ ایک وسیع نظام فکر ہے جس کا محض ایک خلاصہ میں نے یہاں بیان کیا ہے۔یہ پوری زندگی کے متعلق انسان کے نقطہ نظر اور زندگی کے ہر پہلو کے متعلق اس کے رویے کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے تمام فکری و عملی نتائج پر یہاں بحث کرنا مشکل ہے۔ میں صرف اتنا کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ دراصل یہ قیاسی فلسفوں (Speculative Philosophies) کے قبیل کی چیز ہے اور اس قسم کے تمام فلسفیانہ نظامات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے سامنے جو مسائل آتے ہیں ان کو وہ محض تخیل اور منطق اور اٹکل سے کسی ایسے طور پر حل کرلینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کو اپنی حد تک اپنے پیش نظر مسائل کا اطمینان بخش اور دل کو لگتا ہوا جواب مل جائے، قطع نظر اس سے کہ علم، تجربہ، مشاہدہ اور آثار کائنات سے اس کی کوئی شہادت ملے یا نہ ملے۔ قیاسی فلسفی اس شہادت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اسے تو فقط اپنے پیش نظر سوالات کا ایسا جواب درکار ہوتا ہے جس پر وہ اور اس کے طرز پر سوچنے والے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ ایسے قیاسات کا امر واقعی اور حقیقت نفس الامری کے مطابق ہونا کچھ ضروی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی بہت کم توقع کی جاسکتی ہے یہ تو ایک تیر ہے جو اندھیرے میں اٹکل سے چلایا جاتا ہے، نشانے پر لگے یا نہ لگے۔ تیر چلانے والے کو خود بھی اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتا کہ کسی جگہ اس کے لگنے سے ’’کھٹ‘‘ کی آواز بھی آتی ہے یا نہیں۔ اس کو مطمئن کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ اپنے قیاس سے اس نے جس کو نشانہ کا صحیح رخ سمجھا اس طرف اپنی حد تک ٹھیک ٹھیک شست باندھ کر تیر چلادیا۔ ایسی تیر اندازی کا نشانہ پر لگنا جتنا کچھ متوقع ہوسکتا ہے اتنی ہی کچھ قیاسی فلسفوں کے مطابق حقیقت ہونے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔

بہت سے قائلین تناسخ خود بھی اپنے عقیدہ کی اس خامی کو محسوس کرتے ہیں اور یہ اسی کی تلافی کی کوشش ہے جو کبھی کبھی اخبارات میں کسی ایسی بچی یا بچے کے ظہور کی اطلاع کی شکل میں رونما ہوتی رہتی ہے جو اپنے پچھلے جنم کے حالات سناتی یا سناتا ہے۔ لیکن اول تو یہی ایک عجیب بات ہے کہ ایسے بچے صرف ہندوؤں ہی میں پیدا ہوتے ہیں اور ہندو اخبارات تک ہی ان کی خبر پہنچتی ہے۔ دوسری اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے فلسفہ کی تائید میں تجربہ و مشاہدہ کے فقدان کی تلافی کے لیے کہیں ایک آدھے ایسے بچے کی پیدائش کو کافی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ ان کے نظریہ کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ سارے ہی بچے ایسے پیدا ہوں۔ اگر وہ سزا یا جزا جو انسان کو ایک جنم کے اعمال کی بنا پر دوسرے جنم میں ملتی ہے۔ طبعی جزا و سزا نہیں بلکہ اخلاقی جزا و سزا ہے تو ہر انسان کو اس کا شعور حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کس چیزکی جزا یا سزا پارہا ہے، کیونکہ تمام اخلاقی اعمال لازمی طور پر شعوری اعمال ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ بھی لازماً شعوری ہی ہونا چاہیے۔

اس طریق کے برعکس جن لوگوں نے عقل اور اس کے مطالبات اور فطرت اور اس کے تقاضوں اور آثار کائنات اور اس کے اشاروں کو نظر انداز کرکے ٹھیٹھ ظاہر بینی کے ساتھ، اور ایک بڑی حد تک مذہبی طرز فکر سے انکار کی خواہش کے ساتھ، تجربے و مشاہدے پر اپنی رائے کی بنیاد رکھی ہے انہوں نے پہلے سوال کی کنہہ کو پہنچنے کی تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ اپنی تحقیق و رائے کو ’’کیوں‘‘ ہے کے سوال کے بجائے بڑی حد تک صرف ’’کیا ہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھا۔ رہا دوسرا سوال تو اس کے متعلق انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے نفس کو اس جواب ہی پر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ سارے اخلاقی نتائج بس اسی دنیا کی ایک ہی زندگی میں ظاہر ہولیتے ہیں جو موت پر ختم ہوجاتی ہے اور اگر بالفرض وہ ظاہر نہیں ہوتے تب بھی بہرحال موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے کیونکہ وہ براہ راست ہمارے تجربے و مشاہدے میں نہیں آئی لیکن انسان خواہ کتنی ہی کوشش کرے اس جواب سے اس کے قلب کا اطمینان کسی طرح ممکن نہیں۔

اب رہا یہ امر کہ انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے دین میں ان دونوں سوالات کا کیا جواب ہے اور وہ کن دلائل سے معقول ترین جواب ہے تو اس پر میں اپنے مضامین مثلاً رسالہ دینیات، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، زندگی بعد موت، اسلام اور جاہلیت اور تفسیر سورۂ اعراف میں تفصیل کے ساتھ بحث کرچکا ہوں۔ لہٰذا یہاں اس کے اعادہ کی ضروت نہیں ہے۔ البتہ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تمام مابعد الطبیعیاتی مسائل میں یہ اصول مشترک ہے کہ ان کا کوئی حل بھی، خواہ وہ نفی کی شکل میں ہو یا اثبات کی شکل میں، ایسی قطعی الثبوت نہیں ہوسکتا جیسے دو اور دو کا چار ہونا قطعی الثبوت ہے کہ اس کو مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایسے مسائل کا زیادہ سے زیادہ معقول حل، جس کے مطابق حقیقت ہونے کا اغلب گمان کیا جاسکتا ہو، صرف وہی ہوسکتا ہے جو عقل اور فطرت کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کو پورا کرتا ہو، جس کی طرف آثار کائنات اور تجربات و مشاہدات میں واضح اشارات پائے جاتے ہوں، جس سے زندگی کے ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہو، جو اس خاص مسئلہ سے دور یا قریب کا تعلق رکھتے ہیں، جس پر عقلاً کسی اعتراض کی گنجائش نہ ہو، جس کے مان لینے سے کچھ دوسرے ناقابل حل مسائل نہ پیدا ہوتے ہوں، جنہیں کسی دوسرے طریقہ سے رفع کرنا ممکن نہ ہو، اور جس کے خلاف کوئی ثبوت نہ دیا جا سکتا ہو۔عقل زیادہ سے زیادہ ان سوالات کے کسی حل کو اغلب (Most Probable) سمجھنے کی حد تک ہی ہمیں لے جاسکتی ہے۔ اس کے آگے یقین حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ ایسا حل پیش کرنے والوں کی زندگیوں کو، ان کے پیش کردہ پورے نظام فکر و عمل کی معقولیت کو اور ان کے کام اور اس کے نتائج کو دیکھ کر ان پر ایمان بالغیب لایا جائے۔

(۳) گرنتھ صاحب کا مطالعہ میں نے خود تو نہیں کیا۔ جس حد تک میں نے مطالعہ کرنے والوں سے معلومات حاصل کی ہیں ان کی بنا پر میں آپ کے خیال سے متفق ہوں کہ سکھ مذہب محض ایک صوفیانہ مذہب ہے اور اس میں انسان کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل مثلاً تمدن و معاشرت، سیاست ومعیشت، عدالت و قانون، صلح و جنگ وغیرہ کے متعلق کوئی ایسی ہدایت موجود نہیں ہے جس پر دنیا میں ایک سوسائٹی اور ایک اسٹیٹ کی تعمیر ہوسکے۔ لیکن اس وجہ سے سکھوں کے تعلیم یافتہ اور صاحب فکر و فہم لوگ اپنی جستجوئے حق اور تلاش ہدایت کو معطل کیے ہوئے اس مذہب پر قانع ہیں اس کی تشریح میں پہلے سوال کے جواب میں کر چکا ہوں۔

(ترجمان القرآن۔ صفر65 ھ۔ جنوری 46)