فقہی اختلافات کی بنا پر نمازوں کی علیحدگی

سوال: فقہی اختلافات کی بنا پر بعض صورتوں میں حنفی، اہلحدیث اور شافعی حضرات علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک گروہ اول وقت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا تاخیر کو افضل سمجھتا ہے اب ان سب کا مل کر ایک جماعت میں نماز پڑھنا کسی نہ کسی کو افضل نماز سے محروم ہی کرے گا۔ اگر ’’افضل نماز‘‘ کی کوئی اہمیت ہے تو پھر آپ کیوں اس ’’ایک ہی جماعت‘‘ کے اصول پر اتنا زور دیتے ہیں؟

جواب: آپ کے نزدیک اگر کسی وقت پر نماز پڑھنا افضل اوراولیٰ ہو اور دوسرے مسلمانوں کے نزدیک کسی دوسرے وقت میں پڑھنا افضل ہو تو اس اختلاف کی بنا پر جماعت سے الگ ہو کر نماز پڑھنا یا اپنے ہم خیالوں کی جماعت الگ قائم کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ افضل وقت کو چھوڑنے کی برائی سے جماعت کو ترک کرنے اور جماعتیں الگ کرلینے کی برائی زیادہ ہے۔

سوال: ایک صاحب نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں آپ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ غیر صالح العقیدہ لوگوں کے پیچھے بھی عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہیے اور تفرقہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمیں یاد ہے کہ آپ نے ایک خط میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جس شخص کے متعلق مشرکانہ عقائد رکھنا بالکل متحقق ہوجائے اس کے پیچھے تو نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے، مگر جس شخص کے عقائد کی حقیقت معلوم نہ ہو اس کی امامت میں نمازپڑھنا چاہیے۔ ان دونوں جوابات میں جو فرق ہے اس کی وجہ سے یہاں بہت پیچیدگی پیدا ہوگئی۔ ذرا وضاحت کے ساتھ صحیح مسلک کی نشاندہی فرمائیے؟

جواب: آپ کو جو جواب یہاں سے دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ کوئی صریح مشرکانہ فعل یا قول یا عقیدہ جس کے لیے تاویل کی قطعاً گنجائش نہ ہو اور جس کے ماننے والے یا کرنے والے کے لیے یہ فیصلہ کیے بغیر چارہ نہ ہو کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، ایسے قول یا فعل کے مرتکب کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہیے لیکن عام طور پر مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان بحثوں اور مناظروں اور نزاعوں نے یہ کیفیت پیدا کردی ہے کہ ہرگروہ دوسرے کو گمراہ ٹھہرانے اور اس سے دور بھاگنے کےلیے دلیلیں ڈھونڈتا ہے اور بات بات پر فرقے بنتے ہیں، مسجدیں الگ ہوتی ہیں اور شادی بیاہ کے تعلقات منقطع ہوتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ جو لوگ سب کی اصلاح کے لیے اٹھے ہوں ان کے لیے صحیح طریقہ یہی ہے کہ وہ سب مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں اور ان میں جو اخلاقی اور اعتقادی خرابیاں پائیں ان کو ہمدردی اور محبت کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ نمازیں الگ کرلینے کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہ ہوگا کہ ہم بھی ایک فرقہ بن کر رہ جائیں گے اور ہمارے اور عام مسلمانوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہوجائے گی جسے عبور کرنا محال ہوجائے گا۔

رہا یہ اندیشہ کہ جس شخص کو آپ اپنے نزدیک گمراہی اورشرک میں مبتلا پاتے ہیں اس کی نماز چونکہ آپ کے عقیدہ کے مطابق مقبول نہیں ہے اس لیے اگر آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو آپ کی نماز نہ ہوگی، تو یہ اصلاًغلط ہے۔ اول تو آپ یہ فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں کہ کس کی نماز مقبول ہوگی اور کس کی نہ ہوگی۔ ایسے فیصلے کرنے کے بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی نماز کی مقبولیت کے لیے بھی دعا کریں اور دوسرے کی نماز کی مقبولیت کے لیے بھی۔ دوسرے یہ کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پوری جماعت کی نماز امام کی نماز کے ماتحت ایک مجموعہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتی ہو اور اگر امام کی نماز مقبول نہ ہو تو سارے مقتدیوں کی نماز بھی غیرمقبول ہوجائے۔ جماعت کی پابندی تو مسلمانوں کو ایک امت بنانے کے لیے ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد کی نماز انفرادی حیثیت ہی سے خدا کے حضور پیش ہوتی ہے۔ اور اگر وہ مقبول ہونے جانے کے قابل ہو تو بہرحال مقبول ہو کر رہتی ہے خواہ امام کی نماز مقبول ہو یا نہ ہو۔

سوال: میرا تعلق جس فرقے سے تھا اس کے بعض سنجیدہ علماء یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ فقہی مسلک میں جماعت اسلامی کے ارکان کو آزادی دیتے ہیں اور واقعتہً جزئی معاملات میں مختلف گروہ متحدالخیال ہیں بھی نہیں، تو پھر آپ نماز کی جماعت میں سب کی شرکت کو لازمی کیوں قرار دیتے ہیں؟ خود نماز سے متعلقہ مسائل میں بہت اختلافات ہیں اور ان کی بنا پر لوگ اپنی نمازیں الگ پڑھنا چاہتے ہیں!

جواب: فقہی اختلافات کی بنا پر نمازوں کو الگ کرنے کا کوئی ثبوت سلف میں نہیں ہے یہ فقہی اختلافات صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی تھے اور تابعین کے درمیان بھی اور تبع تابعین کے درمیان بھی۔ لیکن یہ سب لوگ ایک ہی جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔ یہی طریقہ آئمہ مجتہدین کا بھی رہا۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نماز دین کی بنیادوں میں سے ہے اور فقہی اختلافات بہرحال فروعی ہیں۔ ان فروعی اختلافات کی بنا پر نمازیں الگ کرنا تفرق فی الدین ہے، جس کو قرآن نے گمراہی قرار دیا ہے۔ نمازیں الگ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی ایک امت نہیں رہ سکتی اور اس کا امکان نہیں ہے کہ جو لوگ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے وہ دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی سعی میں متحدہ ہو کر کام کرسکیں گے؟۔ یہ چیز اب نظری نہیں ہے بلکہ صدیوں کے عملی تجربے نے اسے ثابت کردیا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اپنے فرقی اختلافات کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں وہ دراصل دین کی جڑ پرضرب لگاتے ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ ذیقعدہ، ذی الحج63ھ ۔ نومبر، دسمبر 44ء)